ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی، آپ کی دی ہوئی انگوٹھی پہن کر آج دفتر گئی۔ اف ہر کوئی سراہ رہا تھا۔ کوئی ایسی کولیگ نہیں تھی جس نے تعریف نہ کی ہو۔ میں نے بھی کہہ دیا، ماں کی ہے۔ ایک بولی، کیا وراثت میں ملی ایسی شاہانہ چیز۔ نہیں بھئی، ماں موجود ہیں لیکن ان کا بس نہیں چلتا کہ جس چیز کی طرف بھولے سے ایک بار بھی دیکھ لو، وہ مجھے پہنا نہ دیں۔ ہاؤ لکی یو آر۔
یہ سن کر کس کم بخت کا خون سیروں نہ بڑھتا؟
نوعمر بیٹی، نئی نوکری، تیار ہو کر دفتر جانے کا شوق، انگلی میں ماں کی انگوٹھی اور گوریوں کی تعریف۔ واللہ پیسے پورے ہو گئے۔ ہیرے کی انگوٹھی سے ہمارا عشق بھی تو برسوں پرانا تھا۔
شباب تک پہنچنے پہ ہماری زندگی میں کسی انگوٹھی کا عمل دخل نہیں تھا۔ ہاں سب رسالے، ناول، افسانے بتاتے تھے کہ ہیروئن ہیرو کی دی ہوئی ہیرے کی انگوٹھی پہن کر اپنے آپ کو ساتویں آسمان پہ محسوس کرتی ہے۔ ہماری اماں اور آپا کے پاس تو کوئی ایسی انگوٹھی تھی نہیں جسے پہن کر ہم ساتواں نہ سہی کوئی پہلے دوسرے آسمان کی زیارت کرتے۔
ہاں انگوٹھی کی پہلی زیارت میڈیکل کالج میں ہوئی جب ہم جماعتوں کی منگنیاں ہونی شروع ہوئیں۔ منگنی شدہ لڑکیاں جب کلاس میں آتیں تو ایک ہاتھ میں البم اور دوسرے میں ہیرے کی انگوٹھی جگمگا رہی ہوتی۔ البم پوری کلاس میں گھومتی البتہ انگوٹھی کی زیارت انگلی کے پاس جا کر کرنی پڑتی۔ نہ پوچھیے، لشکارے مارتی انگوٹھی دل کا کیا حال کرتی۔
خیر منگنی وغیرہ کا شوق تو ہر گز نہیں تھا ہاں منگنی سے وابستہ انگوٹھی ہوش اڑا دیتی تھی۔ پہننے والی بھی کن اکھیوں سے دوسری لڑکیوں کے اڑتے ہوش دیکھ کر نازاں ہوتی جاتی۔
کچھ لوگوں کی دوران تعلیم شادی بھی ہو گئی اور وہاں بھی شب زفاف کا تحفہ ہیرے کی انگوٹھی ہی نظر آئی۔ اب تو لوگ پوچھے بنا ہی انگوٹھی کا حدود اربعہ جان لیتے کہ ضرور انہوں نے پہنائی ہو گی۔
ڈاکٹر بننے کے بعد قریبی سہیلیوں کی منگنیاں اور شادیاں شروع ہوئیں اور یوں لشکارے مارتی ہیرے کی انگوٹھیوں کا عمل دخل زندگی میں بڑھتا گیا لیکن اوروں کے حوالے سے۔ تب تک ہم ایمان لا چکے تھے کہ منگنی اور شادی ہیرے کی انگوٹھی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔
اس یقین میں پہلی دراڑ تب پڑی جب ہمارا آنا فانا رشتہ طے ہوا جس میں ہیرے کی چھوڑ کسی بھی انگوٹھی نام کی شے کا عمل دخل نہیں تھا، بس ایک دوپٹہ اور کچھ روپے۔ خالی انگلی دیکھ کر کچھ مایوسی ہوئی لیکن فوراً ہی دل نے تسلی دی، ارے جھٹ پٹ کے کاموں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ویسے جیولر کی دکانیں تو دیر تک کھلی رہتی ہیں، شرارتی ذہن نے نقطہ اٹھایا۔ ہٹ پرے، بچی کو نہ بہکا، دل نے گھرکا۔ انتظار کر، دو مہینے بعد تو شادی ہے۔ چلیے جناب امید پھر بندھ گئی۔
شادی ہو گئی، خیر و عافیت سے۔ ہر بات سے بڑھ کر ہمیں انتظار تھا۔ سمجھ جائیے کس کا؟ زیور کی ڈبیا ابھی ان کے ہاتھ میں ہی تھی کہ کن اکھیوں سے دیکھنے کی کوشش کی، صبر کرنے کی عادت جو نہیں تھی۔ یہ دیکھ کر دل بلیوں اچھلنے لگا کہ ڈبیا انگوٹھی ہی کی معلوم ہوتی تھی۔ انگوٹھی پہنا دی گئی، دل کو قابو کرتے ہوئے دھیرے دھیرے انگوٹھی کی طرف دیکھا، ہائے جان تمنا اتنے انتظار کے بعد ہاتھ آئی تھی۔ ادھ کھلی آنکھوں میں پیلے رنگ کی ہلکی سی جھلک نظر آئی، گھبرا کر فوراً پوری آنکھیں کھولیں تو انگلی میں ایک عدد خالص سونے کی انگوٹھی ہمارا منہ چڑا رہی تھی۔ سونا اور بس سونا، اور کچھ نہیں تھا اس انگوٹھی میں۔
یقین کیجیے، ہارٹ اٹیک ہونے سے بال بال بچے، بس پیلی رنگت اور پھٹی پھٹی آنکھوں پہ ہی بات ٹل گئی۔ وہ جس کے خواب دیکھتے دیکھتے یہاں تک آ پہنچے تھے وہ پھر دھوکا دے گئی۔
مایوسی تو تھی ہی لیکن ساتھ میں فکر بھی لاحق ہوئی۔ ہائے اللہ صبح سب سہیلیاں پوچھیں گی تو کیا دکھائیں گے انہیں؟ ابھی تک سب کی انگلیوں میں ہیرا ہی دیکھا تھا۔ کاش آدھی رات کو کوئی دکان کھلی ہو تو صبح ہونے سے پہلے پہلے جا کر ہیرے کی انگوٹھی لے آئیں۔
خود ہی خرید لیتیں نا جب شادی کا زیور خریدنے گئی تھیں، ذہن نے پھر شرارت کی۔ ضرور کر لیتے اگر ایک فیصد بھی شک ہوتا، رکتا تھمتا دل مدد کو آیا۔ ویسے بھی جو مزا تحفہ ملنے میں ہے، وہ خرید کر پہننے میں کہاں؟ اب کیا کریں؟ کیا کریں؟ یا اللہ صبح نہ ہو۔ آپا کو فون کریں کیا کہ علی الصبح کسی سے ایک عدد انگوٹھی ادھار لے کر ہمیں پہنچائیں، تاکہ سبکی سے تو بچیں۔ نہیں یہ بھی درست نہیں۔ اسی سوچ بچار میں صبح ہو گئی۔ دولہا میاں ہماری فکر مندی سے بے نیاز خراٹے بھرتے رہے۔ ہم بار بار انگلی دیکھتے جہاں پیلے سونے کی بہار تھی اور ٹھنڈی سانس بھر کر رہ جاتے۔ شادی کی سب ایکسائٹمنٹ اڑن چھو۔
صبح جس جس نے بھی پوچھا، دل مسوس کر ہم ہاتھ آگے بڑھا دیتے۔ دھیمی آواز میں جواب آتا۔ بہت پیاری ہے۔ ہم اس ریس میں ہار چکے تھے۔ ہیرے کی انگوٹھی غچا دے گئی تھی۔
خیر ہار کو جیت بنانا ہمیں خوب آتا تھا۔ دو دن گزرے تو معصوم سی شکل بنا کر ہم نے پوچھا، سنیے، یہ انگوٹھی کیا آپ نے خریدی تھی؟
ایک شان بے نیازی دم سے جواب ملا۔ نہیں، اماں نے دی تھی کہ دلہن کو دے دینا۔
ہت تیرے کی، محترم فلمیں دیکھنے کے اتنے شوقین اور اتنا سا کام بھی خود نہ کر سکے۔
خیر، منصوبہ بندی تو بائیں ہاتھ کا کھیل تھی سو ٹھان لی کہ اس انگوٹھی سے نجات پانی ہے جلد از جلد۔ اگلے ہی دن کسی دعوت پہ جانے سے پہلے۔
وہ میرے اماں ابا نے آپ کو ایک انگوٹھی پہنائی تھی، آپ پہنیں گے کیا؟
نہیں بھئی میں فوجی آدمی ہوں۔
لیں جی، بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا، ہو گیا کام۔
اچھا شام کو مجھے بازار جانا ہے۔ بہت ضروری۔
نئی نویلی دلہن کی پہلی فرمائش کون کافر ٹال سکتا تھا۔ انہیں ہوش تب آیا جب دلہن نے پٹیالہ جیولرز کی دکان میں بیٹھ کر ہیرے کی انگوٹھی پسند کرنا شروع کی۔ کچھ دیر تو بے چارے بول ہی نہ سکے۔ پھٹی پھٹی نظروں سے ہمیں دیکھتے رہے، ابھی دو تین دن ہی کی تو شناسائی تھی۔ ان کی حالت دیکھ کر ہم جلدی سے بولے، دونوں سونے کی انگوٹھیاں دے رہے ہیں اور اگر کچھ اور دینا پڑا تو زیادہ نہیں ہو گا۔
پھنسی پھنسی آواز میں جواب ملا، جیسے تمہاری مرضی۔
آنے والے دنوں میں جب بھی کوئی پوچھتا، منہ دکھائی میں کیا ملا؟ ایک شان بے نیازی سے ہم ہاتھ لہراتے جس کی چوتھی انگلی میں ایک ہیرے کی انگوٹھی جھلملا رہی ہوتی۔
واؤ، دولہا بھائی کی پسند تو بہت اچھی ہے۔
جی بہت۔ ہمارا قہقہہ۔
وہ انگوٹھی محض سات برس کے اندر ہم سے جدا ہو گئی۔ کیسے؟ وہ ایک الگ قصہ ہے۔ شہر زاد سنائے گی تو سہی مگر ہیرے کے سیٹ تک پہنچنے کی کہانی کے بعد ۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر