یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اخلاقی، صوفیانہ اور عجیب قسم کا خیال عام ہے کہ آپ خود کو ٹھیک کر لیں یعنی مخصوص اخلاقی (نہ کہ انسانی) اصولوں کے پیروکار بن جائیں تو وہی کُل کو آہستہ آہستہ ٹھیک کر دے گا۔ جزو سے کل کی طرف جائیں، تبدیلی آ کر رہے گی۔
البتہ اِس جزو میں اکثر آپ کے نجی خیالات اور تصورات کو نہیں چھیڑا جاتا۔ ’چار دیواری کے اندر‘ اور ذاتی بکواسیات میں آپ خواہ کیسے بھی ہوں، اُسے معاشرتی معاملات سے لاتعلق مان کر بس اتنا کہا جاتا ہے کہ شہر کو صاف رکھیں، ٹشو پیپر نہ پھینکیں، کوڑا کرکٹ نہ پھیلائیں، گاڑیوں کے اندر نہ جھانکیں، تھرتھراتے کولہے دیکھ کر بیہودہ آوازیں نہ نکالیں، وغیرہ وغیرہ۔ اور کہیں کوئی مثال بھی نہیں دی جاتی کہ تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے۔
اوپر سے ہمارے صوفی یا اُن سے منسوب کردہ تصورات لوگوں کو خصی بنانے پر مامور ہیں۔ اب اگر راوی میں پورے لاہور کا گٹر جا رہا ہے، بھینسوں کو دودھ بڑھانے والے ٹیکے لگا کر گدھوں تک کو نابود کیا جا رہا ہے، اور میڈیا کمپنیوں کی کاسہ لیسی پر مجبور ہے، سکولوں کے باہر کھڑے ڈرائیور رال ٹپکاتے ہیں، رکشے والا بَیک مِرر سے امکانات دیکھتا ہے، تعلیم جہالت کا ستون ہے، وغیرہ تو اِس میں فرد کیا کرے؟
اسی بے ہودہ، احمق، حریص، بدتمیز، تھوکنے والے پاکستانی فرد کو کسی سفارت خانے تو کیا Fedex آفس میں بھی دیکھ لیں۔ اِس کا معدہ ٹھیک ہو جائے گا، اور یہ نہیں تھوکے گا۔ کسی کمپنی یا بینک کی سیلز پرسن کے ساتھ ذومعنی جسارتیں نہیں کرے گا، لاہور ایئرپورٹ سے روانہ ہو کر لندن ایئرپورٹ پر پہنچنے تک اِس کی کایا کلپ ہو چکی ہو گی۔ نظام آپ کو بدل دیتا ہے۔ ورنہ امریکہ اور یورپ کا انسان بھی کچھ کم ذلیل نہیں۔ جوابدہی اور احتساب یا پوچھ گچھ ہونے کا نظام اُنھیں ذمہ دار بننے پر مجبور کرتا ہے اور معاشرتی سطح پر ہر طرح کی پابندیاں نہ ہونا اُن میں حرص کو قابو رکھتا ہے۔
مگر آپ فوراً یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر جزو سے کل کی طرف سفر نہ کریں تو اوپر سے لاگو کی گئی تبدیلیاں کارگر نہ ہوں گی۔ مجھے یہ بات درست نہیں لگتی۔ یہ اخلاقی فتور بوسیدہ خیال ہے۔ اگر آپ جزو کی سطح پر ’’اپنی‘‘ ترجیحات اور اصولوں کی بات کریں تو پہلے کون سا آپ کے پاس کچھ ’’اپنا‘‘ ہے؟ اور کس قوم کے پاس سب کچھ ’’اپنا‘‘ ہے۔ یورپیوں کو رومی پسند ہے، چائنا کا مال استعمال کرتے ہیں، پاکستانی تولیے بھی استعمال کرتے ہیں، ان کا پیغمبر عبرانی ہے، ہندسے عربی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
ضروری نہیں کہ ہم ’نیکی‘ یا اچھا کام یا ماحول کی حفاظت یا بے ایمانی اور حرامزدگی سے اجتناب کسی انقلابی مقصد کے تحت کریں۔ کیا محض اپنی سیکھی ہوئی اقدار (اگر کوئی ہوں) کے مطابق کافی نہیں؟
تبدیلی کی کوئی بھی خواہش کرتے وقت سوچ لینا چاہیے کہ آپ پاکستانی ہیں۔ تبدیلیاں اُن کے لیے ہوتی ہیں جو کہنے اور سننے کی اہمیت جانتے ہیں۔ ہماری تو یہ صلاحیت ہی مٹائی جاتی رہی ہے جس کا سب سے بڑا وسیلہ اخلاقی بک بک ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر