نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

روشن چراغ: الہجرہ ریزیڈینشل سکول اینڈ کالج||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے کالم میں وعدہ کیا تھا کہ اپنے قارئین کے ساتھ اچھا کام کرنے والے ممتاز سماجی اداروں کا تعارف کرائوں گا۔ تعلیمی پراجیکٹس پر کام کرنے والوں کو ترجیح دے رہا ہوں ۔جو ادارے لائق مستحق طلبہ کو بہترین تعلیم اور تربیت فراہم کر رہے ہیں، وہ ملک وقوم کے محسن ہیں، انہیں سراہنا اور ان کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ الہجرہ ریزیڈینشل سکول اینڈ کالج ایسا ہی ایک ادارہ ہے۔ اس کی کہانی بڑی دلچسپ ہے ۔ محمد عبدالکریم ثاقب ایک نیک دل پاکستانی ہیں جو طویل عرصہ سے برمنگم ، انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ ثاقب صاحب پاکستانیت اور خیر سے لبریز ہیں۔ بزرگ آدمی ہیں، اسی بیاسی سال عمر، کئی امراض میں مبتلا، مگر جذبے اور حوصلے پہاڑوں کی طرح بلند۔ ایسا مضبوط، استقامت اور حوصلے والا آدمی کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے، جس کے اندر مثبت چیزیں ہی بھری ہوں ، جو ہر وقت خیر کے لئے مستعدرہے اور اپنی پوری زندگی علم کی روشنی پھیلانے کے لئے وقف کر چکا ہو۔ عبدالکریم ثاقب صاحب کوئی دوعشرے قبل پاکستان آئے ہوئے تھے، انہوں نے بلوچستان کو قریب سے دیکھنے کا ارادہ کیا اور وہاں جا کر کچھ دن گزارے۔ ان میں خواہش پیدا ہوئی کہ اپنے بلوچ بھائیوں کے لئے کچھ کیا جائے۔ کسی دانا آدمی نے مشورہ دیا کہ بلوچستان میں اچھے تعلیمی ادارے کم ہیں، غربت ،پسماندگی کے باعث بہت سے لائق بچے تعلیم حاصل نہیں کر پاتے، اس ضمن میںکچھ کیا جائے۔ یہیں سے الہجرہ ریزیڈنشل سکول اینڈ کالج کے پراجیکٹ کے خیال نے جنم لیا۔ جنرل ضیا کے زمانے میں منصوبہ بنایا گیا کہ قائداعظم ریزیڈینسی زیارت کی مناسبت سے زیارت میں ایک اعلیٰ پائے کا تعلیمی ادارہ بنایا جائے گا۔ جگہ مختص ہوئی، عمارت بھی بنی،مگر پھر سب کچھ ادھورا رہ گیا۔ ثاقب صاحب کو اپنے پراجیکٹ کے لئے بلوچستان حکومت نے وہ جگہ دے دی۔ انہوں نے بلڈنگ میں اضافے کئے اورجناح کیمپس کے نام سے الہجرہ ریزیڈینشل سکول اینڈ کالج بنا دیا۔ انیس اپریل 2004کو اس کی بنیاد ڈالی گئی، یعنی اگلے ہفتے اسے انیس سال پورے ہوجائیں گے۔ یہ کام اتنا آسان نہیں تھا، آنے والے دنوں میں مسائل بڑھتے گئے، اس فری پراجیکٹ کے لئے سالانہ کروڑوں روپے کی ضرورت تھی، حکومت یہ دے نہیں سکتی تھی، اس کے لئے اہل خیر کی مدد چاہیے تھی۔ ثاقب صاحب نے ہمت نہ ہاری اور جت گئے ۔ انہیں عبدالرحمن عثمانی کی صورت میں ایک بہترین منتظم اور سراپا خیر شخص بھی میسر آگیا۔ عثمانی صاحب کئی عالمی چیریٹی تنظیموں میں کام کر چکے ہیں وہ چاہتے تو عرب دنیا کے کسی ادارے میں کام کر کے ہزاروں ڈالر ماہانہ کماتے۔ عبدالکریم ثاقب صاحب کا جادو ان پر ایسا چلا کہ عثمانی صاحب بھی پچھلے اٹھارہ انیس برسوں سے الہجرہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ الہجرہ سکول اینڈ کالج کا ماڈل یہ ہے کہ وہ چھٹی جماعت کے بعداپنا ایک ٹیسٹ لیتے ہیں۔اس ٹیسٹ کو پاس کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ لڑکے کا تعلق کم آمدنی والے گھرانے سے ہو۔ پہلے یہ پابندی تھی کہ سالانہ ڈھائی تین لاکھ تک آمدنی ہو یعنی بیس پچیس ہزار ماہانہ۔ اب اسے چار لاکھ کر دیا ہے تاکہ بتیس تینتیس ہزار ماہانہ آمدنی والے لوئر مڈل کلاس گھرانے شامل ہوسکیں۔ اس شرط پر نہایت سختی سے عمل کیا جاتا ہے،باقاعدہ تحقیق کر کے لڑکوں کو کلیئر کیا جاتا ہے۔ بعد میں اگر پتہ چل جائے کہ کسی خوشحال گھرانے کا بچہ کسی طرح اندر آ گیا ہے تو اسے فوری خارج کر دیا جاتا ہے۔ مقصد یہی ہے کہ عطیات کی رقم زیادہ سے زیادہ مستحق لائق بچوں پر صرف ہوسکے۔ الہجرہ سکول اینڈ ریزیڈینشل سکول اینڈ کالج جناح کیمپس زیارت کے لئے بلوچستان کے ہر ضلع سے دو طلبہ کو ٹیسٹ سے منتخب کیا جاتا ہے، زیارت کے مقامی ضلع سے چارطلبہ کو موقعہ ملتا ہے۔ یوںصوبے بھر سے چھہتر طلبہ کو ہر سال چھٹی جماعت کے بعد لیا جاتا ہے۔ ساتویں سے یہ ایف اے/ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سکول میں آنے کے بعد ان کی کتابوں، یونیفارم ، رہائش ، کھانے پینے وغیرہ کے تمام اخراجات الہجرہ سکول ہی اٹھاتا ہے۔ ٹیسٹ پاس کر کے آنے کے بعد لڑکے کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوتا۔ عید وغیرہ پر عیدی کی شکل میں تھوڑی بہت مدد بھی کی جاتی ہے، گھر جانے کے لئے کرایہ تک دے دیا جاتا ہے۔ الہجرہ سکول اینڈ کالج زیارت مجھے دو بار جانے کا موقعہ ملا۔ پہلی باروہاں 2011 میں گیا۔ ممتاز کالم نگار، اینکر جناب ہارون الرشید کی ترغیب پر ان کے ساتھ گیا۔ شاعر، کالم نگارجناب خالد مسعود اورکالم نگار، ایڈیٹر برادرم محمد طاہر بھی اس وزٹ میںہمراہ تھے۔ دو ہزار گیارہ کا چودہ اگست ہم نے زیارت میں الہجرہ سکول میں گزارا۔ کیا شاندار تجربہ تھا۔ سکول کے پراعتماد، لائق بچوں سے گفتگو کرنا اچھا لگا۔ اساتذہ بڑے کمٹیڈ اور جذبوں سے بھرپور تھے۔ الہجرہ سکول اینڈ کالج پراجیکٹ کے ساتھ وابستہ برادرم خیر محمد کاکڑ سے بھی تب تعارف ہوا۔ خیر محمد کاکڑ کمال کے آدمی ہیں، بلاخیز، خلوص اور محبت کے جزبوں سے معمور۔ کام کے اعتبار سے وہ جن جیسی رفتار اورمہارت رکھتے ہیں۔ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع ہے، جسے وہ الہجرہ کے مسائل حل کرنے کے لئے بروئے کار لاتے ہیں۔ اسے اتفاق ہی سمجھئے کہ ٹھیک دس سال بعد جولائی 2021میں دوبارہ الہجرہ زیارت جانا ہوا۔ اب کی بار ممتاز شاعر، کالم نگار سعود عثمانی، ہمدم دیرینہ اور کالم نگار میگزین انچارج ایکسپریس غلام محی الدین لاہور سے ہمراہ تھے۔ سوشل ایکٹوسٹ اور اخوت کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن ڈاکٹر سلیم رانجھا (سابق ممبر ایف بی آر)اسلام آباد سے شامل ہوئے تھے۔ ایک بار پھر بہت اچھا لگا ۔ الہجرہ میں سہہ زبان تعلیم دی جاتی ہے، اردو، انگریزی، عربی۔ بچوں کی عربی کی استعداد اتنی عمدہ ہوجاتی ہے کہ وہ روانی سے بات کر سکتے ہیں۔ ہر روز سکول کے صحن میں جو اسمبلی ہوتی ہے، وہ ایک دن اردو، ایک دن انگریزی اور ایک دن عربی میں ہوتی۔ جس دن ہم گئے ، وہ عربی کا دن تھا۔ لڑکوں نے بہت عمدہ طریقے سے اسمبلی کی پوری کارروائی منعقد کی۔ الہجرہ کا نہ صرف تعلیمی معیار بہت اچھا ہے، بلکہ اخلاقی تربیت پر خاص زور دیا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اچھے طالب علم پروڈیوس ہوںجو اچھے انسان اور اچھے شہری بنیں۔ جولائی دو ہزار اکیس کے سفر میں الہجرہ کی ایلومینائی (سابق طلبہ)سے بھی ملنے اور گفتگو کا موقعہ ملا۔ حیرت ہوئی کہ جو لوگ کئی سال پہلے الہجرہ چھوڑ چکے ، تعلیم مکمل کر کے اچھی ملازمتیں لے چکے ہیں، بظاہر ان کا اب الہجرہ سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ یہ ادارہ مگر ان کے ساتھ یوں جڑا ہوا ہے کہ یہ ایلومینائی آج بھی الہجرہ کے اس عظیم پراجیکٹ کا حصہ بنے رہنا چاہتے ہیں۔مجبور کر کے اپنی تنخواہ سے کچھ رقم بطور عطیہ دیتے ہیں، طلبہ سے انٹرایکشن اور ان کی رہنمائی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ عبدالرحمن عثمانی نے جو مجھے تازہ ترین اعداد وشمار بھیجے ، ان کے مطابق اس سال سے الہجرہ زیارت کے طلبہ کی تعداد ساڑھے تین سو ہو جائے گی۔ چار سو سے زیادہ طلبہ اس ادارے سے تعلیم پا چکے ہیں،ان میں سے اکثر نے بعد میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ مضبوط تعلیمی بنیاد اور قابلیت کی وجہ سے بیسیوں لڑکے میڈیکل اور اتنے ہی انجینئرنگ یونیورسٹیز میں گئے، بہت سوں نے کامرس، فارمیسی اور دیگر شعبوں کا رخ کیا۔ الہجرہ کی ایلومینائی میں بارہ ایف سی پی ایس (میڈیکل کنسلٹنٹ)اور دو پی ایچ ڈی ہیں۔ درجنوں بلوچستان حکومت کے مقابلے کا امتحان پا س کر کے مختلف عہدوں پر فائز ہوچکے۔ الہجرہ سے بچے انٹر کر کے فارغ ہوجاتے ہیں، مگرانتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح گریجوایشن میں بھی ان کی مدد کی جائے۔، جو ہاتھ ایک بار پکڑا تھا، اسے کسی نہ کسی طرح پکڑے رہنے کی سعی کی جاتی ہے۔ اپنے دونوں اسفار میںبرادرم عبدالرحمن عثمانی اور عبدالکریم ثاقب صاحب سے عرض کیا تھا کہ بلوچستان کو ایسے اداروں کی بہت ضرورت ہے، اس لئے بہت اچھا ہے کہ یہاں سے آغاز ہوا۔ایسا ادارہ مگر جنوبی پنجاب میں بھی بننا چاہیے، وہاں بھی بہت ضرورت ہے۔خوش قسمتی سے اب ایسا ہوگیا ہے۔رواں سال سے الہجرہ ریزیڈیشنل سکول اینڈ کالج ڈیرہ غازی خان کیمپس اپنا کام شروع کر رہا ہے۔ پندرہ مئی تک طلبہ کے ٹیسٹ مکمل ہوجائیں گے۔جون سے ان شااللہ تعلیم شروع ہوجائے گی۔ ڈی جی خان میں اس کا کیمپس ہے، جس کے لئے بلڈنگ لیز پر لی گئی ۔ جنوبی پنجاب (ملتان ، بہاولپور، ڈی جی خان ڈویژنز وغیرہ)کے پندرہ اضلاع سے دو دو طلبہ لئے جائیں گے جبکہ سندھ کے تیس اضلاع سے بھی دو دو طلبہ لے کر سندھ اور جنوبی پنجاب کے لئے نوے طلبہ پر مشتمل پہلا بیچ تعلیم حاصل کرنا شروع کرے گا۔ زیارت کی طرح یہاں بھی تعلیم، کتابیں، یونیفارم، قیام وطعام وغیرہ سب کچھ فری ہوگا۔اس پراجیکٹ کے لئے معلومات +92 333 5115133 سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ الہجرہ کی سب سے اچھی بات اردو، انگریزی، عربی زبانوں میں مہارت، اچھی تعلیم کے ساتھ بھرپور اخلاقی تربیت ہے۔ امید ہے کہ زیارت الہجرہ کی طرح ڈی جی خان کیمپس میں بھی طلبہ میںوہی اوصاف پیدا کئے جائیں گے۔ الہجرہ ریزیڈینشل سکول اینڈ کالج پراجیکٹس یقینی طور پر ایسا ادارہ ہے جو اہل خیر کی توجہ اور مدد کا مستحق ہے۔ ایسے اداروں کو سپورٹ کرنا چاہیے تاکہ ان کا کام پھیلے اور مزید اچھے تعلیمی ادارے بن سکیں۔

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author