رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس کے ہنگامی اجلاس میں بیٹھے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ‘ اٹارنی جنرل اور ایم این ایز کی گفتگو سن کر مجھے ان سب سیاسی ذہنوں کو داد دینے کو دل کیا۔ جب ان کا اپنا ذاتی survival خطرے میں ہو تو یہ کیسے کامیاب پلاننگ کر لیتے ہیں۔ لیکن ان سب کو اس ملک کے بائیس کروڑ عوام کی فلاح کی منصوبہ بندی کرنا پڑ جائے تو پھر ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ہاں اگر خود کا مالی‘ سیاسی فائدہ ہو رہا ہو تو پھر ان کی ہوشیاریاں دیکھیں۔ ہمارے سیاستدان اور حکمران جتنی چالاکیاں خود کو اقتدار میں لانے اور بچانے کیلئے کرتے ہیں‘ اگراس سے آدھی بھی ملک کی حالت بہتر کرنے کیلئے کرتے تو ہماری یہ حالت نہ ہوتی۔ حکمران اگر چالاک اور ذہین نہ ہوں اور اپنی خوش قسمتی انہیں اقتدار تک لے جائے تو وہ ذہین لوگوں کو اپنا ملازم رکھ لیتے ہیں۔ ذہین ملازم ٹائپ لوگ اپنی قسمت کو تلاش کر رہے ہوتے ہیں جبکہ قسمت کے دھنی حکمران ان ذہین لوگوں کو تلاش کر رہے ہوتے ہیں جو اپنی ذہانت ان پر خرچ کریں اور معاوضے کے طور پر خلعتیں پائیں۔ میں نے اکثر ذہین لوگوں کو ان حکمرانوں کی خوشامد کرتے دیکھا ہے تاکہ ان کی خوش قسمتی سے کچھ انہیں بھی دان ہو جائے۔ خیر اب سیاسی چالوں کا مقابلہ چل رہا ہے۔
پہلی بڑی سیاسی چال وزیراعظم عمران خان کے سیاسی مخالفیں نے تحریکِ عدم اعتماد کے نام پر چلی تو ان کے ذہن میں آیا کہ اگر میں وزیراعظم نہیں رہا تو پھر کسی اور کو بھی وزیراعظم نہیں بننے دوں گا۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے ذریعے رولنگ دلوا کر سب مخالفوں کو غدار ڈکلیئر کرا کے تحریک عدم اعتماد خارج کرا دی۔ جونہی تحریک خارج ہوئی ساتھ ہی اپنی حکومت اور اسمبلی توڑ کر نگران وزیراعظم کے نام کے لیے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو خط لکھ دیا جو اس وقت خود وزیراعظم کی شیروانی پہننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔عدالت سے اسمبلی بحال ہوئی تو پارٹی سے استعفے دلوا کر سڑکوں پر نکل گئے کہ نومبر سے پہلے الیکشن پر مجبور کروا کر اپنی مرضی کا آرمی چیف لگا کر 2028ء تک حکومت کریں گے۔ وہ مقصد حل نہ ہوا تو فوراً نیا سیاسی دائو کھیلا۔ سوچا اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دیں اور وہاں اپنی موجودہ سیاسی پاپولیرٹی پر دونوں صوبوں میں اگلے جنرل الیکشن سے پہلے حکومتیں بنا لیں تو اکتوبر میں قومی اسمبلی کے الیکشن کے وقت صوبوں میں نگران حکومتیں نہیں بلکہ ان کی پارٹی کی حکومت الیکشن کرائے گی۔ بہت امکانات ہیں کہ وہ پنجاب سے آرام سے جنرل الیکشن جیت جائیں گے کیونکہ ان کا اپنا وزیراعلیٰ‘ ہر ضلع میں اپنے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او ہوں گے۔ دیکھا جائے تو عمران خان کا اس سے بہتر سیاسی پلان نہیں ہو سکتا تھا۔ شہباز شریف حکومت اس وقت تاریخ کی بدترین غیر مقبولیت کا سامنا کررہی ہے۔ ان حالات میں پی ڈی ایم کا الیکشن لڑنے کا مطلب سیاسی موت ہے لیکن حکومت میں بھی سیاسی چالاک بیٹھے تھے‘ انہوں نے الٹا منصوبہ بنایا کہ ہم نے الیکشن نہیں کرانا‘ چاہے کچھ ہو جائے۔ سیاسی طور پر وہ برباد تو پہلے ہی ہو چکے تھے لہٰذا سوچا گیا کہ اب سب سے لڑ لیا جائے۔ بہتر ہوگا ہمیں سپریم کورٹ باہر نکالے یا فوج ٹیک اوور کرے۔ وہ عمران خان کے ہاتھوں الیکشن ہارنے کی نسبت سپریم کورٹ یا فوج کے ہاتھوں شہید ہونے کو تیار ہیں تاکہ وہ عوام میں جا کر رولا ڈال سکیں کہ انہیں ایک دفعہ پھر مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی طرح ایک اور وزیراعظم نااہل کر دیا گیا۔ یہ پارلیمنٹ پر حملہ تھا۔ بجٹ منظور کرنا یا نہ کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے نہ کہ سپریم کورٹ کا۔
فنانس کمیٹی کے اجلاس میں پی پی پی کے نوید قمر نے بڑی دھواں دھار تقریر کی کہ کمال ہے سٹیٹ بینک افسران کو سپریم کورٹ کی توہین کرنے سے تو ڈر لگتا ہے اور فوراً وہ اکیس ارب روپے مختص کر دیتے ہیں تاکہ عدالت ناراض نہ ہو چاہے‘ قانون اس کی اجازت دیتا ہے یا نہیں‘ لیکن سٹیٹ بینک افسران کو پارلیمنٹ سے کوئی ڈر نہیں لگتا اور نہ ہی ان کے خیال میں پارلیمنٹ کی عزت ہے۔ اگر انہوں نے توہین کر بھی دی تو ان کا کوئی کیا بگاڑ لے گا۔ وہاں سب کی باتیں سنتے ہوئے مجھے حکومت کی حکمت عملی اچھی طرح سمجھ آئی کہ اگر عمران خان کے پاس ذہین لوگ موجود تھے جنہوں نے انہیں وہ خطرناک پالیسی بنا کر دی تھی جس نے حکومت کو چاروں شانے چت کر دیا تھا تو حکومت کے پاس بھی کم سیاسی میزائل نہ تھے۔ اب ان کا پلان ذرا دلچسپ تھا۔ مان لیا کہ عمران خان ان سے دو تین راؤنڈ جیت چکے تھے اور ان کی سب سے بڑی وکٹری سپریم کورٹ سے انتخابات کا حکم تھا۔
اب یہاں سے حکومتی کھیل شروع ہوا۔ اس کمیٹی اجلاس میں مجھے پہلی دفعہ سمجھ آئی کہ سیاستدان کیوں زیرک کہلاتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے گورنر سٹیٹ بینک کو بلا کرحکم دیا کہ اکیس ارب روپے الیکشن کمیشن کو دیں۔ بینک نے فرمایا: حاضر سر۔ سٹیٹ بینک نے کہا‘ ہم صرف رقم مختص کر سکتے ہیں لیکن وہ رقم الیکشن کمیشن کو ریلیز کرنا ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ پوچھا گیا: یہ کسی کی پاور ہے؟ بتایا گیا کہ یہ کام اب وزارتِ فنانس کرے گی۔ وزارتِ فنانس اکیس ارب کی سپلیمنٹری گرانٹ کی سمری بنا کر کابینہ کو بھیج کر اس کی منظوری لے گی۔ وزارتِ فنانس نے بھی اچھے بچے کی طرح کابینہ کو سمری بھیج دی کہ رقم کی منظوری دینا ان کا اختیار تھا۔ معاملہ کابینہ میں پہنچا تو وہاں بتایا گیا کیونکہ اکیس ارب روپے کے الیکشن اخراجات اس سال کے بجٹ میں شامل نہ تھے لہٰذا سپلیمنٹری گرانٹ دینا ہوگی۔ حکومت کے پاس آپشن تھا کہ وہ سپلیمنٹری گرانٹ جون میں منظوری کیلئے پیش ہونے والے بجٹ میں دیگر گرانٹس کیساتھ بعد میں منظور کرا لے اور پیسے ابھی ریلیز کر دے لیکن کابینہ نے کہا کہ اگر ہم نے پارلیمنٹ سے اجازت لیے بغیر اکیس ارب ریلیز کر دیے اور اگلے بجٹ میں پارلیمنٹ نے یہ اکیس ارب کی گرانٹ منظور نہ کی تو یہ خرچہ تو غیرقانونی ہو جائے گا جو اس وقت تک پنجاب الیکشن پر خرچ ہوگا۔ پھر تو ان سب کو اکیس ارب کی ریکوری کرنا پڑے گی لہٰذا بہتر ہے پہلے ہی پارلیمنٹ سے منظوری لے کر اکیس ارب جاری کیے جائیں۔ یوں کابینہ نے پارلیمنٹ کو بل بھیج دیا۔ اب پارلیمنٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ایسی گرانٹ جو پہلے سالانہ بجٹ میں منظور نہ تھی‘ اسے منظور کرے یا مسترد کر دے۔ پارلیمنٹ نے گرانٹ فوراً مسترد کردی۔
اب سپریم کورٹ کس کے خلاف کارروائی کرے؟ سٹیٹ بینک سے لے کر وزارتِ خزانہ اور کابینہ تک سب نے اس حکم پرعمل کیا‘ لیکن پارلیمنٹ نے اس حکم کو نہیں مانا تو وہ اب کیا کریں کیونکہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے۔ اب کیا چیف جسٹس پارلیمنٹ کے خلاف کارروائی کریں گے کہ انہوں نے وزیراعظم اور کابینہ کی جانب سے سپلیمنٹری گرانٹ کی سمری یا بل کیوں منظور نہیں کیا؟ آپ نے غور فرمایا کتنی باریک بینی سے یہ کام کیا گیا ہے۔ آپ انہیں داد تو دیں‘ کتنی دور کی کوڑی لائے ہیں یہ ذہین لوگ جو ہر وقت وزیراعظم کے اردگرد رہتے ہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں‘ یہ سب باریک واردات وزیراعظم شہباز شریف کے ذہن کی پیداوار ہے؟ اگر آپ یہی سوچتے ہیں تو آپ کی عقل پر شک ہونا چاہیے۔ یہ قانونی مشیروں کا کام ہے۔ اسے کہتے ہیں سیاسی چالاکیاں۔ پہلے عمران خان نے اسمبلیاں توڑ کر اپنے تئیں بڑی سیاسی چال چلی تو اب شہباز شریف حکومت نے جوابی چال چل دی کہ ہم نے تو ہر حکم مانا ہے اب پارلیمنٹ ہماری نہ مانے تو ہم کیا کریں۔ عدالت پوری پارلیمنٹ کو بلا کر پوچھ لے یا اگر قانون اجازت دیتا ہے تو پارلیمنٹ کے سب ارکان کو سزا دے دے جنہوں نے حکومتی فنانس بل مسترد کر دیا۔ میچ ذرا آخری مرحلے میں دلچسپ ہوگیا ہے۔ دیکھتے ہیں عمران خان‘ سپریم کورٹ اور حکومت کی ان چالوں میں جیت ہار کس کی ہوگی؟
پہلی بڑی سیاسی چال وزیراعظم عمران خان کے سیاسی مخالفیں نے تحریکِ عدم اعتماد کے نام پر چلی تو ان کے ذہن میں آیا کہ اگر میں وزیراعظم نہیں رہا تو پھر کسی اور کو بھی وزیراعظم نہیں بننے دوں گا۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے ذریعے رولنگ دلوا کر سب مخالفوں کو غدار ڈکلیئر کرا کے تحریک عدم اعتماد خارج کرا دی۔ جونہی تحریک خارج ہوئی ساتھ ہی اپنی حکومت اور اسمبلی توڑ کر نگران وزیراعظم کے نام کے لیے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو خط لکھ دیا جو اس وقت خود وزیراعظم کی شیروانی پہننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔عدالت سے اسمبلی بحال ہوئی تو پارٹی سے استعفے دلوا کر سڑکوں پر نکل گئے کہ نومبر سے پہلے الیکشن پر مجبور کروا کر اپنی مرضی کا آرمی چیف لگا کر 2028ء تک حکومت کریں گے۔ وہ مقصد حل نہ ہوا تو فوراً نیا سیاسی دائو کھیلا۔ سوچا اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دیں اور وہاں اپنی موجودہ سیاسی پاپولیرٹی پر دونوں صوبوں میں اگلے جنرل الیکشن سے پہلے حکومتیں بنا لیں تو اکتوبر میں قومی اسمبلی کے الیکشن کے وقت صوبوں میں نگران حکومتیں نہیں بلکہ ان کی پارٹی کی حکومت الیکشن کرائے گی۔ بہت امکانات ہیں کہ وہ پنجاب سے آرام سے جنرل الیکشن جیت جائیں گے کیونکہ ان کا اپنا وزیراعلیٰ‘ ہر ضلع میں اپنے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او ہوں گے۔ دیکھا جائے تو عمران خان کا اس سے بہتر سیاسی پلان نہیں ہو سکتا تھا۔ شہباز شریف حکومت اس وقت تاریخ کی بدترین غیر مقبولیت کا سامنا کررہی ہے۔ ان حالات میں پی ڈی ایم کا الیکشن لڑنے کا مطلب سیاسی موت ہے لیکن حکومت میں بھی سیاسی چالاک بیٹھے تھے‘ انہوں نے الٹا منصوبہ بنایا کہ ہم نے الیکشن نہیں کرانا‘ چاہے کچھ ہو جائے۔ سیاسی طور پر وہ برباد تو پہلے ہی ہو چکے تھے لہٰذا سوچا گیا کہ اب سب سے لڑ لیا جائے۔ بہتر ہوگا ہمیں سپریم کورٹ باہر نکالے یا فوج ٹیک اوور کرے۔ وہ عمران خان کے ہاتھوں الیکشن ہارنے کی نسبت سپریم کورٹ یا فوج کے ہاتھوں شہید ہونے کو تیار ہیں تاکہ وہ عوام میں جا کر رولا ڈال سکیں کہ انہیں ایک دفعہ پھر مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی طرح ایک اور وزیراعظم نااہل کر دیا گیا۔ یہ پارلیمنٹ پر حملہ تھا۔ بجٹ منظور کرنا یا نہ کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے نہ کہ سپریم کورٹ کا۔
فنانس کمیٹی کے اجلاس میں پی پی پی کے نوید قمر نے بڑی دھواں دھار تقریر کی کہ کمال ہے سٹیٹ بینک افسران کو سپریم کورٹ کی توہین کرنے سے تو ڈر لگتا ہے اور فوراً وہ اکیس ارب روپے مختص کر دیتے ہیں تاکہ عدالت ناراض نہ ہو چاہے‘ قانون اس کی اجازت دیتا ہے یا نہیں‘ لیکن سٹیٹ بینک افسران کو پارلیمنٹ سے کوئی ڈر نہیں لگتا اور نہ ہی ان کے خیال میں پارلیمنٹ کی عزت ہے۔ اگر انہوں نے توہین کر بھی دی تو ان کا کوئی کیا بگاڑ لے گا۔ وہاں سب کی باتیں سنتے ہوئے مجھے حکومت کی حکمت عملی اچھی طرح سمجھ آئی کہ اگر عمران خان کے پاس ذہین لوگ موجود تھے جنہوں نے انہیں وہ خطرناک پالیسی بنا کر دی تھی جس نے حکومت کو چاروں شانے چت کر دیا تھا تو حکومت کے پاس بھی کم سیاسی میزائل نہ تھے۔ اب ان کا پلان ذرا دلچسپ تھا۔ مان لیا کہ عمران خان ان سے دو تین راؤنڈ جیت چکے تھے اور ان کی سب سے بڑی وکٹری سپریم کورٹ سے انتخابات کا حکم تھا۔
