نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میرے ووٹ پر ڈاکا نامنظور، پارلیمان پر ڈاکا نامنظور۔۔۔ || نذیر ڈھوکی

حقیقت یہ ہے عمران خان کی نالائقوں کی وجہ سے پاکستان عالمی دنیا میں تنہائی کا شکار ہو چکا تھا، پاکستان کے قریبی دوست ممالک خفا ہوگئے تھے، یورپی ممالک کے خلاف عمران کی بیان بازی کی قیمت پاکستان چکا رہا تھا باقی کسر سائفر طوطا کہانی نے پوری کردی تھی اس طرح پاکستان کے خارجہ امور زبوں حالی کے شکار ہو گئے تھے

نذیر ڈھوکی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھ کر قومی اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ مانگ لیا ہے ، ارے ہاں یاد آ گیا 2022 کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کو آمر جنرل پرویز مشرف نے غیر مہذب اسمبلی قرار دیا تھا اس کا مطلب یہ ہے کہ آمروں اور ججوں کی سوچ میں رتی برابر بھی فرق نہیں ہے ایسے لگ رہا ہے جیسے جسٹس منیر اور جسٹس انوار الحق کی آوارہ روح سپریم کورٹ کی عمارت میں آج بھی بھٹک رہی ہے جو جج صاحبان کو گمراہ کر رہی ہے ۔

ہم نے ججز بحالی تحریک چلانے کا خمیازہ بھی بھگتا تھا جب وکلاء تحریک نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا ڈرامہ رچایا تھا اس ڈرامے کا مقصد آمر جنرل پرویز مشرف کی سہولت کاری تھی کیونکہ انتخابات کے بائیکاٹ کا فائدہ جنرل پرویز مشرف کو ہی ہونا تھا ۔ کیا ہم بھول گئے کہ جن ججوں کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے رہا کیا تھا اور ان کو بحال کیا تھا پھر مولائے کائنات حضرت علی علیہ سلام کا قول بھی تو سچ ثابت ہونا ہی تھا کہ جس پر احسان کرو ان کے شر سے بچو ، اس افتخار چوہدری نے اپنے نجات دہندہ سید یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا ، وزیر آعظم سید یوسف رضا گیلانی کو کسی کرپشن کے الزام میں نہیں ہٹایا گیا تھا ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے آئین سے انحراف کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور وزیر اعظم میان نواز شریف کو برطرف کرکے واپس گھر بھیج دیا۔ کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہماری عدلیہ 1973 کے آئین کے خالق قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے قتل کے جرم میں تاریخ کے کٹہرے میں کھڑی ہے، میں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ ہماری عدلیہ کے جبڑے کو جمہوریت کا خون لگ گیا ہے، وہ آمروں اور آئین شکنوں کے سامنے اجتماعی طور سر بسجود ہوتے ہیں مگر جمہوری وزرائے آعظم کے سامنے
ڈکٹیٹر جیسی اکڑ دکھاتے ہیں۔
در اصل قصور ہمارا اپنا ہے کیونکہ ہم عدلیہ کو مقدس گائے قرار دیتے رہے ہیں، جسٹس ثاقب نثار کے ہونہار پتر کی کہانی تو اب سامنے آئی ہے اس سے قبل افتخار چوہدری کے پتر کی داستان بھی منظر عام پر آئی تھی جس کو چچا ججوں نے بچالیا تھا۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اختیار ہے کہ وہ عوام کے پیسے کا حساب طلب کرے جب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سپریم کورٹ سے ڈیم فنڈز کا ریکارڈ مانگا تو انکار کردیا گیا، سوال یہ ہے کہ ہمارے ججز صاحبان ارش مولا سے اترے ہیں، فرشتے ہیں، یا خدائی فوجدار ہیں کہ ان سے عوام کی منتخب پارلیمنٹ کی ایسی کمیٹی جو بااختیار ہوتے ہی بھی عوام کے پیسے کا حساب نہ مانگے ؟
میں اس ملک کا شہری ہوں، میں نے آئین اور جمہوریت کی خاطر طویل عرصہ قید کاٹی ہے مجھ پر کوئی مقدمہ بھی نہیں تھا مجھے حق ہے کہ میں جمہوریت کا دفاع کروں ، مجھے اپنی پارلیمنٹ کا وقار بہت عزیز ہے ایک عام شہری کے ناطے بھی مجھے اپنے ووٹ پر ڈاکا منظور نہیں ہے، مجھے پارلیمنٹ پر ڈاکا بھی قابل قبول نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا سورج جب بھی طلوع ہوا ہے گڑھی خدا بخش بھٹو کے قبرستان سے خون کی لالی لیکر طلوع ہوا ہے جبکہ ہماری عدلیہ جمہوریت کے قتل میں آمروں کی داشتہ رہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنی عدلیہ کے بے ڈھنگ سراپوں پر چمکیلے لباس کب تک پہناتے رہیں گے جو آج خود مدعی ،منصف اور جلاد کا کردار ادا کر رہی ہے ۔ ایسے میں نعرہ حق تو گونجے گا:
مرے ووٹ پر ڈاکا نا منظور
پارلیمان پر ڈاکا نا منظور.

یہ بھی پڑھیں:

لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی

شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی

نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی

ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی

نذیر ڈھوکی کے مزید کالم پڑھیے

About The Author