وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن تاریخ تو یاد نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ انیس سو ستر کا اگست یا ستمبر تھا۔ رحیم یار خان شہر کے محلہ کانجواں میں رازق بخش کے آم باغ میں میجر عبدالنبی کانجو نے ایک انتخابی جلسے کا اہتمام کیا جس سے بھٹو صاحب کو خطاب کرنا تھا۔ مہمانِ خصوصی کی آمد سے پہلے ہی باغ کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ باغ کے باہر لوگ ڈھولک کی تھاپ پر ایک ہی نعرے کی دھن پر جھومر (روایتی سرائیکی رقص ) ڈال رہے تھے۔ وہ نعرہ تھا ” بھٹو جیوے صدر تھیوے۔“
میں تب آٹھ برس کا تھا۔ نیکر اور شرٹ پہنا ہوا بچہ ہجوم کے درمیان سے گھستے گھساتے عین اسٹیج کے سامنے آم کے ایک درخت پر چڑھ کے بیٹھ گیا۔اسٹیج کیا تھا چبوترہ سا تھا جس پر تین چار کرسیاں لگی ہوئی تھیں اور ایک اسٹینڈ والا مائیک تھا۔دو پولیس والے کونے میں کھڑے آپس میں گپیا رہے تھے۔بھٹو صاحب آئے۔ گہرا نیلا سوٹ، ہلکی نیلی شرٹ۔ کفلنگز کوٹ کی آستین سے جھانک رہے تھے ، جیب میں سرخ آرائشی رومال اڑسا ہوا۔انھوں نے کیا تقریر کی یہ تو یاد نہیں لیکن جیسے ہی تقریر ختم ہوئی اور وہ اپنے جوشیلوں کے جلو میں اسٹیج سے اترے تو میں بندر کی طرح درخت سے کود کے ان کے سامنے پہنچ گیا اور ان کا ہاتھ چھوا۔ بھٹو صاحب نے چلتے چلتے میرا گال کھینچتے ہوئے کہا پڑھتے رہنا اور شرارتیں زیادہ نہ کرنا۔ یہ میری ان سے پہلی اور آخری ” ملاقات“ تھی۔
اس دور میں نئی نویلی پیپلز پارٹی کے جو شہری عہدیدار اور کارکن تھے ان کے ناموں سے ہی اندازہ ہو سکتا ہے کہ کون سا طبقہ بھٹو صاحب کا ابتدائی شیدائی تھا۔ حنیف نارو ایڈووکیٹ ، یوسف ندیم ایڈووکیٹ، ڈاکٹر اسلم نارو ، حکیم اصغر علی ، شیخ شفیع برتنوں والا، شیخ ظہور غلہ کمیشن ایجنٹ ، سیٹھ سورتا رام بزاز ، سراج ہاشمی اخبار فروش ، عارف بھٹی جلیبی والا ، محمد شفیق بنیان والا ، عظیم سولنگی ، رانا شفیق آڑھتی ، شیخ آفتاب انقلابی اور نیوآرٹ والا پینٹر استاد اعجاز جو بھٹو صاحب کے ہورڈنگز اور کٹ آﺅٹ فی سبیل اللہ بناتا تھا۔
عارف بھٹی جلیبی والا اگرچہ واجبی پڑھا لکھا تھا پر جانے کیوں چیئرمین ماﺅزے تنگ کا شیدائی تھا۔ بازار کے نکڑ پر چھوٹی سی چبوترہ نما دوکان۔ اس پر مغربی سوٹ پہنے ، جناح کیپ لگائے اور ہاتھ میں ذوالفقار تھامے سفید گھوڑے پر سوار بھٹو کا پوسٹر بھی لگا ہوا تھا۔پوسٹر کے ایک سرے پر درانتی کے نشان کے ساتھ یا اللہ اور دوسرے سرے پر محمدﷺ کے نام کے ساتھ ہتھوڑا بنا ہوا۔ درمیان میں لکھا تھا ” ہم انڈیا سے ہزار سال تک لڑیں گے۔“یعنی اس پوسٹر کی ہر کوئی اپنی اپنی نظریاتی تاویل کر سکتا تھا۔ ماﺅزے تنگ کی لال کتاب ، رسالہ چین باتصویر اور پیپلز پارٹی کے پرچم اور بھٹو کی تصویر والے بیجز بھی بطور سووینیر رکھے ہوتے تھے۔برابر میں کڑھاﺅ سے گرم گرم جلیبیاں بھی نکل رہی ہوتی تھیں۔ جلیبیوں کے منافع سے عارف بھٹی کا گھر اور عوام پرست سیاست ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔کچھ یہی فارمولا شفیق بنیان والے، شیخ شفیع برتن والے، رانا شفیق آڑھتی اور شیخ آفتاب انقلابی کا بھی تھا۔ جب کہ سراج ہاشمی سائیکل پر مساوات اور دیگر اخبارات فروخت کر کے پرچار اور گزارہ کرتا تھا۔
مقابل میں مولانا مودودی کی جماعت اسلامی کچھ زیادہ یا پھر مولانا عبداللہ درخواستی کی کالی سفید دھاریوں والی جمعیت علماِ اسلام اور تھوڑی سی نورانی میاں کی جمعیت علمائے پاکستان۔تب بھٹو کو ملحد اور کیمونسٹ ، مودودی کو سی آئی اے ایجنٹ اور جے یو آئی اور جے یوپی والوں کو مل وٹے یا مول وانے کہنے پر ڈانگیں سوٹے پستول نکالنے کا رواج نہیں تھا۔جوش سے مسلح سیاسی کارکن زبان کا میگزین دلیل کے کارتوسوں سے لوڈ کر کے فائر کرتے اور نشانہ جسم کے بجائے ذہن ہوتا تھا۔جے یو آئی ، جے یو پی اور جماعتِ اسلامی والے ایک دوسرے کو مشکوک مسلمان مگر بھٹو کو متفق علیہ دہریہ سمجھتے تھے۔
والد کو سیاست سے دلچسپی نہیں تھی البتہ میں اور میری والدہ بھٹو نواز تھے۔ کیوں تھے نہیں معلوم۔میری دادی کو فکر تھی کہ بھٹو آ گیا تو مسجدوں کو تالے لگ جائیں گے۔جانے یہ بات کس نے ان کے کان میں پھونک دی۔ حالانکہ وہ زندگی بھر گھر میں ہی نماز پڑھتی رہیں۔چونکہ پھوپھا رکنِ جماعت اسلامی تھے لہٰذا ددھیال جماعتِ اسلامی کا تھا۔ان کا خیال تھا کہ جماعت کے جیتتے ہی آسمان سے عدل و انصاف برسنے لگے گا اور سرخے خود بخود روس دفعان ہو جائیں گے۔
مشرقی پاکستان کا نام درسی کتابوں اور اخبارات تک محدود تھا۔رحیم یار خان میں شاید ہی کسی نے کبھی کوئی بنگالی دیکھا ہو۔عمومی یادداشت میں صرف دو بنگالی تھے۔ بھاشانی اور شیخ مجیب۔الیکشن ہو گئے۔رحیم یار خان شہر سے پیپلز پارٹی قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹ لے گئی۔ مگر حکومت یحییٰ خان کی ہی رہی۔پھر ایک دن پتہ چلا کہ جنگ چھڑ گئی۔ جماعتِ اسلامی نے پورے شہر میں کرش انڈیا کے پوسٹر چپکا دیے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ چھپن فیصد غدار بنگالی بھارت سے مل گئے ہیں۔
دو بھارتی طیارے تین دسمبر انیس سو اکہتر سے سولہ دسمبر تک روزانہ صبح سوا اور ساڑھے آٹھ کے درمیان رحیم یار خان شہر کا بلا رکاوٹ معائنہ فرماتے۔ ایک آدھ بار انھوں نے مضافات میں بم شم بھی گرایا مگر کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔سولہ دسمبر کی شام اطلاع ملی کہ جنگ بند ہو گئی۔ پھر پتہ چلا ڈھاکا میں بھارتی فوج داخل ہو گئی۔پھر پتہ چلا کہ بھٹو نے صدارت سنبھال لی اور بیس اور اکیس دسمبر کی درمیانی شب بھٹو صاحب نے پہلی صدارتی تقریر کی۔ اگلے دن مزدوروں ، کسانوں اور طلبا کا جلوس نکلا ۔بھٹو کے صدر بننے کے باوجود نعرہ نہیں بدلا۔ یزیدیاں تے لعنت بے شمار ، اندرا تے لعنت بے شمار ، بھٹو جیوے صدر تھیوے۔
( چار اپریل انیس سو اناسی )۔ ریڈیو پاکستان سے خبر نشر ہو چکی ہے کہ گذری نصف شب کیا قیامت بیت گئی۔غالباً امن اخبار تھا یا مساوات۔ کچھ ٹھیک سے یاد نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ خصوصی ضمیمے کے صفحہ اول پر اخبار کی لوح تھی اور خالی صفحے پر صرف لہو کے چھینٹے تھے۔اس سے زیادہ مفصل و مکمل خبر پھر کبھی دیکھنے یا پڑھنے کو نہ ملی۔
شہر میں کوئی احتجاجی جلوس نہیں نکلا۔ کاروبار بند نہیں ہوا۔ بس اتنا ہوا کہ انسان سایوں میں بدل گئے۔ بے وجود سایوں کا مہر بہ لب شہر۔ نہ کچھ کہنے کو نہ سننے کو نہ سمجھنے کو۔ کیا سیاسی مخالف ، کیا جیالا ، کیا عام آدمی۔سب کے سب سکتے کے ڈسے ہوئے۔ شاید یہی وہ فیصلہ کن گھڑی تھی جب خواب روٹھ گئے اور امنگ کوچ کر گئی۔ فرد اور اعتماد میں طلاق ہو گئی،بس جسم باقی رہ گیا۔ اس دن کے بعد سے یہ ریاست سعادت حسن منٹو کا افسانہ ” کھول دو “ بن گئی۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر