یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور کے یکی گیٹ میں ایک منجن قسم کے بزرگ دفن ہیں۔ ان کا نام پیر ذکی تھا، جو بگڑ کر یکی بن گیا۔ ان کے دو مقبرے میں، تھوڑے فاصلے پر۔ کہتے ہیں کہ وہ مغلوں یا افغانوں سے لڑ رہے تھے۔ لڑتے لڑتے اُن کا سر علیحدہ ہو گیا، مگر دھڑ پھر بھی لڑتا رہا۔ ایک جگہ اُن کا سر گرا اور وہاں مقبرہ بن گیا۔ دوسری جگہ اُن کا دھڑ گرا اور وہاں دوسرا مقبرہ بنا۔
ان بزرگ کو ہمارا قومی ہیرو ہونا چاہیے، کیونکہ ہم بھی کھوپڑی دماغ سمیت علیحدہ ہو جانے کے بعد لڑتے جا رہے ہیں۔ اقبال فرما گئے ہیں، شمشیر و سناں اول……۔ بس اتنا ہی کافی ہے، آج کل لوگوں کی وطنیت اُبلی پڑ رہی ہے۔
سرکش بیویاں کان کھول کر سن لیں!
یہ آپ کے معاشرے کے غالب بیانیے کے دو پہلو نہیں۔ یہ ایک ہی پہلو ہے۔ رابی پیرزادہ خوشی سے نہیں کہہ رہی، اُسے پتا ہی نہیں کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔ وہ رٹو طوطا ہے جس نے اس دنیا میں سروائیو کرنا ہے۔
عورت مارچ کے دنوں میں ہم اس رائے کو مختلف رنگوں اور پیکیجز میں بار بار سنیں گے۔ یہ مقدس بیانیہ ہے۔ اِسے صدیوں کی تعظیم حاصل ہے، تمام ادارے اور ریاست کی ساری قوت اِس کے پیچھے ہے۔ پھر بھی یہ اتنا ناتواں ہے کہ دو چار سو کا اجتماع اور ایک درجن پلے کارڈز اِسے ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ میں نے جہالت کو ہمیشہ بہت کمزور پایا۔ یہی وجہ ہے کہ اِسے مستحکم بنانے کے لیے اتنے زیادہ قوانین اور اخلاقی ضابطوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ریاض ہاشمی دی یاد اچ کٹھ: استاد محمود نظامی دے سرائیکی موومنٹ بارے وچار
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو
راجدھانی دی کہانی:پی ٹی آئی دے کتنے دھڑےتے کیڑھا عمران خان کو جیل توں باہر نی آون ڈیندا؟