نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آخری لڑائی، کئی امتحان باقی ہیں!!۔۔۔||عاصمہ شیرازی

شاید وقت آنے پر اس میں شامل کردار اُس وقت کی صورتحال کو بتا سکیں تاہم راوی خاموش ہے۔ بہر کیف دھرنے، مظاہرے، جلوس اور ہیجان سے بھرپور اس ڈرامہ سیریل کی دوسری قسط کا انجام سیاسی جماعتوں کی کامیابی یعنی جنرل عاصم کی تعیناتی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کاشت کا موسم ہے اور کاشت بھی اُس فصل کی جس کا بیج بے اعتباری کے موسم میں بویا گیا تھا۔ ہائبرڈ کاشتکاری کے اس عجب نمونے میں بیج بونے سے پہلے کھلیان کاٹنے اور بُور آنے سے قبل پتھر مارنے کا اصول کار فرما تھا۔ یہ رواج ہو تو کاشت آسان نہیں ہوتی امتحان بن جاتی ہے۔

حالات دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ چند برس قبل تیار کیے جانے والے ہائبرڈ رجیم کے ’ایک صفحے‘ کی آخری تحریر کو ’انجام بالخیر‘ کے بغیر ادھورا چھوڑا گیا یا الٹی ہو گئیں سب تدبیریں۔ اس بارے میں مصنف نے نہ تو کوئی اشارہ دیا اور نہ ہی کوئی کنایہ۔

مصنف کی تحریر میں آغاز تو تھا انجام سمجھ نہیں آیا یا کسی اور کتاب کے لیے ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ طے تو یہ پایا تھا کہ دس سالہ منصوبے میں تیسرے کردار کو بھی ضمانت فراہم کی جائے گی مگر درمیان میں آزمودہ اور دہائیوں سے لمبی اننگ کھیلنے والے کھلاڑی بھی موجود تھے جو اچھے بھلے ٹی ٹوئنٹی کو ٹیسٹ میچ میں بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور دوسری طرف کے کھلاڑیوں کو تھکانا بھی جانتے ہیں۔

بہرحال یوں محسوس ہوتا ہے کہ نظام اپنے قدرتی عمل سے گزرتے ہوئے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔

یہ لمحات بننے اور بگڑنے کے ہیں، تیار فصل کا پھل اب کس جھولی میں گرے گا اس کا علم تو شاید کسی کو نہیں مگر اتنی خبر ہے کہ آخری لڑائی بھی جنگ اعصاب کی ہے۔

آٹھ مارچ 2022 کو ملکی سیاسی تاریخ کے انوکھے باب کا آغاز ہوا۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نے ڈرامائی اور ہیجانی صورت اختیار کی جسے روکنے کے لیے بیرونی مداخلت اور امریکی سازشی بیانیہ ڈنکے کی چوٹ پر پیٹا گیا۔

اسمبلی ٹوٹی، غداری کے الزامات لگے اور سازشی تھیوریوں کے بیچ کپتان کو گھر جانا پڑا اور پھر حکمراں اتحاد معاشی گرداب میں ایسا الجھا کہ غیر مقبول عمران خان مقبولیت کے بام عروج پر پہنچ گئے، بظاہر جیتی ہوئی سیاسی جماعتیں جیت کر بھی ناکام محسوس ہونے لگیں۔

pdm

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

جنرل باجوہ کے ڈبل کردار کے شواہد اب منظر عام پر آ رہے ہیں۔ زرداری صاحب سے لے کر مولانا فضل الرحمن اور یہاں تک کہ عمران خان بھی گاہے گاہے موقع کی مناسبت سے جنرل باجوہ کے ارشادات اور فرمودات ببانگ دہل بتا رہے ہیں کہ عالی جناب کب کب اور کہاں متحرک رہے اور دو جمع دو تین یعنی عمران، باجوہ، فیض فارمولے پر عملدرآمد میں آخری دم تک کوشاں رہے۔

توسیع، توجیہہ اور تعمیل کے اس منصوبے میں دو تہائی اکثریت اور پھر ایجنڈے کی کارروائی پر بقیہ عملدرآمد بظاہر طویل منصوبہ بندی کا حصہ تھا، یہ منصوبہ سیاسی جماعتوں نے بھانپا اور پھر ڈھانپا بھی۔ اس پہلے مرحلے میں حکمران اتحاد کامیاب ہوا۔

دوسرا مرحلہ آرمی چیف کی تعیناتی کا تھا۔ جنرل عاصم منیر کی تعیناتی روکنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا۔ جنرل فیض کی تعیناتی ممکن نہ ہوئی تو جنرل باجوہ کی توسیع معرکے کی شکل اختیار کر گئی۔

شاید وقت آنے پر اس میں شامل کردار اُس وقت کی صورتحال کو بتا سکیں تاہم راوی خاموش ہے۔ بہر کیف دھرنے، مظاہرے، جلوس اور ہیجان سے بھرپور اس ڈرامہ سیریل کی دوسری قسط کا انجام سیاسی جماعتوں کی کامیابی یعنی جنرل عاصم کی تعیناتی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

اب دو تہائی اکثریت کی فصل کاشت کرنے کا آخری موقع اسمبلیوں کی تحلیل اور وقت سے پہلے دو اسمبلیوں کے فیصلہ کُن انتخاب کا مرحلہ تھا۔ عمران خان اسمبلیاں توڑنے کے مشورے کا الزام بھی جنرل باجوہ کو دے رہے ہیں جنھوں نے بقول اُن کے ایسا کرنے کی صورت یقینی انتخابات کا دلاسہ دیا تھا۔ جنرل باجوہ اور ان کے خیر خواہ کسی منصوبے کا حصہ تھے یا وعدے کی تکمیل کا، یہ فیصلہ ہونا باقی ہے۔

خیبر پختونخواہ اور پنجاب اسمبلیوں کی وقت سے قبل قربانی دے کر آئینی جواز تراشا گیا اور یوں انتخابات کے حصول کی گیند عدالتی ’کورٹ‘ میں آ گئی۔ اس جنگ میں اب تک عدالتیں کہاں کھڑی ہیں اور کیا کیا ہوا ہے وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

نیوٹرل ہوئے جنرل باجوہ عدم اعتماد کے آخری مرحلے پر تحریک واپس لینے کے مذاکرات سے لے کر اب سپریم کورٹ کے دو ججوں کی تقرری کے انکشاف، پرویز الہی کی حکومت کے وعدے کی تکمیل سے تریسٹھ اے کی تشریح تک ہر سازش کا حصہ معلوم ہوتے ہیں یا بتائے جاتے ہیں۔ یہ مکمل کہانی کب اور کیسے کھلے گی اس کے لئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

گذشتہ ایک سال کے اس ڈرامائی دور کے اس آخری مرحلے میں سپریم کورٹ کا تریسٹھ اے کی تشریح سے لے کر سٹیٹ بنک کو صرف پنجاب کے انتخابات تک کی رقم فراہم کرنے کی راہ دینا نہ جانے کس آئینی توجیح کا مظہر ہے البتہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی اس لڑائی میں انتظامیہ، مقتدرہ اور مقننہ اپنے محاذ پر یکجا نظر آتے ہیں۔

سنہ 2018 کے انتخابات سے قبل مقتدرہ اور عدلیہ کا مشترکہ محاذ اور اُس کے بطن سے جنم لینے والی ایک صفحے کی حکومت کو سیاسی جماعتوں کی مشترکہ سیاسی حکمت عملی نے کافی حد تک ناکام بنایا البتہ عوام کے محاذ پر سیاسی جماعتوں کے اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچی ہے۔

مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام نظام سے مایوس ہو رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ عدلیہ سے موجودہ محاذ آرائی پارلیمان جیت جائے تاہم سیاستدان عوام کے مفادات کے لیے یہ جنگ کیسے جیتیں گے اس کے لیے ابھی کئی امتحان باقی ہیں۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author