وہ ساری سیاسی جماعتیں جو مزارعوں کے ووٹوں کے لالچ میں ساتھ دینے کا وعدہ کرتی آئی تھیں منظر سے غائب ہو گئیں۔ پیچھے کچھ وکیل جن میں عاصمہ جہانگیر پیش پیش تھیں اور کچھ انسانی حقوق والے ان کے مقدمے لڑتے رہے۔ ورنہ کچھ سالوں تک لگا کہ اب باقی عمر مہر ستار جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی گزارے گا۔
محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انجمن مزارعین پنجاب والے مہر ستار کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملنے پر پہلے خیال آیا کہ مہر ستار کو مبارک باد دوں، آخر گرائیں بھی ہے، بھائی بھی کہتا ہے، پھر خیال آیا نہیں مبارک باد پی ٹی آئی کو بنتی ہے جس نے ہماری نئی نسل کو نئے خواب دکھا کر پرانے چودھریوں کی چاکری میں دھکیلا تھا۔ اس پی ٹی آئی کو نئی نسل کا زمین سے جڑا ایسا لیڈر ملا ہے جو وہ سب کچھ بھگت چکا ہے جو آج کل پی ٹی آئی بھگت رہی ہے۔
کوئی بائیس، پچیس سال پہلے سکون سے بی بی سی کے لندن والے نیوز روم میں بیٹھا تھا تو آبائی شہر اوکاڑہ سے کسانوں کے احتجاج کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔ غور سے سنا تو پتہ لگا کہ میرے گاؤں کے ساتھ والے گاؤں میں مزارعوں کی تحریک اُبھر رہی ہے۔ میرے زیادہ تر صحافی دوست چیتے رپورٹر ہیں اور دور دور کی خبریں نکال لیتے ہیں۔
میں بچپن سے ہی سست مزاج ہوں لیکن اپنے ساتھ والے گاؤں میں بغاوت کی خبر سُن کر خیال آیا کہ یا تو گاؤں بدل لو یا پیشہ یا پھر رپورٹر کی طرح اُٹھو اور پتہ کرو کہ چل کیا رہا ہے؟
لندن سے سیدھا اپنے گاؤں پہنچا۔ اپنے باپ جیسے بڑے بھائی سے کہا کہ ملٹری فارمز والے گاؤں جانا ہے کوئی واقف ہے تو ملوا دیں۔ انھوں نے کہا کہ سب اپنے واقف ہیں اور ساتھ ہی زندگی میں پہلی اور آخری دفعہ کہا کہ تم اس گاؤں نہیں جانا۔ فوج کے ناکے ہیں ہر آنے جانے والے کی ٹھکائی کرتے ہیں۔ وہ تم سے تمہارا بی بی سی کا کارڈ بعد میں پوچھیں گے پہلے ٹھکائی کریں گے۔
میرے گاؤں اور مہر ستار کے گاؤں کے بیچ صرف ایک سڑک تھی، پہرا اتنا سخت تھا کہ مجھے زندگی میں پہلی دفعہ پاکستان میں لیٹ کر کہنیوں کے بل سڑک پار کرنی پڑی۔ دوسری طرف فصلوں میں موٹر سائیکل لٹا کر چھپے لڑکوں نے مجھے مہر ستار تک پہنچایا۔
،تصویر کا ذریعہ SOCIAL MEDIA
،تصویر کا کیپشن ’مہر ستار یونیورسٹی سے فارغ نوجوان تھا جو اپنے ان گھروں اور زمینوں کو بچانے کے لیے لوگ اکٹھے کر رہا تھا۔ مجھے لگا کہ یہ چھوٹا سا مہر ایک بڑا پھڈا لے بیٹھا ہے۔ اللہ خیر کرے‘مہر ستار یونیورسٹی سے فارغ نوجوان تھا جو اپنے ان گھروں اور زمینوں کو بچانے کے لیے لوگ اکٹھے کر رہا تھا جو سو سال زمین کاشت کر رہے تھے۔ مجھے لگا کہ یہ چھوٹا سا مہر ایک بڑا پھڈا لے بیٹھا ہے۔ اللہ خیر کرے۔
دو، چار گھنٹے کی رپورٹنگ وغیرہ کے بعد مجھے جب کہانی سمجھ آ گئی اور میں واپس جانے کی کوشش میں تھا تو اس نے کہا نہیں مجھے آپ کو اور گاؤں بھی دکھانے ہیں۔ ورنہ لوگ کہیں گے کہ بی بی سی کا رپورٹر آیا اور مہر نے ہم سے ملوایا ہی نہیں۔ ہم اس کی موٹر سائیکل پر ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں، ایک کے بعد دوسری پنچایت۔ ایسی پنچایتیں بھی جن میں عورتیں بھی بیٹھی ہیں، ایسے گاؤں بھی جن کے چودھری مسیحی ہیں۔
ملٹری فارمز کے گاؤں والوں اور فوج کی آنکھ مچولی 15 سال سے زیادہ عرصہ تک چلی، آخر مہر ستار کو اٹھا لیا گیا۔ دہشت گردی، غنڈہ گردی، غیر ملکی کرنسی قسم کے کیس ملا کر کوئی 36 مقدمے بنے اور مہر ستار پیروں میں بیڑیوں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیوں کے ساتھ ساہیوال کی ہائی سکیورٹی جیل میں پہنچ گیا۔
وہ ساری سیاسی جماعتیں جو مزارعوں کے ووٹوں کے لالچ میں ساتھ دینے کا وعدہ کرتی آئی تھیں منظر سے غائب ہو گئیں۔ پیچھے کچھ وکیل جن میں عاصمہ جہانگیر پیش پیش تھیں اور کچھ انسانی حقوق والے ان کے مقدمے لڑتے رہے۔ ورنہ کچھ سالوں تک لگا کہ اب باقی عمر مہر ستار جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی گزارے گا۔
ہمارے ادارے کو زمینوں کا بہت شوق ہے، جو اپنی زمینوں پر بیٹھ کر ادارے کو للکارے گا، ’مالکی یا موت‘ کا نعرہ لگائے گا، تو کیا ادارہ خاموش بیٹھا رہے گا۔
مہر ستار جیل تھا، اور جب سب نے ساتھ چھوڑ دیا تو مزارعوں نے ساتھ نہیں چھوڑا، اداروں کو اپنے کھیتوں کھلیانوں میں گھسنے نہیں دیا۔ میں نے اوکاڑہ کے ایک بزرگ سیاسی کارکن چوہدری سجاد سے پوچھا مزارعوں اور اداروں کا مسئلہ کیسے حل ہو گا؟ انھوں نے کہا اگر بلوچستان ہوتا تو ٹینک آ جاتے، ہیلی کاپٹر پرواز کرتے، علاقہ خالی ہو جاتا۔ یہ مسئلہ دو چار سو بندے مار کے حل ہو سکتا ہے لیکن اداروں میں اتنی ہمت نہیں کہ سینٹرل پنجاب کے دیہاتوں میں ٹینک لے کر گھس جائیں۔
،تصویر کا ذریعہ COURTESY HASNAIN RAZA
مہر ستار کوئی ساڑھے چار سال بعد جیل سے رہا ہوا اور اب بھی کئی سیاسی کارکن جن کی اپنی قیادت کو اداروں کو مائی باپ بنانے سے فرصت نہیں وہ اسے ہیرو سمجھتے ہیں کیونکہ اس نے اداروں سے ٹکر لی اور ابھی بھی آزاد گھوم رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے نقاد بھی تعریفیں کر رہے ہیں کہ نئی نئی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوئی پی ٹی آئی نے ایک ایسے شخص کو ٹکٹ دیا ہے جو واقعی ٹکر کا آدمی تھا۔ لیکن میرے گرائیں کے کندھوں پر اپنی ساری خواہشوں کا بوجھ مت ڈالیں۔ وہ مالکی یا موت کا نعرہ لے کر چلا تھا۔ موت سے اللہ نے بچائے رکھا، مالکی ہمارے اصل مالکوں نے نہیں دی، لیکن نہ دو چار سو بندہ پنجاب میں مرا، نہ مزارعوں نے اپنی زمینیں چھوڑیں۔
اگرپی ٹی آئی کا حدف سویلین بالادستی ہی ہے تو عمران حان کو چاہیے کہ وہ گجرات کے چوہدریوں کو اپنا آئیڈیل نہ بنائیں بلکہ خود چھوٹا موٹا مہر ستار بننے کی کوشش کریں۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
About The Author Continue Reading
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر