نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین اپریل کے دن مختلف افواہیں بھٹو صاحب کے ہمدردوں اور پیپلزپارٹی کے جیالوں کے دل کی دھڑکن بے ترتیب کر رہی تھیں وہ افواہیں سرگوشیاں بن کر گردش کر رہی تھیں کوئی کہتا رہا کہ فرنگیوں کی پیداوار اپریل فول کر رہی ہے یہ لوگ ایسی شخصیت کو کیسے پھانسی دے سکتے ہیں جس نے انہیں جنگی جرائم کے مقدمے سے بچا یا تھا، کسی کا خیال تھا کہ فلاں ملک کے بادشاہ نے بات کرلی ہے بھٹو صاحب کوئی معمولی شخصیت ہیں کہ اسے پھانسی دی جائے، کوئی کہہ رہا تھا کہ ضیاع کی حیثیت ہی کیا ہے وہ درباں ہے محسن کش نہیں بن سکتا، اس زمانے میں اطلاع رسانی کے ذرائع بھی نہیں تھے ،پاکستان کا میڈیا بھی غیرجانبدار نہیں تھا بلکہ اس نے تو بھٹو صاحب کی کردار کشی کا ٹھیکہ لے رکھا تھا بس صرف بی بی سی پر انحصار تھا ۔
رات کو آٹھ بجے بی بی سی کی خبریں سننے کے بعد ہمارے گھر سے پارٹی کارکن اللہ رحم کرے گا انشاءاللہ بھٹو صاحب کو کچھ بھی نہیں ہوگا کہتے ہوئے رخصت ہو کر اپنے گھر چلے گئے۔ مگر ہمارے گھر میں بے قراری کا ماحول رہا ایک خوف بے چین کرتا رہا میرے والد، والدہ اور بھائی نے ساری رات جاگ کر گزاری تھی ، ایسے میں صبح ہو گئی ہم نے ریڈیو پر بی بی سی کی خبریں سنیں تو اطمینان سا ہوا کہ بھاری رات خیرات سے گزر گئی ، صبح ہوگئی میرا گاؤں پیرجوگوٹھ ویسے بھی پسماندہ تھا بازار میں نکلا تو ہر چیز معمول کے مطابق تھی ، مجھے اچھی طرح یاد ہے دن کو 12 بجے کے قریب اچانک باد چھائے ایسے لگ رہا تھا جیسے آسمان آنسوؤں بہا رہا ہے اس دوران ریڈیو پاکستان پر خبر نشر ہوئی کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو آج صبح راولپنڈی جیل میں پھانسی دیدی گئی اور انہیں اپنے آبائی قبرستان گڑھی خدا بخش بھٹو میں دفن کردیا گیا ،اگر چہ میرا گاؤں پیرجوگوٹھ پیر پگارہ کا شہر تھا تاہم شہر میں سوگ کا سماں ہو چکا تھا حالانکہ وہاں پیر پگارہ کی اجارہ داری تھی تاہم مزدور طبقے سے تعلق رکھنے لوگ میرے والد کو پرسہ دینے کیلئے ہمارے گھر پہنچے وہ میرے والد کے گلے مل کر ایسے روتے رہے جیسے ان کے کسی پیارے کی فوتگی ہوئی ہو ماحول ایسا تھا کہ بے شمار گھروں میں کھانا تک نہیں پکا والدین کو سوگوار دیکھ کر بچے بھی دودھ کا تقاضا کرنے کی بجائے بھوکے ہی سو گئے ، ہر انسان کی آنکھوں میں آنسوؤں تھے زبان پر قدرت سے شکوہ تھے ،گوشت کا دل رکھنے والے باشعور لوگوں کو کربلا یاد آگیا جب بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں خبر ملی کہ انہیں بھٹو صاحب کا آخری دیدار کرنے سے محروم رکھا گیا تو کوفہ بھی یاد آیا اور شام کے بازار بھی ۔
مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو اور شہید جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو رہائی کے قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے مزار پر پہنچے تو شاعر محسن نقوی نے خوب کہا
اسلام آباد کے کوفہ سے میں سندھ
مدینہ آئی ہوں
مت پوچھو کیا کھو آئی ہیں مت پوچھو کیا لے آئی ہوں
بس آنسوؤں ہیں فریادیں ہیں،،
مجھے یاد ہے کہ 4 اپریل ایک اور کربلا تھی جہاں انسان اپنی بے بسی پر آنسوؤں بہا رہے تھے اور یہ بھی یاد وقت کے ایک اور یزید کی دربار سجائی گئی تھی جہاں خونیوں پر مراعات کی بارش ہو رہی تھی۔ ہاں میں کیسے بھول سکتا ہوں 4 اپریل کے پہلے پہر رات کے دو بجے عوام کے عظیم لیڈر کو تختہ دار لے جایا گیا آپ کہتے تھے کہ ہم گاس کھائیں گے مگر قوم کو ایٹمی طاقت بنائیں گے یہ وہ جگہ ہے جہاں گھاس نہیں اگتی۔
۔یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر