یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس ملک یا معاشرے میں آپ رہتے ہوں، آپ اُس کی بے وقوفیوں پر پریشان تو ہو سکتے ہیں، لیکن اُس سے نفرت کبھی نہیں کر سکتے۔ مجھے اور آپ کو بھی اپنے ملک اور معاشرے سے محبت اور اِس میں بہتری آنے کی خواہش ہونا منطقی سی بات ہے، خواہ اِس کے پورا ہونے کا امکان کہیں دور دور تک دکھائی نہ دیتا ہو۔ اپنے معاشرے کو لاحق مرض کی تشخیص ہر کوئی کرتا رہتا ہے۔ کسی نے کہا کہ یہ معاشرہ نرگسیت کا شکار ہے۔ میرے خیال میں نرگسیت کوئی اتنی بھی منفی چیز نہیں۔ جرمن بھی تو اپنے آپ کو آریائی اور بہترین نسل سمجھتے تھے۔ کونسا گروہ ہے جو نرگسیت کا شکار نہیں؟ ایسا نہ ہو تو وہ گروہ ہی نہیں رہے گا۔
ملک خدادا زیادہ سنگین نوعیت کے حالات سے دوچار ہے۔ اس مرض کا نام شیزوفرینیا ہے۔ اِس سے مراد ایسی ذہنی حالت مراد ہے جس میں آپ حقیقت کی تفسیر ابنارمل بنیادوں پر کرتے ہیں۔ ابنارمل ایک اضافیاتی (relative) اصطلاح ہے۔ اس کا تعین خود آپ کے اصولوں اور ضابطوں یا کسوٹی کے مطابق نہیں بلکہ ارد گرد کے دیگر گروہوں اور انسانوں کے رویے کی روشنی میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر آپ کا طرزِ عمل گردوپیش کے سب لوگوں سے مختلف اور نقصان دہ ہے تو آپ ابنارمل کہلائیں گے۔ اگر آپ حقیقت کی تفسیر ابنارمل انداز میں کریں گے تو شیزوفرینیا کا شکار قرار پائیں گے۔ یعنی اگر آپ پستول کو قلفی سمجھ کر منہ میں ڈال لیں تو یہ حقیقت کی ابنارمل اور شیزوفرینیائی تعبیر ہو گی۔
اِس کی ایک بہت بڑی نشانی فریبِ خیال یا وسوسہ ہے۔ شیزوفرینیائی شخص کو اکثر لگتا ہے کہ کوئی اُسے ہلاک کرنے یا نقصان پہچانے کے در پے ہے۔ ایسا شخص اچانک تشنجی یا ہذیانی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی ملک یا معاشرہ کہے کہ ساری دنیا اُس کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے، اُسے صفحۂ ہستی سے مٹانا اور ختم کرنا چاہتی ہے، تو یہی شیزوفرینیا ہے۔ ہمارے ہر قسم کے قائدین اکثر اِس علامت کا برملا اظہار کرتے آئے ہیں۔ یہود و ہنود، مغرب، امریکہ گٹھ جوڑ کر رہے ہیں ہمیں ختم کرنے کے لیے۔ ہم کپکپاتے، چیختے چلاتے اور تشنجی کیفیت کا شکار رہتے ہیں۔ ہم شیزوفرینیائی ہیں۔
وسوسے کی ایک اور صورت عظمت کا خبط ہے جس کے کئی سہارے ڈھونڈے جاتے ہیں، چاہے وہ ارطغرل غازی کے ساتھ خود کو شناخت کرنا ہو یا طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم کی ’عظمتوں‘ کے قصے بیان کرنا اور سننا۔ اِس میں ہم صرف وہی چیزیں سنتے اور بتاتے ہیں جو ہماری مرضی کی ہوں۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں رہتی کہ محمد بن قاسم کی وفات کیسے ہوئی تھی۔ ہم دنیا بھر سے علاقے یا مسلک کی بنیاد پر عظمتیں جمع کر کے اپنی دم سے باندھتے اور اینڈتے پھرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عظمت کو تسلیم کیا جائے۔ جب کوئی ایسا نہیں کرتا تو ہم غصے میں آ جاتے ہیں، اور دوبارہ یوں ظاہر کرنے لگتے ہیں کہ ہمارے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ ہم شیزوفرینیا کا شکار ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر