محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسٹس اطہر من اللہ کااختلافی نوٹ دیکھ کر شدید مایوسی ہوئی۔
افسوس کہ ایسے ججوں کی خاطر ہم نے کئی دوستوں سے لڑائی مول لی، ہم ان کا ہر جگہ مقدمہ لڑتے رہے۔
اس اختلافی نوٹ کی "”حیران کن” ٹائمنگ کو چلو چھوڑ دیتے ہیں، اس پر جائیں کہ کیسے دیدہ دلیری کے ساتھ سپریم کورٹ کے تین دو کے فیصلے کو چار تین کا کہہ رہے ہیں،کس بنیاد پر؟
اگر فیصلہ چار تین ہوتا توکوئی سات رکنی بنچ بھی ہوتا۔کہاں تھاوہ سات رکنی بنچ؟
کسی سات رکنی بنچ نے ایک گھنٹے کے لئے بھی سماعت کی تھی؟ نہیں۔
صرف پانچ رکنی بنچ بیٹھا اور تین دن تک سماعت کی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بنچ کاایک جج غیر حاضر ہو تو بنچ نہیں بیٹھتا، کارروائی نہیں ہوتی۔
جن تین دنوں میں پانچ رکنی بنچ سماعت کرتا رہا ان میں سے کسی نے یہ کیوں نہیں کہا کہ ہمارے بنچ کے دو جج صاحبان اج نہیں ہیں، سماعت نہ کی جائے۔ کسی نے کچھ نہیں کہا، اس لئے کہ بنچ تھا ہی پانچ رکنی۔
یہ دو جج اطہر من اللہ اور جسٹس یحیی الگ ہوئے اور انہوں نے پورا کیس سنا ہی نہیں۔ جب تک مختلف فریقوں کو سن نہ لیا جائے کوئی جج کیسے فیصلہ سنا سکتا ہے؟ وکلا کا موقف اور دلائل سنے بغیر تو جج فیصلہ نہیں کر سکتے۔
جسٹس اطہر من اللہ جب باقی ماندہ کارروائی میں تھے ہی نہیں تو وہ فیصلہ کیسے سنا سکتے تھے؟
جسٹس اطہرمن اللہ نے نجانے کیاسوچ کر یہ سب باتیں لکھ ڈالیں۔ نہایت افسوسناک۔
ایک اور عجیب بات کہ چیف جسٹس اسلام اباد ہائی کورٹ کے طور پر جسٹس اطہر کی جیورس پروڈنس یہی رہی کہ اسمبلیوں کے طریقہ کار اور معاملات میں عدالت کو دخل نہیں دینا چاہئیے۔
اب اچانک سے جسٹس اطہر کو علم ہوا ہے کہ نہیں عدالت کی یہ بھی زمے داری ہے کہ وہ پہلے یہ طے کرے کہ کم بخت وزیراعلی کو جرات کیسے ہوئی اسمبلی توڑنے کی۔ حد ہوتی ہے۔
جج صاحب فرماتے ہیں سیاسی مقصد کے لئے کوئی اسمبلی نہیں توڑ سکتا۔ کیوں جناب ؟ آپ نے یہ طے کرنا ہے یا آئین نے؟
جواختیار ائین غیر مشروط دیتا ہے اسے جسٹس اطہر من اللہ کیسے ساقط یامشروط کر سکتے ہیں؟
اور پارلیمنٹ ہے ہی سیاسی، وہاں پر سیاسی فیصلے ہی ہونے ہیں، ادبی فیصلے تو نہیں ہوں گے۔
دنیا بھر میں مختلف سیاسی وجوہات پر قبل ازوقت الیکشن، مڈ ٹرم الیکشن ہوتے ہیں۔ یہ منتخب وزیراعلی یاوزراعظم کا حق ہے۔
بھٹوصاحب نے ایک سال قبل اسمبلی توڑ کر الیکشن کرایا تھا۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ برطانیہ میں ، بھارت میں قبل از وقت الیکشن ہوتے رہے ہیں اور صرف سیاسی وجوہات پر۔ جاپان میں تو درجنوں بار ایسا ہو چکا۔ ابھی ترکیہ میں صدر طیب اردوان قبل ازوقت الیکشن کرا رہے ہیں۔ کسی عدالت نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
پھر اسمبلی کا کسٹوڈین سپیکر ہے،جب اسے اعتراض نہیں تواور کون اعتراض کر سکتا ہے؟
لاہور ہائی کورٹ میں اسمبلی تحلیل کےحوالے سے کیس تھا توالیکشن کمیشن سمیت کسی نے ،کسی رکن اسمبلی تک نے یہ اعتراض نہیں کیا۔ فاضل جج اطہرمن اللہ یہ اعتراض کیسے کر سکتے ہیں؟
جسٹس اطہر کا اختلافی نوٹ نہایت کمزور، مایوس کن اور دلائل سےعاری ہے۔ صاف لگ رہا ہے کہ زور لگانے کے باوجود بات جج صاحب سے بنی نہیں۔
میں جج صاحبان پر الزامات لگانے کا قائل نہیں، اس فیصلے کو بدنیتی بھی نہیں کہنا چاہتا۔
میرے نزدیک یہ مایوس کن اور افسوس ناک فیصلہ ہے۔ جسٹس اطہر کے شایان شان نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر