عثمان غازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افریقی ہاتھی اگر قدرتی ماحول میں رہیں تو عموماً 70 برس تک کی عمر پاتے ہیں جبکہ قید میں ان کی اوسط عمر 40 برس تک ہوتی ہے مگر نورجہاں کو صرف 17 برس کی عمر میں موت نے آلیا، وہ نو دن تک زندگی اور موت کی کشمکش میں کراچی کے چڑیا گھر میں مٹی کے ڈھیر پر اپنی زندگی کے آخری دن وہ محبتیں سمیٹتی رہی جو اسے پہلے کبھی نہیں ملیں۔
نورجہاں کی قسمت کاون جیسی نہیں تھی، “دنیا کے سب سے تنہا ہاتھی” کاون کو دو دہائیوں تک اسلام آباد کے چڑیا گھر میں زنجیروں میں جکڑ کر رکھا گیا تھا اور وہ اپنی ساتھی سہیلی نامی ہاتھی کی موت کے بعد ذہنی دباؤ کا شکار تھا تاہم جانوروں کے حقوق کے نمائندوں کی زبردست مہم کے بعد کاون کو 2021 میں اس قید سے رہائی ملی اور آج وہ کمبوڈیا میں قدرتی ماحول میں اپنے نئے دوستوں کے ساتھ خوش ہے۔
کراچی کے چڑیا گھر میں مدھوبالا نامی ہاتھی ہمارے غیرذمہ دارانہ روئیے کا اگلا شکار ہونے جارہی ہے، اسے بہت کم عمری میں تنزانیہ میں اس کی ماں سے چھین لیا گیا تھا، انسان سمیت دنیا کے ہر جاندار کا حق ہے کہ وہ قدرتی ماحول میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ رہے، غلامی یا قید صرف انسانوں کے لئے ہی بری نہیں ہے بلکہ یہ جانوروں پر بھی بدترین ذہنی و جسمانی اثرات مرتب کرتی ہے۔
زو کے بجائے اگر نیشل پارکس اور اینمل سینکچریز میں جانوروں کو رکھا جائے تو یہ عمل نہ صرف جانوروں کو ایک بہتر ماحول اور ان پر تحقیق میں معاون ثابت ہوگا بلکہ ناپید ہوتے جانوروں کی بھی یہاں نسل پروان چڑھائی جاسکتی ہے جبکہ قید میں اداس اور تنہا جانوروں کو دیکھنے کے بجائے یہ بچوں کے لئے بھی بہتر ہوگا کہ وہ خوش اور متحرک جانوروں کا قدرتی ماحول میں مشاہدہ کریں۔
نورجہاں کی افسوس ناک موت ہم سب انسانوں کے لئے ایک پیغام ہے کہ غلامی اور قید کے اس باب کو بھی اب پوری دنیا میں بند ہونا چاہئیے، یہ دنیا صرف انسانوں کی نہیں ہے بلکہ ایکوسسٹم میں اپنا کردار ادا کرنے والا یہاں کا ہر جاندار آزادی کا حق رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
پاکستان میں راجہ داہر اور محمد بن قاسم پر بحث خوش آئندہے۔۔۔ عثمان غازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر