مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

4 اپریل: مقتلوں میں فاتحہ خوانی کا دن۔۔۔|| وجاہت مسعود

ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے بعد سے ہماری سیاست اپنے حقیقی جوہر سے محروم ہو کر کٹھ پتلیوں کا تماشا بن گئی۔ ہمارا ملک مستحکم جمہوریت کا نمونہ نہیں کہ امریکا کی طرح 4 اپریل 1968 کو مارٹن لوتھر کنگ کی شہادت سے سنبھل جاتا۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچنے والے پہلے قومی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر 44 برس بیت گئے۔ بھٹو صاحب کو 3 اور 4 اپریل 1979 کی درمیانی رات جیل قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے علی الصبح 5 بجے کی بجائے دو بجے ہی راولپنڈی کی ڈسٹرکٹ جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب کو رخصت ہوئے نصف صدی ہونے کو آئی، پاکستان کے قومی ارتقا بالخصوص عدلیہ کے کردار پر اس بھیانک جرم کے دھبے آج بھی موجود ہیں۔ اگر شیکسپیئر کے معروف مکالمے میں ذرا سی بھی حقیقت ہے تو بحیرہ عرب کے برابر عود و عنبر کی خوشبویات سے بھی لیڈی میکبتھ کے ہاتھوں پر سے اس ناانصافی کا داغ نہیں دھل سکتا۔ حیران کن اتفاق ہے کہ جنرل ضیاالحق اور ان کے ساتھیوں سے پونے چار سو برس قبل کے تمثیلی کردار لیڈی میکبتھ کی رعونت کا سرچشمہ بھی یہی غلط فہمی تھی ۔

What need we fear who knows it, when none can call our power to account?

اگرچہ خود کو جواب دہی سے بالا سمجھنے والوں کی جرات کا یہ عالم تھا کہ جنرل فیض علی چشتی نے اپنی خود نوشت میں اس رات راولپنڈی میں موجود ہونے ہی سے انکار کیا ہے۔ البتہ اپنے ساتھی جنرل کے ایم عارف پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس رات ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں موجود تھے۔ دوسری طرف راولپنڈی جیل میں بھٹو صاحب کی سکیورٹی کے عسکری انچارج کرنل رفیع الدین نے اپنی کتاب میں ان دونوں بہادر جرنیلوں کی جیل میں موجودگی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ البتہ یہ اعتراف ضرور کیا ہے کہ ایک انٹیلی جنس ایجنسی کے ملازم فوٹو گرافر کو خاص طور پر جیل لایا گیا تھا تاکہ وہ بھٹو صاحب کی نعش کی برہنہ تصاویر اتار کر ان کے اعضائے تناسل کی مسلم شباہت کی تصدیق کر سکے۔ جنرل ضیاالحق بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد بھی ان کی کردار کشی کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ عینی گواہوں کے مطابق پھانسی کی رات فوجی جنتا کے اعصاب اس قدر تناؤ کا شکار تھے کہ ضیا کے ایک قریبی ساتھی جنرل کے ڈرائیور  نے نادانستہ ایک غلط موڑ کاٹا تو تین ستارہ جنرل باقاعدہ ڈرائیور  سے دست و گریبان ہو گیا۔ اسے شبہ ہوا تھا کہ ڈرائیورنگ کی معمولی غلطی غالباً کسی سازش کا حصہ تھی۔ دوسری طرف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اپنا اضطراب چھپانے کے لئے رات بھر نفل ادا کرتے رہے۔ جب انہیں بھٹو صاحب کا جسد خاکی لاڑکانہ کی طرف پرواز کرنے کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے جائے نماز لپیٹ دی۔ فوجی آمر جنرل ضیاالحق کو اپنے جرم میں خدا کا نفسیاتی سہارا درکار تھا۔

یہاں پر عدالتی قتل کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کا باقاعدہ تاریخی تناظر موجود ہے۔ یہ اصطلاح 1688 کے انقلاب انگلستان میں پہلی بار استعمال کی گئی تھی اور اس کا مقصد مخالفین کو اس طرح راستے سے ہٹانا تھا کہ بظاہر قانونی طریقہ کار اختیار کیا جائے لیکن جھوٹے الزامات اور قانونی موشگافیوں کی مدد سے یہ تاثر قائم کیا جائے کہ مقتول سیاسی وجوہات کی بجائے اپنے جرائم کی سزا کو پہنچا ہے ۔ 90 برس بعد والٹیئر نے بھی عدالتی قتل کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ اسی طرح 1782 میں سوئٹزرلینڈ میں جس آخری خاتون اینا گولڈی کو جادوگرنی ہونے کے الزام میں سزائے موت دی گئی تھی ۔ اس کے مقدمے کی عدالتی کارروائی کی صحافتی رپورٹ کرنے والے گرہارٹ ہرمن موسٹر(Gerhart Herrmann Mostar) نے لکھا تھا کہ عدالتی قتل کسی معصوم انسان کا ایسا دانستہ قتل ہے جس میں بظاہر تمام قانونی رسومات پورے کی جاتی ہیں لیکن انصاف کرنے والوں کا مقصد جرم کو روکنے کے نام پر خود جرم کرنا ہوتا ہے۔ آئیے اس روشنی میں بھٹو صاحب کے مقدمہ قتل کے کچھ چیدہ قانونی نکات پر ایک نظر ڈالیں۔

احمد رضا قصوری ذوالفقار علی بھٹو کے ایک پرجوش نوجوان ساتھی تھے جو اپنی ذاتی مقبولیت کے زعم میں بھٹو صاحب سے اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے۔ مارچ 1971 میں بھٹو صاحب نے پیپلز پارٹی کے ارکان کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ جانے سے روکا تو احمد رضا قصوری نے یہ حکم نہیں مانا۔ انہوں نے 1973 میں دستور پاکستان کے مسودے پر دستخط بھی نہیں کیے۔ تاہم یہ حقیقت بھی قابل ذکر ہے کہ احمد رضا قصوری 1977 میں دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ احمد رضا قصوری کی جمہوریت پسندی کا ایک معمولی اشارہ یہ ہے کہ کئی برس بعد وہ پرویز مشرف کی آمریت کا دست و بازو بنے رہے۔

 11نومبر 1974 کی رات وزیر اعظم بھٹو کو ایک ضروری ٹیلی فون کال آنے پر نیند سے بیدار کیا گیا۔ فون پر ایف ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود نے بتایا کہ لاہور کی شادمان کالونی میں احمد رضا قصوری کی گاڑی پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے قصوری کے والد محمد احمد خان مارے گئے تھے اور قصوری اس مقدمے میں وزیراعظم بھٹو کو نامزد کرنا چاہتے تھے۔ بھٹو صاحب نے لاہور کے اچھرہ تھانے میں درج ہونے والے اس مقدمے میں اپنی نامزدگی پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ تاہم کسی ثبوت کی عدم موجودگی میں یہ مقدمہ آگے نہ بڑھ سکا۔

جولائی 1977 میں جنرل ضیا نے اقتدار سنبھالا تو وہ نوے دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ پورا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ اس کی متعدد شہادتیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پہ الطاف گوہر کو ان کے چھوٹے بھائی تجمل حسین کے ذریعے پیغام بھیجا گیا کہ وہ حکومت کی طویل مدتی مشاورتی ٹیم میں شامل ہو جائیں۔ دوسری طرف جولائی 77ء ہی میں مولوی مشتاق حسین کو کیمبرج سے واپس بلا کر فوری طور پر الیکشن کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ۔ نیز انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ اگرچہ مسٹر بھٹو نے انہیں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس نہیں بنایا تھا۔ تاہم نئی فوجی حکومت جلد ہی ان کی یہ خواہش بھی پوری کر دے گی۔ بالآخر انہیں 12جنوری 1978 کو لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا۔ 8 اگست 1977 کو بھٹو صاحب کے لاہور ایئرپورٹ پر فقید المثال استقبال سے جنرل ضیا پر واضح ہو گیا کہ بھٹو صاحب کو جسمانی طور پر ختم کیے بغیر وہ اپنی آمریت قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ چنانچہ بھٹو صاحب کے بارے میں ایسے شواہد کی تلاش شروع ہوئی جنہیں بنیاد بنا کر انہیں راستے سے ہٹایا جا سکے۔ اسی ضمن میں محمد احمد خان قتل کیس بھی سامنے آیا جو پولیس کے ریکارڈ میں کہیں خاک چاٹ رہا تھا۔

بھٹو صاحب کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں 3 ستمبر 1977 کو گرفتار کیا گیا تاہم جسٹس صمدانی نے 10 ستمبر کو انہیں ضمانت پر رہا کر دیا۔ (بعد ازاں جسٹس صمدانی کو اس گستاخی کی طویل سزا بھگتنا پڑی۔) تین روز بعد بھٹو صاحب  کو اسی مقدمے میں 13 ستمبر 1977 کو دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ اس مرتبہ ان کی گرفتاری مارشل لا ضوابط کے تحت عمل میں لائی گئی تاکہ کوئی عدالت انہیں ضمانت نہ دے سکے۔

مولوی مشتاق حسین

یہاں رک کر اس شخص کے بارے میں کچھ جاننا چاہیے جسے بھٹو صاحب کا مقدمہ قتل سننا تھا یعنی چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین۔ بھٹو صاحب کے مقدمے میں فوجداری قانون کے کم و بیش تمام اصول پامال کیے گئے۔ پہلا اقدام تو یہ تھا کہ مولوی مشتاق حسین نے فیصلہ دیا کہ یہ مقدمہ معمول کے مطابق سیشن کورٹ کی بجائے براہ راست ہائیکورٹ میں چلایا جائے گا۔ گویا ہائیکورٹ کو ٹرائل کورٹ کا درجہ دے کر بھٹو صاحب اور ساتھی ملزموں کو اپیل کے ایک حق سے محروم کر دیا گیا۔ اس زمانے میں معروف صحافی انعام عزیز جنرل ضیاالحق کی فرمائش پر ان سے ملاقات کے لیے پاکستان آئے تھے۔ اس دوران 3 اگست 1977 کو انہیں مولوی مشتاق حسین سے بھی ملوایا گیا۔ انعام عزیز نے اپنی کتاب Stop Press میں مولوی مشتاق سے ملاقات کی تفصیل بیان کی ہے۔ مولوی صاحب کے کچھ فرمودات ملاحظہ ہوں۔ ”یہاں آئین پر بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس ملک کو جس شخص سے نجات حاصل کرنا تھی وہ پوری ہو چکی ہے۔” انتخابی ضوابط پر بات کرتے ہوئے مولوی مشتاق نے ایک فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ الیکشن کے ان ضابطوں کا بڑا مقصد یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کبھی الیکشن جیت ہی نہ سکے“۔ صحافی سے گفتگو کے دوران مولوی مشتاق نے ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ” شاید آپ کو میرے اختیارات کا علم نہیں۔ فی الحال آپ جنرل ضیاالحق کے مہمان ہیں لہٰذا کچھ نہیں کہوں گا لیکن آئندہ آپ کو بڑا محتاط رہنا پڑے گا۔ شاید آپ کو اندازہ نہیں کہ اس ملک کے اخبار نویس مجھ سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ دو ایک کو تو توہین عدالت کے جرم میں جیل بھی بھیج چکا ہوں۔ آپ اخبار نویس ضرور ہوں گے مگر توجہ سے نہیں چلیں گے تو مارے جائیں گے۔ اس وقت میں آپ کو بخش دیتا ہوں لیکن آئندہ اس ملک میں آئیں تو یاد رکھئے گا کہ میں آپ کو اپنی عدالت میں ضرور بلواﺅں گا۔ پھر آپ کا جو حشر ہو گا اس کا اندازہ آپ کو ہو جانا چاہیے“۔

مولوی مشتاق کا جنازہ

اس مقدمے میں استغاثے کے وکلا میں ایم انور بار ایٹ لا، اعجاز حسین بٹالوی اور ایم اے رحمان شامل تھے۔ یہ تینوں حضرات ہر شام چیف جسٹس مولوی مشتاق کے ہمراہ ایم انور کے چیمبر میں جمع ہوتے تھے اور آئندہ کارروائی کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔ جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل اس دوران ایف ایس ایف کے ان جونیئر ملزم اہلکاروں کے گھروں میں چکر لگاتے تھے جن سے تشدد کے ذریعے اعتراف جرم کرایا گیا تھا۔ میاں طفیل کی ذمہ داری یہ یقین دہانی حاصل کرنا تھی کہ وہ لوگ بعد ازاں معافی کے وعدے کے عوض اپنے اعترافی بیانات پر قائم رہیں۔ یہ مقدمہ دراصل ایف ایس ایف کے سابق سربراہ مسعود محمود کی وعدہ معاف گواہی کے گرد گھومتا تھا جنہوں نے کسی براہ راست ثبوت کی بجائے صرف یہ اقرار کیا کہ بھٹو صاحب نے انہیں کسی ذریعے سے احمد رضا قصوری کو ختم کرنے کا پیغام بھجوایا تھا۔ (مسعود محمود وعدہ معاف گواہی کے بعد امریکا چلے گئے اور پھر کبھی پاکستان نہیں لوٹے۔) بھٹو صاحب کے بعد دوسرے بڑے ملزم ایف ایس ایف کے ڈی آئی جی آپریشنز میاں محمد عباس تھے جنہوں نے مقدمے کی کارروائی کے دوران خود پر تشدد کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنا اعترافی بیان واپس لینے کی کوشش کی لیکن ان کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ 11 نومبر 1974 کو مذکورہ قتل کے وقت راﺅ رشید پنجاب پولیس کے آئی جی تھے۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر مقدمے میں حلفیہ گواہ کے طور پر پیش ہونے کی پیشکش کی جو مسترد کر دی گئی۔ پنجاب کے اس وقت کے وزیراعلیٰ حنیف رامے بھٹو صاحب کے حق میں گواہی دینے پر تیار ہو گئے تھے لیکن ان کا فون ریکارڈ کیا جا رہا تھا چنانچہ وہ اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ گئے۔ واردات میں استعمال ہونے والے اسلحے اور جائے وقوعہ سے ملنے والے خولوں کے فرق کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔

مسعود محمود وعدہ معاف گواہی کی ذلت کے بعد

کمرہ عدالت میں بھٹو صاحب کے لیے خصوصی کٹہرا بنایا گیا تھا اور چیف جسٹس مولوی مشتاق بار بار بھٹو صاحب کی تذلیل کرتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا بیان شروع ہوا تو کمرہ عدالت کے دروازے بند کر دیے گئے جس پر بھٹو صاحب نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔ 18 مارچ 1978 کو چیف جسٹس مولوی مشتاق نے عدالت کا متفقہ فیصلہ سنایا جس میں ذوالفقار علی بھٹو، میاں محمد عباس، غلام عباس، ارشد اقبال اور رانا افتخار کو نواب محمد احمد خان کے قتل کا مجرم قرار دے کر سزائے موت سنائی گئی۔ سلطانی گواہ مسعود محمود اور غلام حسین کو معاف کر دیا گیا۔ 410 صفحات کے اس مقدمے میں مولوی مشتاق نے بھٹو صاحب کے ایمان پر اپنی رائے دینا بھی ضروری سمجھی۔

25 مارچ 1978 کو سزائے موت پانے والے ملزمان نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ 9 رکنی بینچ میں سے جسٹس قیصر علی 30 جولائی 1978 کو ریٹائر ہو گئے۔ 20 نومبر 1978 کو جسٹس وحید الدین احمد علالت کے باعث بینچ سے الگ ہو گئے۔ 6 فروری 1979 کو سپریم کورٹ چار تین کی اکثریت سے ذوالفقار علی بھٹو سمیت تمام ملزمان کی سزائے موت کی تصدیق کر دی۔ سات رکنی بینچ میں بھٹو اور میاں عباس کو بری کرنے والوں میں جسٹس حلیم، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس غلام صفدر شاہ شامل تھے۔ اس فیصلے کے دو روز بعد جسٹس صفدر شاہ نے بی بی سی کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یحییٰ بختیار کے دفاعی دلائل بھلے عدالت میں قبول نہیں کیے گئے لیکن ان میں اتنا وزن ضرور ہے کہ انتظامی حکام کو رحم کا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے یحییٰ بختیار کے دلائل کو وزن دینا چاہیے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوار الحق نے، جو ضیاالحق کے حکم ہی سے اس منصب پر فائز ہوئے تھے، فوری طور پر اس معاملے کا نوٹس لیا اور بہت سے مراحل سے گزرتے ہوئے جسٹس صفدر شاہ کو سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے حاضر ہونے کا حکم دیا گیا۔ جسٹس شاہ پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ انہوں نے دوران سماعت میاں غلام عباس کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے ایک جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔ 16 اکتوبر 1980 کو جسٹس صفدر شاہ نے سپریم کورٹ سے استعفیٰ دے دیا اور کابل فرار ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے بینچ میں بھٹو صاحب کی سزائے موت کی توثیق کرنے والے جسٹس نسیم حسن شاہ بعد ازاں چیف جسٹس کے منصب تک پہنچے۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد 23اگست 1996 کو ایک صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے جسٹس نسیم نے اعتراف کیا کہ بھٹو صاحب کا مقدمہ ایک ریاستی جعل سازی تھا جس کا مقصد بھٹو کو جسمانی طور پر ختم کرنا تھا۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ سپریم کورٹ کے ججوں پر فوجی جنتا کی طرف سے بے انتہا دباﺅ تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی توثیق کی جائے۔

اس ضمن میں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ ملکی تاریخ میں اعانت جرم کے الزام میں کبھی کسی کو سزائے موت نہیں دی گئی اور محمد احمد خان کا مقدمہ قتل پاکستان کی کسی عدالت میں نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا۔ اگرچہ سپریم کورٹ کے ججوں کی صوبائی شناخت کسی مقدمے سے براہ راست تعلق نہیں رکھتی تاہم یہ نکتہ دلچسپی سے خالی نہیں کہ بھٹو صاحب کی سزائے موت کی توثیق کرنے والے تمام جج پنجاب سے تعلق رکھتے تھے جبکہ اختلافی نوٹ لکھنے والے جج صاحبان کا تعلق دوسرے صوبوں سے تھا۔ امریکا کے سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک نے اس مقدمے پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک جعلی مقدمہ تھا جسے پابستہ عدالت کے ججوں سے فوجی حکومت کے دباﺅ کے ذریعے حاصل کیا گیا۔ رمزے کلارک نے نیویارک ٹائمز میں لکھا کہ بھٹو صاحب کے ساتھ دونوں عدالتوں میں ناانصافی ہوئی۔ خاص طور پر سپریم کورٹ میں اصل بینچ کے ارکان 9 تھے جبکہ فیصلہ صرف 7 ججوں نے دیا۔ اختلافی نوٹ دینے والے ایک جج نے لکھا کہ استغاثہ اپنے بنیادی گواہ کے موقف کو شواہد کی مدد سے ثابت کرنے میں ناکام رہا ۔ ایک دوسرے جج نے یہ بھی کہا کہ بھٹو صاحب کے خلاف گواہیوں میں ایسا کچھ نہیں تھا جس سے ان کی بے گناہی پر شک کیا جا سکتا۔ بنچ سے الگ ہونے والے دو ججوں کے ممکنہ فیصلے پر قیاس ہی کیا جا سکتا ہے ۔ تاہم ریٹائر ہونے والے جج نے سماعت کے دوران یہ ضرور کہا تھا کہ وہ کسی دباﺅ میں نہیں آئیں گے اور عدالتی آداب کا تقاضا ہے کہ سماعت مکمل ہونے تک ان کی ریٹائرمنٹ موخر کی جائے۔ علالت کی بنیاد پر الگ ہونے والے جج کو ایک سرکاری میڈیکل بورڈ نے طبی طور پر نااہل قرار دیا تھا۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ دو ججوں کو بینچ سے ہٹانے سے تین اور چار کے اختلافی فیصلے پر مزید شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل کی قانونی تفصیلات سے قطع نظر یہ بالکل واضح ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ریاستی مقتدرہ کے اس طویل مدتی عزم کا بھیانک ترین اظہار تھا کہ پاکستان کے عوام کو ان کے حق حکمرانی سے محروم رکھا جائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایسے سیاسی رہنما تھے جو اس عزم کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے۔ پاکستان میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 7 دسمبر 1970 کے انتخابات کے صرف چار روز بعد 11 دسمبر 1970 کو لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان نے آپریشن بلٹز(Blitz) کے نام سے ایک منصوبہ تیار کیا تھا جس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ اگر عوامی لیگ اپنی پارلیمانی اکثریت کی بنا پر اقتدار میں آنے پر اصرار کرے تو فوری طور پر مشرقی پاکستان کے فوجی کمانڈر کو تمام سول اور انتظامی اداروں پر اختیار سونپ دیا جائے۔ واضح رہے کہ اگلے چار مہینوں میں مشرقی پاکستان کی سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے صاحبزادہ یعقوب علی خان نے 3 مارچ 1971 کو مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ طاقت کے بل پر مشرقی پاکستان کو اپنے ساتھ نہیں رکھا جا سکے گا۔ جنرل یعقوب کے مستعفی ہونے کے باوجود آپریشن بلٹز اپنی جگہ موجود رہا اور اسے 25 مارچ 1971 کو آپریشن سرچ لائٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔ گویا دسمبر 1970 سے مارچ 1971 تک سیاسی مذاکرات کا جو ڈھونگ رچایا گیا تھا اس کا مقصد صرف فوجی آپریشن کے ارادوں پر پردہ ڈالنا تھا۔

اپریل 2011 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے دستور کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ اصل دستاویزات اور نئے شواہد کی روشنی میں بھٹو صاحب کے مقدمہ قتل پر نظر ثانی کی جائے تاکہ ملک کے سابق منتخب وزیر اعظم کو ایک من گھڑت عدالتی کارروائی کے نتیجے میں ملنے والی مجرمانہ شناخت سے نجات مل سکے۔ چند سماعتوں کے بعد یہ پٹیشن بالائے طاق رکھ دی گئی کیونکہ 2011ء میں سپریم کورٹ کو میمو گیٹ جیسے “حساس معاملات” پر توجہ دینا ضروری تھا۔ آج بارہ برس بعد بھی پیپلز پارٹی کی یہ آئینی درخواست عدالت عظمیٰ کے التفات سے محروم ہے۔

فروری 1922 میں کلکتہ کی عدالت کے سامنے اپنا بیان دیتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ ”تاریخ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں“۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہمیں ناانصافی کی ان دونوں صورتوں سے واسطہ پڑا۔ ہم نے 1971 میں اپنے ہم وطنوں پر جنگ مسلط کی اور اپریل 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دے کر عدالتی ناانصافی کی بدترین مثال قائم کی۔

ذوالفقار علی بھٹو تاریخ اور سیاست کے باہم پیوستہ علوم میں درک رکھتے تھے۔ بھٹو پاکستان کے پہلے مدبر تھے جنہوں نے عوام کو سیاست میں کلیدی فریق کا درجہ دیا۔ ان کا دور اقتدار غلطیوں سے مبرا نہیں تھا لیکن انہوں نے ایک ٹوٹے ہوئے پاکستان کو اپنی بصیرت اور مقبولیت کے بل پر دوبارہ باوقار قوموں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ اس سرزمین بے آئین کو ایک ایسا متفقہ دستور عطا کیا جو آج بھی وفاق پاکستان کی سلامتی کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے بعد سے ہماری سیاست اپنے حقیقی جوہر سے محروم ہو کر کٹھ پتلیوں کا تماشا بن گئی۔ ہمارا ملک مستحکم جمہوریت کا نمونہ نہیں کہ امریکا کی طرح 4 اپریل 1968 کو مارٹن لوتھر کنگ کی شہادت سے سنبھل جاتا۔ ہمارے ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی منظر سے ہٹائے جانے کے بعد خودکاشتہ سیاسی شجرکاری، ناقص خارجہ پالیسیوں، مجرمانہ معاشی غفلتوں اور ہمہ جہت تمدنی تباہی کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو لمحہ موجود میں ایک بار پھر دائروں کے سفر کی گواہی دے رہا ہے۔ اختر حسین جعفری نے کیا خوب لکھا تھا۔

مریم جس کے بال کھلے ہیں

کب تک وہ ماں اپنے پسر کے حرفِ دعا کا پیشِ عدالت ورد کرے گی

سحر ملامت کب ٹوٹے گا

تخت سے عیسیٰ کب اترے گا

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: