نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتان کا ایک پنجابی سپوت !!!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ عہد کے ملتان میں نامور سیاستدان مخدوم سید یوسف رضا گیلانی ، مخدوم شاہ محمود قریشی، مخدوم جاوید ہاشمی سمیت بہت سے سیاستدان موجود ہیں ، علماء و مشائخ کی بھی کمی نہیں مگر ملتان سے محبت کا اظہار ہمیشہ اہل قلم ہی کرتے آ رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ مخدوم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم جاوید ہاشمی کی کتابیں شائع ہوئی ہیں مگر یہ کتابیں ملتان کی نہیں بلکہ ان کی اپنی ذاتی زندگی بارے ہیں۔ آج ملتان کی تاریخ نئے سرے سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے ، پانچ ہزار سال کی معلوم تاریخ میں ملتان یا سلطنت رہا یا صوبہ۔ دو صدیوں پہلے ملتان عظیم رہا ہے۔ ملتان کے سپوت ڈاکٹر مختار احمد ظفر پنجابی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے بزرگ 1925ء میں آباد کاری سکیم کے تحت مشرقی پنجاب سے بہاولپور آئے، حاصل پور اور بہاولپور میں قیام کے بعد ملتان آئے اور ملتان کے ہی ہو کر رہ گئے۔ ڈاکٹر مختار احمد ظفر نے ملتان کی تاریخ ، تہذیب اور ثقافت کے بارے میں بہت کام کیا ، علامہ طالوت بارے ان کا تحقیقی مقالہ یونیورسٹیوں میں پڑھایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر مختار احمد ظفرصاحب کی کتاب ’’ سیاسی و سماجی منظر نامہ، تہذیبی ملتان کا‘‘(عہد قدیم تا دور جدید) سامنے آئی ہے۔ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ڈاکٹر صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوںکہ وہ اپنی دھرتی، اپنی مٹی اور اپنے وسیب کا قرض ادا کر رہے ہیں۔ یقیناً یہ کتاب بذات خود ایک تاریخ بھی ہے اور تاریخی حوالہ بھی۔ ڈاکٹر صاحب کا تہذیبی کام یاد رہے گا کہ آپ کے پی ایچ ڈی کے مقالے میں جن چھ شخصیات پر ریسرچ کی گئی ہے ان سب کا تعلق وسیب سے ہے اور وہ وسیب کی زبان بولنے والے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا کمال یہ ہے کہ ان کی ماںبولی پنجابی ہے مگر وسیب اور وسیب کی زبان سے پوری محبت کرتے ہیں اور پنجابی کا جو مقولہ ہے’’ تیرے جہے پُت جمن ماواں‘‘ ایسے ہی لوگوںپر صادق آتا ہے۔ وہ لوگ عظیم ہوتے ہیں جو اپنی دھرتی، اپنی مٹی اور اپنے وسیب کی تہذیب و ثقافت سے محبت کرتے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ڈاکٹر مختار احمد ظفر صاحب کا تحقیقی کام وسیب کے طالب علموںکیلئے حوالے کا کام دے گا کہ ملتان آج سے نہیں بلکہ ہزاروں سالوں سے تہذیبی، ثقافتی اور روحانی مرکز کے طور پر قوموں اور تہذیبوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔ خطہ ملتان نے جتنے سائنسدان، ہنر مند اور عالم فاضل پیدا کیے۔ یہ اس وسیب کیلئے فخر کی بات ہے مگر ملتان کی شخصیات کا جہاں تذکرہ عنقا ہے وہاں ملتان کے آثار بھی رفتہ رفتہ مٹ رہے ہیں۔ صرف ملتان پر ہی کیا موقوف پورے سرائیکی وسیب کے آثار مٹائے جا رہے ہیں، ہمارے ٹھل ٹھیڑ، ماڑیاں، مقبرے مسمار ہو رہے ہیں پر کوئی توجہ دینے والا نہیں۔ گزشتہ 74 سالوں کا بجٹ اٹھا کر دیکھیں تو پوری کہانی سمجھ آ جائے گی کہ شاہی قلعہ لاہور پر کتنا سرمایہ خرچ ہوا اور قلعہ کہنہ ملتان یا سرائیکی وسیب کے آثار قدیمہ پر کتنا فنڈ خرچ ہوا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سرائیکی وسیب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کا قلعہ ہڑندبرباد،ڈیرہ اسماعیل خان کا کافر کوٹ اور ہندیرے تباہ، ملتان کے سینکڑوں آثار مسمار، اوچ کے مزارات انہدام پذیر، قلعہ ڈیراور غیر محفوظ اور باقی تمام آثار مٹی کے ساتھ مٹی ہوتے جارہے ہیں۔ ہندوئوں کے جانے کے بعد مندروں کی ذمہ دار حکومت وقت تھی مگر حکومت نہیں چاہتی کہ سرائیکی قوم کی عظمت کی نشانیاں محفوظ رہیں اور یہ قوم اپنے ماضی سے اپنا حال اور اپنا مستقبل تلاش نہ کر لے۔ ملتان کے بارے میں ایک فارسی شعر’’چہار چیز است تحفہ ملتان، گرد، گرما، گداو گورستان‘‘تو کہہ دیا گیا لیکن اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی کہ کن کن حملہ آوروں نے ملتان کو نیست و نابود کرنے کے بعد اسے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کیا۔ کن کن حملہ آوروں نے ملتان جیسی عظیم ہنستی بستی تہذیب کو گورستان بنایا اور وہ ملتان جسے تاریخ نے بیت الذہب یعنی سونے کا گھر کہا اور جہاں کے باسی سونے کی تاروں سے بنے ہوئے جوتے پہنتے تھے اور جہاں کے باسیوں کا شمار کائنات کے امراء ترین انسانوں میں ہوتا تھا انہیں کاسہ گدائی تک کس نے پہنچایا؟۔ 373 ھ کی ایک تصنیف ’’حدود العالم بن المشرق الی المغرب ’’میں سلطنت ملتان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ملتان کی سرحدیں جالندھر پر ختم ہوتی ہیں۔ ایک کتاب ’’سید المتاخرین‘‘ میں لکھا گیا ہے کہ یہ خطہ بہت زیادہ زرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع و عریض بھی ہے۔ ایک طرف ٹھٹھہ، دوسری طرف فیروز پور، جیسلمیر اور کیچ مکران تک کے علاقے اس میں شامل تھے۔ ابوالفضل کی کتاب ’’آئین اکبری‘‘ میں درج ہے کہ ملتان بہت بڑی اقلیم ہے، اس میں تین سرکاریں ملتان خاص دیپالپور اور بھکر شامل تھے، ملتان کی تہذیب و ثقافت بہت مضبوط ہے، یہ علاقہ بہت بڑا تجارتی اور ثقافتی مرکز ہے۔ انقلابات کے زمانے اور ہزاروں سال سے حملہ آوروں کی ریشہ دانوں کے باوجود اس خطے اپنی منفرد تہذیبی شناخت کو قائم اور زندہ رکھیا ہوا ہے۔یہ بھی وقت اور حالات کی ستم ظریفی ہے کہ آج ملتان کو جنوبی پنجاب بنانے کے دلاسے دیئے جا رہے ہیں۔ کل ملتان کیا تھا اور لاہور کی کیا حیثیت تھی؟ اس کا تذکرہ حضرت داتا گنج بخش ہجویریؒ کی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ یکے از لاہور مضافاتِ ملتان کی صورت میں موجود ہے۔ملتان کی تاریخ کے حوالے سے بہت سے موضوعات ہیں جن میںملتان کائنات کا قدیم شہر،ملتان تہذیب و ثقافت کا گہوار،ملتان ایک قدیم سلطنت،ملتان صوبہ، ملتان اولیاء کی سرزمین،ملتان مذاہب کا قدیم مرکز، ملتان کے قدیم نام،پر ہلاد کی داستان، ملتان اور شاہان عالم، سکندر اعظم اور ملتان، ملتان اور چندر گپت موریہ، اشوک اعظم، ہندوئوں کا مذہبی تہوار ہولی اور ملتان، ملتان اور تاریخ ملتان کے بارے میںبہت کچھ کہا جا سکتا ہے، ملتان کے بارے میںجو کتابیں لکھی گئیں ان میں تاریخ التواریخ، منشی حکم چند کی تاریخ ملتان، زبدۃ الاخبار، ارض ملتان، آئینہ ملتان، ملتان قدیم وجدید، سید اولاد علی گیلانی کی مرقع ملتان، تصویر ملتان، نقش ملتان، ملتان اور مورخین، فقہائے ملتان، ملتان اور نواب مظفر خان، ملتان ماضی و حال کے آئینے میں، تاریخ و تمدن ملتان اور اس طرحکی اردو، انگریزی اور فارسی زبانوں ملتان کی تاریخ بارے سینکڑوں کتب لکھی گئیں،مگر یہ سب گمنامی کا شکار ہو رہی ہیں۔ آج ملتان پر نئے سرے سے تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے اور جس طرح حملہ آوروں نے ملتان کو دیکھا ہے اسی طرحآج فرزندان ملتان انہی حملہ آوروںکے روپ بہروپ کو دیکھیں اور اپنی عظمت رفتہ کو بحال کریں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author