اب یہاں سے حکومتی کھیل شروع ہوا۔ اس کمیٹی اجلاس میں مجھے پہلی دفعہ سمجھ آئی کہ سیاستدان کیوں زیرک کہلاتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے گورنر سٹیٹ بینک کو بلا کرحکم دیا کہ اکیس ارب روپے الیکشن کمیشن کو دیں۔ بینک نے فرمایا: حاضر سر۔ سٹیٹ بینک نے کہا‘ ہم صرف رقم مختص کر سکتے ہیں لیکن وہ رقم الیکشن کمیشن کو ریلیز کرنا ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ پوچھا گیا: یہ کسی کی پاور ہے؟ بتایا گیا کہ یہ کام اب وزارتِ فنانس کرے گی۔ وزارتِ فنانس اکیس ارب کی سپلیمنٹری گرانٹ کی سمری بنا کر کابینہ کو بھیج کر اس کی منظوری لے گی۔ وزارتِ فنانس نے بھی اچھے بچے کی طرح کابینہ کو سمری بھیج دی کہ رقم کی منظوری دینا ان کا اختیار تھا۔ معاملہ کابینہ میں پہنچا تو وہاں بتایا گیا کیونکہ اکیس ارب روپے کے الیکشن اخراجات اس سال کے بجٹ میں شامل نہ تھے لہٰذا سپلیمنٹری گرانٹ دینا ہوگی۔ حکومت کے پاس آپشن تھا کہ وہ سپلیمنٹری گرانٹ جون میں منظوری کیلئے پیش ہونے والے بجٹ میں دیگر گرانٹس کیساتھ بعد میں منظور کرا لے اور پیسے ابھی ریلیز کر دے لیکن کابینہ نے کہا کہ اگر ہم نے پارلیمنٹ سے اجازت لیے بغیر اکیس ارب ریلیز کر دیے اور اگلے بجٹ میں پارلیمنٹ نے یہ اکیس ارب کی گرانٹ منظور نہ کی تو یہ خرچہ تو غیرقانونی ہو جائے گا جو اس وقت تک پنجاب الیکشن پر خرچ ہوگا۔ پھر تو ان سب کو اکیس ارب کی ریکوری کرنا پڑے گی لہٰذا بہتر ہے پہلے ہی پارلیمنٹ سے منظوری لے کر اکیس ارب جاری کیے جائیں۔ یوں کابینہ نے پارلیمنٹ کو بل بھیج دیا۔ اب پارلیمنٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ایسی گرانٹ جو پہلے سالانہ بجٹ میں منظور نہ تھی‘ اسے منظور کرے یا مسترد کر دے۔ پارلیمنٹ نے گرانٹ فوراً مسترد کردی۔
اب سپریم کورٹ کس کے خلاف کارروائی کرے؟ سٹیٹ بینک سے لے کر وزارتِ خزانہ اور کابینہ تک سب نے اس حکم پرعمل کیا‘ لیکن پارلیمنٹ نے اس حکم کو نہیں مانا تو وہ اب کیا کریں کیونکہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے۔ اب کیا چیف جسٹس پارلیمنٹ کے خلاف کارروائی کریں گے کہ انہوں نے وزیراعظم اور کابینہ کی جانب سے سپلیمنٹری گرانٹ کی سمری یا بل کیوں منظور نہیں کیا؟ آپ نے غور فرمایا کتنی باریک بینی سے یہ کام کیا گیا ہے۔ آپ انہیں داد تو دیں‘ کتنی دور کی کوڑی لائے ہیں یہ ذہین لوگ جو ہر وقت وزیراعظم کے اردگرد رہتے ہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں‘ یہ سب باریک واردات وزیراعظم شہباز شریف کے ذہن کی پیداوار ہے؟ اگر آپ یہی سوچتے ہیں تو آپ کی عقل پر شک ہونا چاہیے۔ یہ قانونی مشیروں کا کام ہے۔ اسے کہتے ہیں سیاسی چالاکیاں۔ پہلے عمران خان نے اسمبلیاں توڑ کر اپنے تئیں بڑی سیاسی چال چلی تو اب شہباز شریف حکومت نے جوابی چال چل دی کہ ہم نے تو ہر حکم مانا ہے اب پارلیمنٹ ہماری نہ مانے تو ہم کیا کریں۔ عدالت پوری پارلیمنٹ کو بلا کر پوچھ لے یا اگر قانون اجازت دیتا ہے تو پارلیمنٹ کے سب ارکان کو سزا دے دے جنہوں نے حکومتی فنانس بل مسترد کر دیا۔ میچ ذرا آخری مرحلے میں دلچسپ ہوگیا ہے۔ دیکھتے ہیں عمران خان‘ سپریم کورٹ اور حکومت کی ان چالوں میں جیت ہار کس کی ہوگی؟
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر