دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امجد اسلام امجد کون تھے؟۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کورونا کی وبا بہت حوالوں سے مایوسی دلانے والی تھی۔ بندہ بندے کی موت بن گیا تھا، کوئی چھینک کی آواز آپ کے رونگٹے کھڑے کر دیتی، روزانہ ویب سائیٹ پر اموات کی اپ ڈیٹس، کاروبار اور نوکریوں کی بے یقینی، اور کتاب چھپنے کے حوالے سے شکوک و شبہات۔ بہت کچھ تھا جو منفی تھی، بلکہ سبھی کچھ۔
میں نے کچھ پوسٹ کیا ایک کتاب ’’نظریات کی مختصر تاریخ‘‘ کے بارے میں جسے کوئی پبلشر چھاپنے پر زیادہ آمادہ نہیں تھا۔ بک کارنر جہلم والوں سے زبردستی کر کے چھپوا بھی سکتا تھا، لیکن میں ایسا کبھی نہیں کرتا۔ لہٰذا کچھ کتب کے مسودے بیس بیس سال بھی پڑے رہے، اور ایک دو تو اب بھی پڑے ہیں۔ میں نے پوسٹ لگائی تو امجد اسلام نے کمنٹ کیا کہ مجھے کال کرو۔
میرے پاس نمبر موجود تھا۔ کال کی تو بہت دلجوئی کی، کہنے لگے، ’’یار میں کرتا ہوں کسی پبلشر سے بات۔ کیا تم بک کارنر والوں کو جانتے ہو؟‘‘ میں نے بتایا کہ ہاں وہ میرے پکے پبلشر ہیں، اُن کو تو میں خود بھی کہہ لوں گا۔ لیکن اُنھوں نے فوراً امر شاہد کو کال کر کے کہا کہ وہ اس کتاب کو شائع کریں، اور میری تعریف بھی کی، جسے دہرانا غیر ضروری ہے۔
وہ میری پوسٹس پڑھتے تھے، کچھ کتابیں بھی دیکھ چکے تھے۔ اُنھوں نے وعدہ بھی کیا کہ نظریات کی مختصر تاریخ کا دیباچہ لکھیں گے۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور بک کارنر سے کتاب شائع ہو بھی گئی۔ آج امر سے فون پر بات کرتے ہوئے ہم اُن کی تعریفیں کر رہے تھے اور اب میں کئی باتیں سوچ رہا ہوں۔ امجد صاحب کو نہ مجھ سے کوئی غرض تھی، نہ کوئی اُس طرح کی دھڑے بازی کا معاملہ تھا، نہ میں اُن کے دور اور حلقے کا آدمی تھا، نہ ہی اور کوئی قابلِ تصور وجہ نظر آتی ہے۔ صرف ایک ہی وجہ ہو سکتی تھی کہ وہ کتاب کے آدمی تھے۔ اُنھوں نے شاعری کے علاوہ الگ سے علم کا شعبہ نہ کھولا، بلکہ اپنے علم اور نقطۂ نظر کو اپنی شاعری میں ہی سمویا، جس سے آپ اختلاف یا اتفاق کر سکتے ہیں۔ ویسے جمالیات سے کیا اختلاف!
یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری آپ کی کاوشوں کی قدر کرنے والے کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ معاشرتی کھوہ میں اگر محض صارفین نہیں بننا اور کچھ نہ کچھ انسانیت باقی رکھنی ہے تو سوچنے اور سمجھے کی صلاحیت کو برداشت کرنا اور سراہنا سیکھنا ہو گا۔
جو لوگ نئی سوچ اور مختلف بات کو گوارا نہیں کرتے اور اپنی ہی گنجان تاریکی میں مطمئن بیٹھے رہنا چاہتے ہیں، اُن کو نوید ہو کہ کاغذ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ جتنے ڈالر بھی ملک میں دستیاب ہیں، وہ لپ سٹک، نائٹی، جیلٹ کے بلیڈ منگوانے کے کام آ جاتے ہیں۔ ویسے جیلٹ کا ایک بلیڈ بھی اب 1200 روپے کا ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author