رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا‘ بیگ صاحب آپ کے پاس بڑی خوبی ایک ہی ہے جو نواز شریف کو پسند ہے اور باقی خوبیوں پر بھاری ہے‘ وہ ہے آپ کا کشمیری ہونا۔باقی خوبیاں اس ایک خوبی کے آگے دم توڑ جاتی ہیں۔ نواز شریف کو علم ہے کہ آپ بینظیر بھٹو کے قریب تھے‘اگر بینظیر جیسی ذہین خاتون آپ پر بھروسا کرتی تھیں تو یقینا آپ میں کچھ خوبیاں ہیں۔آپ کے سول ملٹری افسران میں بڑے اہم تعلقات ہیں‘ملکی اور غیر ملکی سفارت کاروں سے آپ کی خوب بنتی ہے‘امریکن‘ برٹش اور یورپین سفارت کار آپ کے حلقۂ احباب میں ہیں۔اسلام آباد کا کون سا چھوٹا بڑا صحافی یا اینکر ہے جو آپ کا دوست نہیں؟ اب بتائیں ایسے بندے کو کون سا پارٹی لیڈر نہیں لینا چاہے گا؟ جو خوبیاں بینظیر بھٹو کو آپ میں نظر آتی تھیں بدقسمتی سے زرداری صاحب کے سامنے خامیاں بن چکی ہیں۔ آپ سے زیادہ یہ زرداری صاحب کا نقصان ہے کہ پیپلز پارٹی نے آپ پر طویل عرصہ سیاسی انویسٹمنٹ کی اور وہی اثاثہ اب نواز لیگ کے کام آئے گا۔زرداری صاحب نے صدر بننے کے بعد سب دشمنوں اور مخالفوں کے ساتھ صلح کر لی لیکن آپ کو ”معافی‘‘ نہ ملی کہ آپ امین فہیم کے دوست تھے جنہیں وہ وزیراعظم نہیں بنانا چاہتے تھے۔ امین فہیم کو تو وزیرِتجارت بنا دیا لیکن آپ اور آپ کی کلرفل ٹائیوں سے شدید ناراض رہے۔
بیگ صاحب بولے: زرداری صاحب کو میں ابھی فون کروں کہ مجھ سے کوئی بڑا جرم ہوگیا ہے تو وہ فورا ًکہیں گے‘ آپ بالکل نہ گھبرائیں میں ابھی اپنے بندے بھیج رہا ہوں‘ آپ کو وہاں سے نکال کر بحفاظت ایوانِ صدرلے آئیں گے‘ پھر آپ کا پاسپورٹ بنوا کر اس پر ویزہ لگوا کر خاموشی سے بیرونِ ملک فرار کرا دیں گے‘ پولیس کو بھنک تک نہیں پڑے گی۔ بیرون ملک بھی خیال رکھا جائے گا‘ لیکن اگر میں انہیں ایوانِ صدر جا کر بریفنگ دوں گا کہ کیسے پاکستان اپنی مین پاور بیرونِ ملک منڈیوں میں کھپا سکتا ہے‘ وہ صدر ہو کر کیسے پاکستان کا فائدہ کرسکتے ہیں‘بھٹو کی طرح لاکھوں پاکستانی بیرونِ ملک بھیج کر جہاں ملک کا زرِمبادلہ بڑھا سکتے ہیں وہیں وہ پارٹی کا مستقل ووٹ بینک بھی پیدا کرسکتے ہیں تو وہ ہنس کر کہیں گے‘ بیگ تو چریا ہوگیا ہے‘ کیا احمقانہ تجویزیں دیتا رہتا ہے۔بیگ صاحب کہنے لگے :یہ زرداری صاحب کا مائنڈ سیٹ ہے‘ اگر آپ کوئی غلط کام کر کے ان کے پاس جائیں تو وہ آپ کو گلے لگائیں گے‘ آپ کو اپنے قریبی حلقے میں شامل کریں گے‘ لیکن آپ کوئی اچھا منصوبہ لے کر جائیں تو آپ کو پرے دھکیل دیں گے کہ یہ میرے کسی کام کا نہیں۔
بتانے لگے کہ وہ دو تین دفعہ ایوانِ صدر گئے اور کئی اہم ایشوز پر بریفنگ دینا چاہتے تھے جس سے ملک اور پارٹی کو سیاسی فائدہ ہوتا‘ انہوں نے بات تک نہ سنی۔ وہ مجھے شدید ناپسند کرتے ہیں‘ اب اس پارٹی میں میری جگہ نہیں۔میں نے کہا‘ ان تمام باتوں کے باوجود میں کہوں گا آپ پارٹی نہ چھوڑیں۔ آپ نے کونسا سیاست سے اربوں کمانے ہیں‘ آپ کا اپنا کاروبار ہے۔آپ جیسے لوگ پارٹیاں چھوڑتے اچھے نہیں لگتے۔ کچھ دن ”سیاسی بیروزگاری ‘‘کے بھی کاٹ لینے چاہئیں‘ ہوسکتا ہے کچھ عرصہ بعد زرداری صاحب کو آپ کی سیاسی‘ سفارتی اور صحافتی محاذ پر ضرورت پڑ جائے۔ مجھے محسوس ہوا بیگ صاحب کو میری یہ باتیں پسند نہیں آرہیں۔ میں چپ ہوگیا۔بولے: RK تم سیاست کو سمجھتے ہو‘ خود سیاست میں کیوں نہیں آجاتے؟میں نے سنجیدگی سے جواب دیا کہ سیاست کو دور سے بیٹھ کر پڑھنا‘ سمجھنا‘ سیاسی وارداتوں‘ باریکیوں‘ جوڑ توڑ یا سازشوں بارے جانکاری رکھنا ایک اور بات ہے اور عملی طور پر وہ سب کچھ کرنا جو آپ سمجھتے ہیں وہ دوسری بات ہے۔ میرا مزاج ہرگز سیاسی نہیں اور میں نے زندگی سے ایک سبق سیکھا ہے کہ زندگی میں وہی کام کریں جو آپ کا مزاج ہے۔
خیر بیگ صاحب فیصلہ کرچکے تھے۔ وہ صرف ارشد شریف اور میرے جیسے دوستوں سے اپنے فیصلے پر مہر لگوانا چاہتے تھے تا کہ ہم بھی اونرشپ لیں۔میں نے کہا: بیگ صاحب ارشد سے مہر لگوا لیں۔ ارشد مسکرا پڑا۔ ارشد بولا :بیگ صاحب نواز لیگ کو جوائن کرنا چاہتے ہیں‘تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ میں نے کہا: بھائی جان آپ بھول گئے کہ بیگ صاحب نے پوچھا تو میں مشورہ نہیں دے رہا تھا کہ یہ سیاسی فیصلے وہ خود کریں۔ ایک صحافی کا کام سیاستدانوں کا ایڈوائزر لگنا نہیں ہوتا‘ لیکن جب انہوں نے کہا کہ دوست بن کر پوچھ رہا ہوں تو مشورہ دے دیا جو مجھے سمجھ آیا۔اب میری بدقسمتی ان کی مرضی کا مشورہ نہیں دیا۔بیگ صاحب کہنے لگے :انہوں نے گھر بچوں سے مشورہ کیا تھا تو ان کے بیٹے سمیر بیگ نے بھی میری طرح مخالفت کی تھی۔ سمیر نے بھی باپ کو وہی مشورہ دیا تھا جو میں نے دیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی نہ چھوڑیں۔ میں نے کہا: بیگ صاحب آپ کا بیٹا ٹھیک کہہ رہا ہے‘ سیاسی پارٹیوں میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے‘ سیاستدان کو اپنی کھال تھوڑی موٹی رکھنی چاہئے۔ کسی بھی انسان میں اَنا کا ہونا اچھی بات ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ سیاستدانوں میں اگر اَنا اور تکبر زیادہ بھر جائے تو وہ بہت جلد خود کو نقصان پہنچا لیتے ہیں۔ آپ اگر اَنا سے بھرے ہوئے ہیں تو پھر آپ سب کچھ ہوسکتے ہیں لیکن سیاستدان نہیں۔آپ ٹیکنوکریٹ ٹائپ سیاستدان ہیں‘ وائٹ کالر سیاستدان جو سیاست کو اچھے طریقے سے کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن پاکستان کیا اب تو دنیا بھر میں سیاست ایسے نہیں ہوتی۔ آپ کو گدلے پانی میں گدلا ہونا پڑتا ہے‘ کپڑے اتار کر سیاسی پانیوں میں چھلانگ لگانی پڑتی ہیں جہاں پہلے سے موجود لوگ بھی ننگے ہوتے ہیں۔ جب ایک حمام میں سب ہی ننگے ہیں تو پھر کون سی شرمندگی؟بیگ صاحب نے میری طرف دیکھا اور بولے: کچھ کھائو گے؟میں مسکرایا اور کہا: لگتا ہے آپ کو مجھ سے مشورہ مانگنا مہنگا پڑا ہے اب کھانے سے میرا منہ بند کرانا چاہتے ہیں۔ہم اٹھے اور ان کے دفتر کی ٹیبل پر بیٹھ کر لنچ کرنے لگے۔ گفتگو کا موضوع بدل گیا تھا۔ اگلے دن اخبارات میں انور بیگ اور نواز شریف کی پنجاب ہاؤس میں ملاقات کی تصویریں چھپی ہوئی تھیں جس میں قہقہہ لگاتے ہوئے دونوں کے سر تقریبا ًایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے۔ ایک بڑے انگریزی اخبار جس کے مالک کے ساتھ بیگ صاحب کی کراچی کے دنوں سے ذاتی دوستی تھی ‘نے اپنے صفحۂ اول پر وہ تصویر چھاپی تھی جسے بعد میں انور بیگ نے فریم کرا کے اپنے بلیو ایریا والے دفتر میں لگایا ہوا تھا۔
بیگ صاحب کے جوائن کرنے کے سال سوا سال بعد جب نواز شریف 2013ء میں وزیراعظم بنے تو انہوں نے انور بیگ کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا چیئر مین بنا کر وہ عزت دی جس کے وہ حقدار تھے۔ بیگ صاحب کو جو مقام پیپلز پارٹی کو دینا چاہئے تھا وہ نواز شریف نے دیا۔ انور بیگ پانچ سال بعد دوبارہ سیاسی منظر پر نمودار ہوچکے تھے۔ ان کے پاس بہت سے پلان تھے کہ وہ کیسے اس پروگرام کو آگے لے کر جائیں گے اور نوجوانوں کو ہنرمندی کی طرف لے کر جائیں گے تاکہ اندرون ملک اور بیرون ملک ان کی کھپت ہو۔شاید چیئر مین بنے ایک سال گزرا تھاکہ انور بیگ کا میسج آیا‘ RK بلیو ایریا دفتر میں لنچ کرتے ہیں‘ارشد شریف بھی آرہا ہے۔دفتر اکٹھے ہوئے تو چہرے پر کچھ سنجیدگی تھی۔ کہنے لگے: یار RK ایک مشورہ کرنا ہے۔میں ہنس پڑا اور بولا: بیگ صاحب مشورے تو آپ کرتے ہیں لیکن کرتے وہی ہیں جو آپ دل میں پہلے سے طے کرچکے ہوتے ہیں۔بولے: یار پہلے بات سن لو۔ میں نے کہا: مجھے علم ہے آپ نے کیا مشورہ کرنا ہے۔آپ BISP سے استعفیٰ دینا چاہتے ہیں۔ نواز لیگ چھوڑنا چاہتے ہیں۔ارشد شریف نے بے ساختہ میری طرف دیکھا جبکہ بیگ صاحب حیرانی سے بولے تمہیں کیسے پتہ؟(جاری )
بیگ صاحب بولے: زرداری صاحب کو میں ابھی فون کروں کہ مجھ سے کوئی بڑا جرم ہوگیا ہے تو وہ فورا ًکہیں گے‘ آپ بالکل نہ گھبرائیں میں ابھی اپنے بندے بھیج رہا ہوں‘ آپ کو وہاں سے نکال کر بحفاظت ایوانِ صدرلے آئیں گے‘ پھر آپ کا پاسپورٹ بنوا کر اس پر ویزہ لگوا کر خاموشی سے بیرونِ ملک فرار کرا دیں گے‘ پولیس کو بھنک تک نہیں پڑے گی۔ بیرون ملک بھی خیال رکھا جائے گا‘ لیکن اگر میں انہیں ایوانِ صدر جا کر بریفنگ دوں گا کہ کیسے پاکستان اپنی مین پاور بیرونِ ملک منڈیوں میں کھپا سکتا ہے‘ وہ صدر ہو کر کیسے پاکستان کا فائدہ کرسکتے ہیں‘بھٹو کی طرح لاکھوں پاکستانی بیرونِ ملک بھیج کر جہاں ملک کا زرِمبادلہ بڑھا سکتے ہیں وہیں وہ پارٹی کا مستقل ووٹ بینک بھی پیدا کرسکتے ہیں تو وہ ہنس کر کہیں گے‘ بیگ تو چریا ہوگیا ہے‘ کیا احمقانہ تجویزیں دیتا رہتا ہے۔بیگ صاحب کہنے لگے :یہ زرداری صاحب کا مائنڈ سیٹ ہے‘ اگر آپ کوئی غلط کام کر کے ان کے پاس جائیں تو وہ آپ کو گلے لگائیں گے‘ آپ کو اپنے قریبی حلقے میں شامل کریں گے‘ لیکن آپ کوئی اچھا منصوبہ لے کر جائیں تو آپ کو پرے دھکیل دیں گے کہ یہ میرے کسی کام کا نہیں۔
بتانے لگے کہ وہ دو تین دفعہ ایوانِ صدر گئے اور کئی اہم ایشوز پر بریفنگ دینا چاہتے تھے جس سے ملک اور پارٹی کو سیاسی فائدہ ہوتا‘ انہوں نے بات تک نہ سنی۔ وہ مجھے شدید ناپسند کرتے ہیں‘ اب اس پارٹی میں میری جگہ نہیں۔میں نے کہا‘ ان تمام باتوں کے باوجود میں کہوں گا آپ پارٹی نہ چھوڑیں۔ آپ نے کونسا سیاست سے اربوں کمانے ہیں‘ آپ کا اپنا کاروبار ہے۔آپ جیسے لوگ پارٹیاں چھوڑتے اچھے نہیں لگتے۔ کچھ دن ”سیاسی بیروزگاری ‘‘کے بھی کاٹ لینے چاہئیں‘ ہوسکتا ہے کچھ عرصہ بعد زرداری صاحب کو آپ کی سیاسی‘ سفارتی اور صحافتی محاذ پر ضرورت پڑ جائے۔ مجھے محسوس ہوا بیگ صاحب کو میری یہ باتیں پسند نہیں آرہیں۔ میں چپ ہوگیا۔بولے: RK تم سیاست کو سمجھتے ہو‘ خود سیاست میں کیوں نہیں آجاتے؟میں نے سنجیدگی سے جواب دیا کہ سیاست کو دور سے بیٹھ کر پڑھنا‘ سمجھنا‘ سیاسی وارداتوں‘ باریکیوں‘ جوڑ توڑ یا سازشوں بارے جانکاری رکھنا ایک اور بات ہے اور عملی طور پر وہ سب کچھ کرنا جو آپ سمجھتے ہیں وہ دوسری بات ہے۔ میرا مزاج ہرگز سیاسی نہیں اور میں نے زندگی سے ایک سبق سیکھا ہے کہ زندگی میں وہی کام کریں جو آپ کا مزاج ہے۔
خیر بیگ صاحب فیصلہ کرچکے تھے۔ وہ صرف ارشد شریف اور میرے جیسے دوستوں سے اپنے فیصلے پر مہر لگوانا چاہتے تھے تا کہ ہم بھی اونرشپ لیں۔میں نے کہا: بیگ صاحب ارشد سے مہر لگوا لیں۔ ارشد مسکرا پڑا۔ ارشد بولا :بیگ صاحب نواز لیگ کو جوائن کرنا چاہتے ہیں‘تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ میں نے کہا: بھائی جان آپ بھول گئے کہ بیگ صاحب نے پوچھا تو میں مشورہ نہیں دے رہا تھا کہ یہ سیاسی فیصلے وہ خود کریں۔ ایک صحافی کا کام سیاستدانوں کا ایڈوائزر لگنا نہیں ہوتا‘ لیکن جب انہوں نے کہا کہ دوست بن کر پوچھ رہا ہوں تو مشورہ دے دیا جو مجھے سمجھ آیا۔اب میری بدقسمتی ان کی مرضی کا مشورہ نہیں دیا۔بیگ صاحب کہنے لگے :انہوں نے گھر بچوں سے مشورہ کیا تھا تو ان کے بیٹے سمیر بیگ نے بھی میری طرح مخالفت کی تھی۔ سمیر نے بھی باپ کو وہی مشورہ دیا تھا جو میں نے دیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی نہ چھوڑیں۔ میں نے کہا: بیگ صاحب آپ کا بیٹا ٹھیک کہہ رہا ہے‘ سیاسی پارٹیوں میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے‘ سیاستدان کو اپنی کھال تھوڑی موٹی رکھنی چاہئے۔ کسی بھی انسان میں اَنا کا ہونا اچھی بات ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ سیاستدانوں میں اگر اَنا اور تکبر زیادہ بھر جائے تو وہ بہت جلد خود کو نقصان پہنچا لیتے ہیں۔ آپ اگر اَنا سے بھرے ہوئے ہیں تو پھر آپ سب کچھ ہوسکتے ہیں لیکن سیاستدان نہیں۔آپ ٹیکنوکریٹ ٹائپ سیاستدان ہیں‘ وائٹ کالر سیاستدان جو سیاست کو اچھے طریقے سے کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن پاکستان کیا اب تو دنیا بھر میں سیاست ایسے نہیں ہوتی۔ آپ کو گدلے پانی میں گدلا ہونا پڑتا ہے‘ کپڑے اتار کر سیاسی پانیوں میں چھلانگ لگانی پڑتی ہیں جہاں پہلے سے موجود لوگ بھی ننگے ہوتے ہیں۔ جب ایک حمام میں سب ہی ننگے ہیں تو پھر کون سی شرمندگی؟بیگ صاحب نے میری طرف دیکھا اور بولے: کچھ کھائو گے؟میں مسکرایا اور کہا: لگتا ہے آپ کو مجھ سے مشورہ مانگنا مہنگا پڑا ہے اب کھانے سے میرا منہ بند کرانا چاہتے ہیں۔ہم اٹھے اور ان کے دفتر کی ٹیبل پر بیٹھ کر لنچ کرنے لگے۔ گفتگو کا موضوع بدل گیا تھا۔ اگلے دن اخبارات میں انور بیگ اور نواز شریف کی پنجاب ہاؤس میں ملاقات کی تصویریں چھپی ہوئی تھیں جس میں قہقہہ لگاتے ہوئے دونوں کے سر تقریبا ًایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے۔ ایک بڑے انگریزی اخبار جس کے مالک کے ساتھ بیگ صاحب کی کراچی کے دنوں سے ذاتی دوستی تھی ‘نے اپنے صفحۂ اول پر وہ تصویر چھاپی تھی جسے بعد میں انور بیگ نے فریم کرا کے اپنے بلیو ایریا والے دفتر میں لگایا ہوا تھا۔
بیگ صاحب کے جوائن کرنے کے سال سوا سال بعد جب نواز شریف 2013ء میں وزیراعظم بنے تو انہوں نے انور بیگ کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا چیئر مین بنا کر وہ عزت دی جس کے وہ حقدار تھے۔ بیگ صاحب کو جو مقام پیپلز پارٹی کو دینا چاہئے تھا وہ نواز شریف نے دیا۔ انور بیگ پانچ سال بعد دوبارہ سیاسی منظر پر نمودار ہوچکے تھے۔ ان کے پاس بہت سے پلان تھے کہ وہ کیسے اس پروگرام کو آگے لے کر جائیں گے اور نوجوانوں کو ہنرمندی کی طرف لے کر جائیں گے تاکہ اندرون ملک اور بیرون ملک ان کی کھپت ہو۔شاید چیئر مین بنے ایک سال گزرا تھاکہ انور بیگ کا میسج آیا‘ RK بلیو ایریا دفتر میں لنچ کرتے ہیں‘ارشد شریف بھی آرہا ہے۔دفتر اکٹھے ہوئے تو چہرے پر کچھ سنجیدگی تھی۔ کہنے لگے: یار RK ایک مشورہ کرنا ہے۔میں ہنس پڑا اور بولا: بیگ صاحب مشورے تو آپ کرتے ہیں لیکن کرتے وہی ہیں جو آپ دل میں پہلے سے طے کرچکے ہوتے ہیں۔بولے: یار پہلے بات سن لو۔ میں نے کہا: مجھے علم ہے آپ نے کیا مشورہ کرنا ہے۔آپ BISP سے استعفیٰ دینا چاہتے ہیں۔ نواز لیگ چھوڑنا چاہتے ہیں۔ارشد شریف نے بے ساختہ میری طرف دیکھا جبکہ بیگ صاحب حیرانی سے بولے تمہیں کیسے پتہ؟(جاری )
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر