نور الہدیٰ شاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطالعہِ پاکستان کے مضمون کی تباہی کے بعد اب ملک کو ”علمِ رمل“ کے ذریعے چلایا جا رہا ہے!
کیا آپ کو معلوم ہے؟
دیواروں پر لکھے بنگالی بابے اور بی بی جادوگرنیاں بالآخر اپنے عمل میں کامیاب رہے اور سب نے مل کر پاکستان کا وہ نمبر نکالا ہے جو بدنصیب ترین نمبر بتایا جاتا ہے، بل کہ ثابت بھی کیا جا چکا ہے!
وہ ہے نمبر 22 کروڑ!
بابوں اور بیبیوں کا کہنا ہے کہ ملک کو جب تک اس 22 کروڑ نمبر سے چھٹکارا نہیں دلایا جائے گا، تب تک یہ ملک نحوست سے نجات پا نہ سکے گا!
ملک پر اس نمبر کا منحوس سایہ ہے!
بات تو صحیح ہے!
پاکستان کا پڑھا لکھا شہری طبقہ جو ولایت کی ڈگریاں نہ سہی، ولایتی لائف اسٹائل تو رکھتا ہے، ان کی نیندیں اُڑ چکی ہیں! ان کے بچوں اور بچوں کی ماؤں کے لیے ملک کا یہ جاہلانہ نمبر ولایت جیسی جگہوں پر شرمندگی کا سبب بن رہا ہے!
اس منحوس نمبر کی وجہ سے بوڑھے ضعیف رٹائرڈ جنرلز دیواروں سے سر پھوڑ رہے ہیں اور چیخ رہے ہیں کہ کوئی حافظِ قرآن ہو جو اس 22 کروڑ نمبر پر اسرافیل کی سی ایسی پھونک مارے کہ یہ نمبر 22 کروڑ سرے سے غائب ہی ہو جائے، جیسے تھا ہی نہیں!
22 کروڑ۔ 22 کروڑ۔ 22 کروڑ نمبر کا وظیفہ پڑھتے پڑھتے سیاستدانوں کی زبانیں الگ خشک ہو چکی ہیں!
مگر انتہائی بے برکت وظیفہ ثابت ہوا ہے، جس میں دعا کے بجائے بد دعا کا سا اثر ہے!
فقط ججز صحت مند ہیں، کیوں کہ انہوں نے 22 کروڑ نمبر کو نہ صرف ڈس اون کر دیا ہے بل کہ عدالتِ عظمیٰ کے داخلی دروازے پر اس منحوس 22 کروڑ نمبر کو تکبیر لگا کر ذبح بھی کروا دیا ہے!
اب عدالت صاحب لوگ کے دل لگی کی جگہ ہے!
صوبائی اور وفاقی حکومتیں اور ریاست اس نمبر 22 کروڑ کی جنازہ نمازیں پڑھ پڑھ کر نڈھال ہو چکی ہیں! کمبخت ایسا نمبر ہے جو سینکڑوں نمبر جنازہ کرنے کے بعد بھی پھر پھوٹ پڑتا ہے اور دوبارہ سے 22 کروڑ بن جاتا ہے!
آئیے مل بیٹھیں اور اس خوبصورت ملک کی خاطر 22 کروڑ نمبر سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ تلاش کریں!
ہمارا پیارا یہ ملک جس کی خوبصورت زمین نے ہمیں بڑے بڑے خوبصورت پلاٹ دیے، ڈی ایچ اے جیسی پوش آبادیاں دیں، غلامی سے آزادی کے بعد بھی کنٹونمنٹ جیسے مقبوضہ علاقے دیے، بحریہ ٹاؤن سمیت لاتعداد ٹاؤن دیے، جنہوں نے بلڈوزر چلا چلا کر اس 22 کروڑ منحوس نمبر کو خوب کچلنے کی کوشش کی ہے مگر وہی ڈھاک کے تین پات!
22 کروڑ گھٹتا نہیں، وہیں کا وہیں موجود ہے!
آئیے ہم پڑھے لکھے، ماڈرن، باشعور لوگ ٹوٹی پھوٹی اردو میں نہ سہی، انگریزی میں ہی سہی، مل کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں کہ ہمارے ریئل اسٹیٹ جیسے آرام دہ ملک کو 22 کروڑ نمبر سے نجات حاصل ہو جائے!
کیوں کہ 22 کروڑ جہالت کا نمبر بھی ہے، یہ نمبر نہ اسکولوں میں جچتا ہے اور نہ ہسپتالوں میں زندگی کی ضمانت دیتا ہے! سیلابوں، بیماریوں، خودکش حملوں، تڑ تڑ گولیوں، بھوک اور افلاس، اجتماعی اموات، بے یار و مددگار جیلوں کی قید، ہجوم کی ٹھوکروں میں کچلے جانے کے بعد بھی، کسی بھی ذریعے سے یہ نمبر گھٹتا نہیں!
اب تو حد یہ ہوئی کہ آٹے کی بوریاں 22 کروڑ کے نمبر کی وجہ سے کم پڑ گئی ہیں! ورنہ ہم باشعور ماڈرن پاکستانی تو اتنے با برکت ہیں کہ ریسٹورنٹس رزق اور رزق والوں سے بھرے پڑے ہیں۔ پیر رکھنے کی جگہ نہیں!
مصیبت یہ ہے کہ اس 22 کروڑ کا کوئی چہرہ نہیں ہے!
کوئی نام اور مستقل پتہ نہیں ہے!
مثلاً الیکشن کے دنوں میں اس نمبر کی تلاش ہوتی ہے!
یا عدالت حکم دے دے کہ نکالو 22 کروڑ اور اس نمبر کو رگید کر ان کا ووٹ بناؤ اور بائیس کا بائیس ہماری مرضی کے ڈبے میں ڈالو تو اس نمبر 22 کروڑ کی تلاش ہوتی ہے!
عدالت بھول جاتی ہے کہ وہ اس نمبر کو ذبح کر چکی ہے!
ریاست بھول جاتی ہے کہ 22 کروڑ نمبر ریئل اسٹیٹ کے بلڈوزر تلے کچلا گیا!
اب جب ڈھنڈیا مچتی ہے، 22 کروڑ کا نمبر اپنی مرضی کے ڈبے میں ڈالنے کے لیے، تب اس نمبر کا چہرہ، نام اور پتہ تلاش کیا جاتا ہے!
22 کروڑ، ایسا ڈھیٹ نمبر ہے کہ کفن جھاڑ کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے ڈبے میں گھسنے کے لیے!
اس وقت سب بابو صاحب چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ 22 کروڑ نمبر ہمارا ہے!
22 کروڑ ہمارا ہے!
ہمارا 22 کروڑ!
مگر الیکشن کے بعد 22 کروڑ کا نمبر کیڑے مکوڑوں اور باریک باریک چیونٹیوں کی طرح پھر مٹی میں رُل مل کر، پلاٹ بننے سے فی الحال بچ رہ گئی اس پاک زمین میں یہاں وہاں پھیل جاتا ہے!
کتنا مشکل ہے 22 کروڑ کا سمانا!
زمین کے پلاٹ بنائیں یا 22 کروڑ کا نمبر پلاسٹک کی تھیلیوں کی طرح پھیلا دیں!
ریاست اور بابو لوگ کا بس نہیں چلتا کہ اس 22 کروڑ سے نجات حاصل کرے اور ووٹ کے ڈبے میں صرف پڑھے لکھے ماڈرن بابو لوگ کا نمبر ڈالے!
بیچاری میری پاک سر زمین اور منحوس 22 کروڑ کا نمبر!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر