ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن عزیز کی معیشت کی طرح سیاست بھی شدید دباو اور مشکلات کا شکار ہے ۔سیاسی بحران ہے کہ آئے روز بڑھتا ہی جارہا ہے ۔کوئی صورت نظر نہیں آرہی کہ بحران کا خاتمہ کیسے ہوگا ۔عدالتی فیصلہ ہے کہ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن ہوں گے اور الیکشن کمیشن کی یہ صورتحال ہے کہ نا تو اس کو کوئی فنڈز مل رہے ہیں اور ناہی کوئی ادارہ الیکشن کے لیئے سکیورٹی فراہم کرنے کو تیار ہے ۔ایسے میں پارلیمان کی بالادستی کے حوالے سے قراردادیں بھی منظور ہوئیں بیان بازی ہوئی بلکہ شعلہ بیانی ہوئی ۔از خود نوٹس پر بھی قانون سازی ہوئی ۔الیکشن کے لیئے سپلیمنٹری گرانٹ کو ایوان نے مسترد کردیا۔بینک کو حکم ہوا کہ ادائیگی کردیں مگر پھر بھی ادائیگی نہیں ہوسکی ۔ گویا کوئی تقدیر کارگر ثابت نہیں ہوئی ۔مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔آئین یہ کہتا ہے کہ نوئے روز میں الیکشن ہونے چاہیں جبکہ برسراقتدار جماعتوں کا خیال ہے کہ ملکی معیشت اس قدر بگڑ چکی ہے کہ فی الوقت اولین مسلئہ انتخابات نہیں معاشی بحالی ہے ۔
جبکہ عدالت یہ دلیل ماننے کو تیار نہیں اس ضمن میں چیمبر میں اعلیٰ افسروں نے بریفنگ بھی دی تاہم یہ بریفنگ بھی کام نا آئی ۔سیاسی جماعتوں کے قائدین کو عدالت میں طلب کرکے کہا گیا کہ باہمی اتفاق رائے سے اگر کوئی تاریخ دے دیتے ہیں تو عدالت اپنے فیصلے پر رجوع کرسکتی ہے وگرنہ 14 مئی کو انتخابات ہوں گے ۔ایسی صورتحال میں حکمران اتحاد میں مشاورت شروع ہوئی مگر یہ بے نتیجہ رہی ۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے تحریک انصاف سے مذاکرات کی حمایت کی تاہم دیگر جماعتوں نے مخالفت کی اس ضمن میں بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کرکے ان کو مذاکرات کے لیئے راضی کرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں مولانا نے ایک دبنگ پریس کانفرنس کردی ۔اس پریس کانفرنس کے بعد سیاسی بحران کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔مولانا کی گفتگو کے بعد ایک بات تو یہ تو طے ہوگئی کہ کہ 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن نہیں ہوتے اوردوسری بات یہ کہ مولانا کے عدلیہ سے کیئے گئے سوالات نے ایک اور محاز کھول دیا ہے ۔
مولانا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے عدلیہ سے پوچھا کہ عدالت یہ واضح کرئے کہ وہ عدالت ہے یا وہ پنچائیت ہے ۔مولانا نے کہا کہ جسطرح وہ انصاف کے مندر سے ہتھوڑا بجا رہے ہیں مولانا نے سوال پوچھا کہ آئین کی رو سے 90 روز میں الیکشن ناگزیر ہیں لیکن اگر عمران خان آپ سے کسی ایک تاریخ پر اتفاق کرلیں تو وہ قبول ہے ۔یہ کونسا آئین ہے ؟پریس کانفرنس کے دوران مولانا نے عمران خان کا نام لیئے بغیر کہا کہ جس شخص کو اب تک نااہل ہوجانا چاہیے تھا جس کو پاکستان کی سیاست کے دائرے سے باہر رکھا جانا چاہیے تھا ہماری سپریم کورٹ اس کو پاکستان کی سیاست کا محور بنا رہی ہے۔
مولانا نے کہا کہ ایک زمانہ تھا کہ جب ہمیں بندوق کے سائے میں کہا جاتا تھا کہ مذاکرات کرواب ہمیں ہتھوڑے کے سامنے کہا جارہا ہے کہ مذاکرات کرو۔مولانا نے کہا کہ کس شخص سے مذاکرات کریں کیا اس شخص سے مذاکرات کریں جو یہ کہتا ہے کہ الیکشن کے نتائج آنے کے بعد فیصلہ کروں گا کہ نتائج تسلیم ہیں یا نہیں ہیں ۔یعنی ہم مذاکرات اس بات پرکریں کہ اس شخص کو یقین دلائیں کہ آُپ کی اکژیت آئے گی۔مولانا نے پریس کانفرنس میں کہا کہ جناب چیف جسٹس صاحب آپ اور آُپ کے رفقا انتہائی معزز کرسی پر بیٹھ کر ہماری توہین کررہے ہیں ۔مولانا نے کہا کہ عدالت جس اختیار کے تحت ہم پر دھونس جما رہی ہے شائد وہ اس کا اختیار نہیں رہا ہے ۔اس کو پارلیمنٹ کے ایکٹ کا احترام کرنا ہو گا اس ایکٹ کی پیروی کرنی ہوگی۔
مولانا نے کہا کہ جس بینچ پر پارلیمنٹ عدم اعتماد کرچکی ہے کیا آج میں اس بینچ کے سامنے پیش ہوجاوں اور اس کو یقین دہانیاں کراوں ۔اگر عمران خان الیکشن چاہتا تو قومی اسمبلی کیوں نہیں توڑ رہا تھا ۔عمران خان نے ملک کی سیاست میں مشکل پیدا کرنے کے لیئے یہ حرکتیں کی ہیں ۔یہ لوگ ملک کے اندر ایسے اقدامات کریں جو سراسر احمقانہ ہوں ۔ان کو یہ پتہ ہی نہیں کہ ملکی مفاد کس میں ہے ان کویہ علم ہی نہیں یہ ادراک ہی نہیں کہ ملک کی سلامتی کے تقاضے کیا ہیں ۔ایسے ایسے احمقانہ فیصلے کرتے ہیں اور عدالت ہمیں یہ کہتی ہے کہ آپ اس شخص کے پیچھے چلیں۔
مولانا نے ججز سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ اس ایک شخص کو تحفظ دینے کے لیے پوری قوم کو زلیل کررہے ہیں ۔مولانا نے کہا کہ ہم عمران خان کو اس اہل نہیں سمجھتے کہ ان کے ساتھ بات چیت کی جائے ۔ہم ان کو نااہل سمجھتے ہیں ان کے جرائم کی بنیاد پراور عدالت ان کے جرائم کی بنیاد پر پہلے فیصلہ لے ۔مولانا نے ججز سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں آُپ کے انصاف کو تسلیم کرتا ہوں آپ کے ہتھوڑے کو تسلیم نہیں کرتا۔ہتھوڑا نہیں چلے گا جبر نہیں چلے گا۔اگر آپ نے جبر کی بنیاد پر ہم پر فیصلے مسلط کیئے تو پھر ہم بھی آپ کی عدالت میں جانے کی بجائے عوام کی عدالت میں جائیں گے پھر فیصلہ عوام کی عدالت میں ہوگا۔
مولانا فضل الرحمن کا شمار پاکستان کے زیرک سیاست دانوں میں ہوتا ہے ۔مولانا کی یہ پریس کانفرنس اس بات کی غمازی کررہی ہےکہ اب الیکشن نہیں ہوں گے بلکہ دمادم مست قلندر ہوگا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہو گا اور سیاسی کشیدگی عروج کو پہنچے گی ۔دیکھتے ہیں کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مولانا کے موقف کی کس قدر حمایت کرتی ہیں اور اگر مولانا کو ہم خیال جماعتوں کا اعتماد اور حمایت حاصل ہوگئی تو پھر 14 مئی کے الیکشن کو بھول جائیں۔ویسے اندازہ یہی ہے کہ مولانا نے مشاورت کے بعدہی یہ پریس کانفرنس کی ہوگی ۔
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