یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور میں جاری ادبی میلہ لاکھ شاید دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد ہجوم/موقع/اِیونٹ ہے جس میں آپ کے لیے آپس میں کوئی بات کرنا بھی ممکن نہیں۔ آپ آواز سے بچنے کے لیے کوئی اوٹ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہوئے الحمرا کی ترچھی دیواروں کے پیچھے کہیں جاتے ہیں، لیکن میوزک کی بھونڈی اور بھاری آوازیں آپ کا تعاقب ہر جگہ پر کرتی ہیں۔ بڑی مشکل سے ایک گوشے میں ہالینڈ سے آئے ہوئے محترم سیفی صاحب سے ملاقات پھر بھی کر ہی لی۔
کوئی تو ہو گا جس نے منظوری دی ہو گی کہ بیہودہ انداز میں لوگوں کے ناک اور کان میں دم کر دیا جائے۔ کسی نے تو یہ پلان بنایا ہو گا۔ کسی کا تو آئیڈیا ہو گا۔ اُس کو سات سلام کرنے چاہئیں۔ الحمرا ایک گرم ملک کے لیے تعمیر کی گئی ایسی عمارت ہے جو گرمیوں میں سائے کا ایک انچ بھی فراہم نہیں کرتی۔ اب اُس کے ہالز کے گردوپیش، راہداریوں، خالی جگہ پر موسیقیائی دہشت گردی سکون کا ایک ریزہ بھی فراہم نہیں ہونے دیتی۔
اِس اِیونٹ کا نام شوروغل اور ادب ہونا چاہیے۔ بہرحال ہالز میں تقاریب بھرپور تھیں۔ کتابیں بھی کچھ فروخت ہو رہی تھیں۔ مضرِ صحت اور غیر ضروری کھانے کے مکروہ اور مہنگے سٹالز اپنی طرح کی دہشت گردی تھی۔ ان سب کے درمیان بیٹھے ہوئے آپ کو اگر کسی وقت سکون کا ایک پل بھی مل جائے تو اِس لیے بات شروع نہیں کرتے کہ ابھی دوبارہ میوزک کی بے ہنگم اور گھٹیا تال سنائی دینے لگے گی۔ بس آپ اِس شور میں سامنے والے دوست یا ملاقاتی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے زور زور سے سر ہلاتے جاتے ہیں۔ یہی ہمارا ادب ہوتا جا رہا ہے۔ سب کچھ شور زدہ ہے (ہر دو معنوں میں)۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر