جون 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’ایک اور ہیرا!!!!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

باجی چلیں نا، کہیں بیٹھ کر کچھ کھاتے ہیں، یہاں وقت ضائع کرنے کا فائدہ؟ بہنوئی صبر نہ کر سکا اور ہماری تفتیش کے بیچ آ کودا۔ بہن اور صاحب چپ۔ارے ٹھہرو ابھی، میں یہ دیکھ رہی ہوں۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھکاوٹ نہ ہو تو باہر کا چکر لگایا جائے۔ بہنوئی نے کمرے میں جھانکا۔
گھومنے پھرنے کا پروگرام۔ یہ محترمہ تو پاؤں میں جوتا بھی نہیں پہنیں گی، صاحب ہنس کر بولے۔
ویسے میں حیران ہوں، دو سگی بہنیں اور کس قدر مختلف۔ ہماری والی کو دھکے دے کر گھر سے باہر نکالنا پڑتا ہے۔ بہنوئی کی حیرت۔

اور ہماری والی کو منت سماجت کر کے گھر واپس لانا پڑتا ہے۔ صاحب۔
ہم دونوں بہنوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کھلکھلا کر ہنس دیں۔
دیکھدا جاندا رے جمورے، دیکھدا جاندا رے۔ ہم نے بہنوئی کو چھیڑا۔
یہ انیس سو چھیانوے تھا۔

صاحب کی پوسٹنگ ملتان اور ہماری نشتر ہسپتال۔ عید پہ پنڈی آنا لازم کہ میکہ اور سسرال دونوں پنڈی میں۔ ان دنوں موٹر وے تو تھی نہیں سو جی ٹی روڈ پر ہی سفر کرنا پڑتا تھا۔ کبھی لاہور رکنے کا پروگرام نہ ہوتا تو پنڈی سے ملتان کا سفر دس گھنٹے کی ڈرائیونگ۔ یاد رہے ہمارے پاس کار تھی مہران جسے اب دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ اتنا لمبا سفر اور اس منی سی کار پہ۔ بیٹی کو ہم پچھلی سیٹ پہ لٹا دیتے جہاں وہ اپنی گڑیوں سے کھیلتی رہتی۔

جس برس کی داستان ہم سنانا چاہتے ہیں تب ہماری چھوٹی بہن شادی کے فوراً بعد لاہور میں مقیم تھیں اور ان کا اصرار ہوتا تھا کہ ہم ان سے مل کر ملتان روانہ ہوں، بھانجی خالہ کے پیار کا یہی تقاضا تھا۔

اس شام ہم لاہور پہنچے، رات رکنے کا پروگرام تھا جب بہنوئی نے ہمیں باہر لے جانے کا عندیہ ظاہر کیا اور خاص طور پر نیا ڈیپارٹمنٹل سٹور، پیس، جسے دیکھنے کا شوق ہمیں بھی تھا۔

‏پیس پہنچے، گراؤنڈ فلور پہ ادھر ادھر گھوم کر ونڈو شاپنگ کی۔ اب مرحلہ اوپر کی منزل پر پہنچنے کا تھا جس کے لئے برقی زینہ سامنے نظر آ رہا تھا۔

چلیے، بہن نے اشارہ کیا۔ تیزی سے اوپر کی طرف حرکت کرتے زینے، زمین سے ایک ابھرتا، اوپر کو بھاگتا، اس کی جگہ پیچھے آنے والا لیتا، پھر وہ اوپر چلا جاتا، پھر تیسرا چوتھا، گویا ایک گردش تھی جو زینوں کو اڑائے جاتی تھی۔

کیا دوسری سیڑھیاں یا لفٹ موجود نہیں؟ ہم نے ادھر ادھر دیکھا۔
کیوں کیا ہوا؟ صاحب ٹھٹھکے۔ یہ حیرت کی بات تھی کہ ہم اور ڈر؟
وہ۔ وہ۔ کچھ نہیں۔ ہماری زبان ساتھ نہ دے سکی۔
چلو پھر۔

ہم نے بے چارگی سے بہن کی طرف دیکھا جو فوراً سمجھ گئی کہ مسئلہ کیا ہے؟ ہم بچپن سے ہی تیزی سے گھومنے والے جھولوں سے سخت خوفزدہ تھے اور معاملہ صرف خوف کا نہیں تھا بلکہ دل بھی اس میں شامل تھا۔ جونہی جھولا اوپر نیچے ہوتا، دل ڈوبنے لگتا اور ایک آدھ دھڑکن گم ہو جاتی۔

کچھ نہیں ہوتا، آؤ پکڑو میرا ہاتھ۔ بہن نے کہا۔

جونہی بہن نے پاؤں رکھا اور ہمارے پاؤں رکھنے کی باری آئی، زینہ اوپر اور ہم وہیں کے وہیں۔ مجبوراً بہن کو ہاتھ چھوڑنا پڑا۔

اب صورت حال یہ کہ سب اوپر والی منزل پہ کھڑے ہنس ہنس کے بے حال اور ہم بے چارگی سے زینے کے پاس کھڑے حسرت سے ان سب کو دیکھ رہے تھے جو تیزی سے آتے، کھٹ سے زینے پہ پاؤں دھرتے اور پھر یہ جا وہ جا۔

خیر ہار ماننا تو ہم نے سیکھا نہیں تھا۔ دو چار بار پاؤں بڑھایا مگر ہر بار کم بختی مارا زینہ آگے بھاگ جاتا۔ اب کیا کریں؟

اسی تذبذب میں تھے کہ صاحب کو ترس آ گیا۔ وہ دوسری طرف سے نیچے آئے، ہاتھ پکڑا اور کھینچ تان کر ہمیں زینے پہ کھڑا کیا۔ دل ایسے کہ ابھی باہر نکل آئے گا۔ بہرحال مشکل سر ہوئی اور ہم بخیر و عافیت لینڈ کر گئے۔

گھومنا شروع کیا اور ایک دکان کے باہر ہم یوں کھڑے ہوئے کہ کسی نے جیتے جاگتے بت میں بدل دیا ہو۔ مارے گئے۔ صاحب زیرلب بڑبڑائے کہ واقف حال تھے۔

کیا ہوا؟ بہنوئی ابھی سالی کی عادات سے واقف نہیں تھا۔
کچھ نہیں، بس اس دکان کے اندر جانا ہے مجھے۔ ہم نے کہا۔
کیا کچھ خریدنا ہے؟ بہنوئی نے پوچھا
دیکھتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے قدم اندر کو بڑھا دیے۔

باقی سب کو طوعاً کرہاً اندر آنا پڑا۔ بہن مسکرا رہی تھی، بہنوئی کنفیوزڈ اور صاحب جھنجھلاہٹ کا شکار اور ہم بے نیاز۔ کیوں دیکھیں ان کی طرف؟

سیلزمین ہماری طرف لپکا۔
جی میم۔
یہ جو ڈائمنڈ کے سیٹ ہیں یہ دکھائیے۔
جی ضرور۔
وہ جو باہر ونڈو میں لگے ہیں وہ بھی۔
ابھی لیجیے۔
کہاں کے ڈائمنڈز ہیں یہ؟ بیلجیم؟ انڈیا؟ ساؤتھ افریقہ؟
بیلجیم، میم۔

باجی چلیں نا، کہیں بیٹھ کر کچھ کھاتے ہیں، یہاں وقت ضائع کرنے کا فائدہ؟ بہنوئی صبر نہ کر سکا اور ہماری تفتیش کے بیچ آ کودا۔ بہن اور صاحب چپ۔ارے ٹھہرو ابھی، میں یہ دیکھ رہی ہوں۔
جب لینا نہیں تو دیکھنے کا کیا فائدہ۔ اس نے دانشوری جھاڑی۔
بھئی پسند آیا تو لے بھی لیں گے۔ ہمارا شان بے نیازی سے جواب۔
اس نے ایسے ہماری طرف دیکھا جیسے ہمارا دماغ چل گیا ہو۔ کہاں سے خریدیں گی یہ سیٹ؟
کیا قیمت ہے ان کی؟ ہمارا رخ سیلزمین کی طرف تھا۔

جی یہ پینتالیس ہزار کا، یہ پچاس ہزار اور یہ پچپن ہزار۔ اکیس کیرٹ گولڈ، جینوئن ڈائمنڈز۔ ہمارے پاس خاص ڈیزائنر ہیں۔ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ایسے ڈائمنڈ کے سیٹ آپ کو کہیں نہیں ملیں گے۔ سیلزمین زیورات کی تعریف میں رطب اللسان۔

اور ہمارے ساتھ کھڑے سب لوگوں کے چہروں پہ عجیب سے تاثرات۔ یقیناً ذہن میں کھچڑی پک رہی تھی۔

کتنی عجیب ہیں میری بیوی کی بہن۔ ملتان جاتے ہوئے کچھ دیر کو رکیں اور اب ڈائمنڈ کے سیٹ ایسے دیکھ رہی ہیں جیسے کروڑ پتی ماں باپ کی اولاد ہوں یا بزنس مین کی بیوی۔ میاں ہے فوجی کپتان، چھ سات ہزار تنخواہ لینے والا۔ خود میڈیکل افسر، کتنی تنخواہ ہو گی بھلا پانچ ہزار۔ پھر ساتھ میں ایک بچی بھی ہے۔ ابھی اس کے سکول کا خرچہ ہو گا، کہاں سے کریں گی؟ عجیب احمق خاتون ہیں۔ وقت ضائع کر رہی ہیں۔ بہنوئی۔

میری اور اس کی شادی کو پانچ برس ہوئے۔ اور مجھے ابھی تک اس کی سمجھ نہیں آئی۔ دنیا کی کوئی بھی بات ناممکن نہیں اس کے لئے۔ پیسے ہیں نہیں اور کھڑی ہو گئی ہیرے کے سیٹ دیکھنے کو۔ خواہ مخواہ کی شرمندگی۔ صاحب۔

اس کی کوئی بات بھی مجھے حیران نہیں کرتی۔ میری بہن مایوس ہونا جانتی ہی نہیں۔ جو چاہتی ہے حاصل کر ہی لیتی ہے کسی نہ کسی طرح۔ اب یہ سیٹ کس طرح لے گی، میں نہیں جانتی۔ بہن۔

کیا میں یہ پہن کر دیکھ لوں؟ ہم نے سیلزمین سے کہا۔
جی ضرور۔
ہم نے پہلے ہار پہنا، پھر بندے، انگوٹھی تو پہلے ہی ہاتھ میں تھی۔
میم یہ آئینہ۔ سیلز مین نے کاؤنٹر پہ رکھا ہوا آئینہ ہماری طرف بڑھایا۔

اوہ خدایا۔ ہیروں سے نکلتی شعاعیں منعکس ہو کر ہمارا چہرہ روشن کر رہی تھیں۔ کیا کسی شہزادی سے کم تھے ہم؟ آئینے کو ایک فٹ کے فاصلے سے دیکھا، پھر آدھے فٹ اور پھر کچھ انچ۔ خیر اتنی حسین تو نہیں ہوں جتنی آئینہ دکھا رہا ہے۔

کیسی لگ رہی ہوں میں؟ اپنی ایڑیوں پر گھومتے ہوئے ہم نے پوچھا۔
بہت اچھی۔ بہن۔
ٹھیک ہے۔ صاحب۔
خاموشی۔ بہنوئی۔
اگر ہم یہ خریدیں تو کتنے کا ہو جائے گا فائنلی؟ ہم نے سیلزمین کی طرف رخ کیا۔
خریدیں؟ کیا مطلب ہے؟ پیسے کہاں ہیں ہمارے پاس؟ کچھ غراتی، کچھ پریشان بھنچی ہوئی آواز۔ سنی ان سنی۔

سیلزمین نے کھٹا کھٹ کیلکیولیٹر پہ انگلی چلائی۔ سونے کا ریٹ پانچ ہزار روپے تولہ، ہیروں کی قیمت۔ بنوائی۔ کل ہوئے چون ہزار۔ ہم ڈسکاؤنٹ کریں گے دو ہزار۔ آپ باون ہزار دے دیجیے۔

باون ہزار؟ با ا ا اووون ہزار؟ باون ہزار۔ اتنا مہنگا ( سونا پانچ ہزار روپے تولہ تھا ان دنوں ) ۔ ہمارے عقب سے کچھ آوازیں ابھریں۔

ہم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سیلزمین کی طرف متوجہ رہے۔
نہیں کچھ اور کم کریں؟

یہ کیا پاگل پن ہے۔ چلو چلیں۔ ہمارا بازو مضبوطی سے تھام کر ہمیں وہاں سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کی گئی مگر ہم تو گل محمد تھے، زمین ہمارے پاؤں پکڑ چکی تھی، ہیرے کے سیٹ کی کشش کم نہیں تھی وہ بھی ایک انتیس تیس سالہ امنگ بھرے دل میں۔

سیلزمین اس سب کش مکش سے بے نیاز حساب کتاب کیے جا رہا تھا۔ بہن کو ہنسی کا دورہ پڑا تھا۔ بہنوئی پریشان اور صاحب کا کچھ ملا جلا رجحان۔

چلیے ہم آپ کو پچاس ہزار میں دے دیں گے۔ سیلزمین کی فائنل کال۔
تب تک ہم بھی ایک فیصلہ کر چکے تھے۔ سیٹ تو آج خرید کر ہی نکلنا ہے یہاں سے۔ مگر کیسے؟ سوال یہ تھا۔

ہمارے ایک ہاتھ میں سونے کی چھ چوڑیاں تھیں اور دوسرے میں ایک کڑا اور انگلیوں میں کچھ انگوٹھیاں۔ جب ایک ایک کر کے ہم نے اتارنا شروع کیں تو پاس کھڑے دونوں مرد اچھل پڑے۔

یہ کیا؟
یہ بیچ کر وہ لے رہی ہوں۔ ہم نے اطمینان سے کہا۔
دیکھو، اس طرح بیچنے میں کتنا نقصان ہو گا تمہیں۔ صاحب۔
کیا فرق پڑتا ہے اگر دل کی خوشی کے لئے کچھ نقصان برداشت کر لیا جائے؟
دیکھو یہ تمہاری شادی کی چوڑیاں ہیں۔ بہن۔

تو کیا ہوا؟ میں سمجھوں گی شادی پہ یہ سیٹ ملا تھا۔ اور سوچو چوڑیاں کڑا تو لاکر میں چلے جائیں گے۔ کبھی کبھار زیارت ہوا کرے گی ان کی۔ یہ میں زیادہ پہنوں گی، کبھی انگوٹھی، کبھی بندے اور کبھی کسی پارٹی میں پورا سیٹ۔

بھائی جان، روکیں انہیں، کیا کر رہی ہیں باجی؟ کیا اس طرح بھی کوئی کرتا ہے؟ اتنی بڑی شاپنگ کھڑے کھڑے۔ بہنوئی۔

صاحب نے شعلہ بار آنکھوں سے گھورا مگر چپ رہے۔ جانتے تھے اس وقت ہمیں روکنا ممکن نہیں تھا۔ بعد میں گرج چمک کے ساتھ اولے تو پڑنے تھے مگر گھر جا کر۔ خیر ہے تھوڑی ژالہ باری ہی ہو گی نا، کوئی بات نہیں۔ کوئی نئی بات تو ہے نہیں۔ خود کو تسلی دیتے ہوئے اپنی پیٹھ تھپکی۔

سنو سسرال والے ناراض نہ ہو جائیں۔ بہن۔
کیوں؟ زیور میرا ہے، انہوں نے دے دیا۔ اب میں جو بھی کروں۔ بیچوں، پہنوں یا کسی کو دوں۔ دی ہوئی چیز کا کیا حساب کتاب۔ ہمارا جواب۔

میم یہ زیور ہم خریدیں گے تینتالیس ہزار میں، سات ہزار اور دے دیں۔
پرس میں ہاتھ مارا۔ واہ ہزار کا نوٹ تو ہے اس میں۔
آپ کے پرس میں کتنے ہیں؟ صاحب کی طرف رخ کیا جو روٹھے کھڑے تھے۔
دیکھ لو۔ انہوں نے والٹ ہماری طرف بڑھا دیا۔
ایک، دو، تین، چار پانچ ہزار۔ کام بن گیا یہ تو۔ ہم اچھل کر بولے۔

کل ملتان جانا ہے اور گاڑی پٹرول سے چلتی ہے پانی سے نہیں۔ جی جی سوچتے ہیں کچھ اس کا بھی، پہلے اس کی قیمت تو پوری کر لیں۔
ایک ہمارا، پانچ صاحب کے۔ یہ ہوئے چھ ہزار۔ ایک ابھی بھی کم ہے۔

ڈھٹائی تو ختم تھی ہم پہ سو بہنوئی کی طرف رجوع کیا۔ سنو ایک ہزار دینا ادھار، لوٹا دیں گے ملتان پہنچ کر۔

ہاں ملتان میں ان کے ابا کا کارخانہ ہے نا۔ پیچھے سے ایک بھنچی ہوئی آواز آئی۔ اس بات پہ کان دھرنے کی کسے ضرورت تھی؟ بھئی ابا کارخانہ دار ہوتے تو اتنی جھک جھک ہی نہ کرنی پڑتی۔

یہ لیں جی بقیہ سات ہزار۔ بل بنائیں اب۔
میم پیک کر دوں؟

نہیں بھئی ہم پہن کر جائیں گے، ڈبہ اور بل دے دو۔ ہم نے اٹھلاتے ہوئے ایک بار پھر خود کو آئینے میں دیکھ کر اپنی بلائیں لیں۔

واپسی میں یہ عالم تھا کہ بھاگتے ہوئے برقی زینوں سے ہم نیچے یوں اترے جیسے پر لگ گئے ہوں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہفت اقلیم کی دولت ہاتھ لگ گئی ہے۔ ننھی ماہم ماں کے اس ایڈونچر سے بے خبر ہمارے ساتھ ساتھ۔

وہ شام ہم سب کبھی بھی نہیں بھول سکے۔ ہماری زندگی کی خوشگوار ترین شام تو تھی، باقیوں کا ہمیں علم نہیں۔ پیسے نہ ہونے کے باوجود ہم نے اپنے دل کی سن کر اپنی خواہش پوری کی تھی باوجود شدید مخالفت کے۔ جب بھی وہ سیٹ ہم پہنتے، دل اسی انبساط سے دوچار ہوتا اور دیکھنے والے تو پوچھ ہی اٹھتے، سیٹ بہت خوبصورت ہے کہاں سے لیا؟

قارئین بعد کے برسوں میں بہت کچھ پایا، شاید اس سیٹ سے بڑھ کر لیکن یقین مانیے کہ اس عمر میں ہیرے کا شاندار سیٹ پہن کر جو خوشی اس شام ملی تھی، اس کا عشر عشیر بھی پھر کبھی نہیں ملا۔
یہ سیٹ بھی ہمارے ساتھ زیادہ برس نہ گزار سکا۔ شہرزاد کی وہ کہانی بھی پھر کبھی!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: