دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چار اپریل کی گونج۔۔۔||عاصمہ شیرازی

مملکت معاشی بحران اور عوام مہنگائی سے دوچار ہیں، ریاست کے تمام ستون دست و گریبان ہیں، ماحولیاتی تغیر کسی دشمن سے بڑھ کر سر پر کھڑا ہے، غذائی بحران کا اندیشہ بڑھ رہا ہے، ایسے میں ہر ادارے کو اجتماعی دانش اور فیصلوں کی ضرورت ہے جبکہ تقسیم در تقسیم منافرت اور مفاد پرستی کو جنم دے رہی ہے۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تاریخ کا جبر دیکھیں یہ بار بار خود کو دہراتی ہے اور اپنا فیصلہ سُناتی ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہی ہے کہ سچ آج بھی زندہ ہے، حال کا جبر ماضی کا سچ اور مستقبل کی گواہی ہے۔ وہ گواہی جو صدیوں گونجتی ہے۔

آج پھر چار اپریل ہے۔ وہ دن جب جمہوریت پسند نوحہ خواں اور راولپنڈی کی عدالت منتخب وزیراعظم کی قتل گاہ بن جاتی ہے۔ یہی وہ دن ہے جب ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار ہوئے۔ عوامی رہنما سرِمقتل اور آئین کے خالق سرِ دار ہوئے۔ دہائیاں گُزر گئیں مگر اس عدالتی قتل کی بازگشت آج بھی سُنائی اور انصاف کے ایوانوں میں دہائی دے رہی ہے۔

بھٹو انصاف کی عدالت میں آج بھی کھڑا ہے مگر منصف سچ سے آنکھیں چار کرنے کی جرأت آج بھی نہیں رکھتا۔ موت کی کال کوٹھری میں انصاف کا تارا مسیح گواہی بن چکا ہے مگر ستم ظریفی کہ چار دہائیوں بعد بھی بھٹو کا عدالتی قتل کسی بھی طرح اور کہیں بھی انصاف کی سند نہیں پا سکا۔

چار اپریل سویلین بالادستی کا استعارہ بن گئی اور تاریخ کے ماتھے کا وہ داغ بھی جسے دھونے کے لیے ظرف چاہیے۔ داغ داغ اُجالے میں ایک اور چار اپریل ہے اور اب کی بار آئین کٹہرے میں ہے، آمریت سے فسطائیت اور جمہوریت سے عدالتی آمریت کا سوال پھر سے سر اُٹھا رہا ہے۔

وقت کہاں بدلا ہے، ایک وزیراعظم عدالت کے ہاتھوں تختہ دار چڑھا تو دوسرا ’سیلیکٹو جسٹس‘ کا نشانہ بنا۔ نوازشریف کی پاناما کیس کی میگا کرپشن اقامہ پر نااہلی کا سبب کیسے بن گئی، تاریخ کی گواہیاں اب منظر عام پر آ رہی ہیں جبکہ عدلیہ اپنے دامن پر لگے داغوں کو دھونے کی کسی جستجو میں نہیں۔

حالات مگر اب مختلف ہیں۔ دور حاضر کی جا بجا بکھری گواہیاں کسی صورت یاداشت سے نکل نہیں سکتیں۔ واقعات جس تسلسل سے بدل رہے ہیں اُسی تسلسل سے محفوظ بھی ہو رہے ہیں۔ حالات کا جبر موجود ہے مگر مستقبل کے اثر کا اصول بھی کار فرما ہے۔

موجودہ آئینی بحران کو ہی دیکھ لیجیے، معاملہ صوبائی انتخابات کے التوا سے شروع ہوا اور اب آئینی تعطل تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ سی سی پی او غلام محمود ڈوگر تبادلے کیس کے بطن سے جنم لینے والا از خود نوٹس انتظامی اور سیاسی اختیار کو نگلنے کے در پے ہے۔

کون ہو گا جو اس بات سے پہلو تہی کرے کہ آئین میں درج اسمبلیوں کے نوے دنوں میں انعقاد کو یقینی بنانا ناگزیر ہے مگر جہاں یہ بات ہو گی وہیں یہ سوال بھی پوچھا جائے گا کہ کیا اس شق کو شفاف انتخابات سے جوڑ کر پڑھنا ضروری نہیں تھا؟

سوال یہ بھی ہے کہ نوے دنوں سے آگے ’کم سے کم وقت‘ کی دلیل آئین کی کس شق میں موجود ہے؟ انتخابات کو یا تو نوے دنوں میں ہونا ہے اور یا پھر نوے دنوں کے اندر ہی ہونا ہے۔ اس سے آگے کم سے کم وقت کو تاریخ مانا جائے یا پھر آئین کی دوبارہ تحریر؟

سوال یہ بھی ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ اور منصور علی شاہ کی جانب سے اسمبلی کے ٹوٹنے کی وجوہات کے اعتراض کو اہم کیوں نہیں سمجھا گیا؟ اگر اس بات کا تعین نہ ہوا کہ اسمبلی توڑنے کا اختیار کن حالات میں ہوا تو منتخب اسمبلی توڑنے کی اٹھاون ٹو بی کی ظالمانہ شق بغیر تحریر دوبارہ قابل عمل نہیں ہو جائے گی؟

سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس بحران کے وجود کی اصل وجہ سپریم کورٹ کی تریسٹھ اے کی وہ تشریح نہیں جس نے آئین میں عدم اعتماد کو نہ صرف ناقابل عمل بنایا بلکہ اسے آئین کی دوبارہ تحریر تصور کیا گیا؟

سوال یہ بھی ہے کہ اس قدر اہم معاملے کو نو جج صاحبان سے تین ججوں تک کے سفر میں فُل کورٹ کا رستہ کیوں اختیار نہیں کیا گیا؟

اور یہ کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سپریم کورٹ سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کے میز پر بٹھانے سے پہلے اعلیٰ جج صاحبان کو قوم کے وسیع تر مفاد میں ایک چھت تلے بٹھاتی اور دو اسمبلیوں کے انتخابات کےآئینی مطالبے کو اکثریتی فیصلے کے ساتھ صادر کرتی۔

بہر حال تاریخ کی عدالت میں ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ آئین کی آڑ میں مخصوص مفادات کا تحفظ کس نے اور کب کیا؟

مملکت معاشی بحران اور عوام مہنگائی سے دوچار ہیں، ریاست کے تمام ستون دست و گریبان ہیں، ماحولیاتی تغیر کسی دشمن سے بڑھ کر سر پر کھڑا ہے، غذائی بحران کا اندیشہ بڑھ رہا ہے، ایسے میں ہر ادارے کو اجتماعی دانش اور فیصلوں کی ضرورت ہے جبکہ تقسیم در تقسیم منافرت اور مفاد پرستی کو جنم دے رہی ہے۔

سب کو جوڑنے والا آئین منقسم ہو رہا ہے، کون ہے جواس بحران کو سمیٹے گا، آئین بے عمل ہوا تو نقصان ریاست کا ہو گا۔

آج پھر چار اپریل ہے اور کٹہرے میں کوئی اور نہیں بلکہ آئین خود کھڑا ہے، سپریم کورٹ کو بھی اجتماعی دانش کی ضرورت ہے ورنہ آمریت فرد واحد کا ہی نظام ہے جو کہیں بھی کسی بھی صورت ہو سکتا ہے اور یہ بھی آئین کی ضد ہے۔

یہ بھی پڑھیے

 

مملکت معاشی بحران اور عوام مہنگائی سے دوچار ہیں، ریاست کے تمام ستون دست و گریبان ہیں، ماحولیاتی تغیر کسی دشمن سے بڑھ کر سر پر کھڑا ہے، غذائی بحران کا اندیشہ بڑھ رہا ہے، ایسے میں ہر ادارے کو اجتماعی دانش اور فیصلوں کی ضرورت ہے جبکہ تقسیم در تقسیم منافرت اور مفاد پرستی کو جنم دے رہی ہے۔

سب کو جوڑنے والا آئین منقسم ہو رہا ہے، کون ہے جواس بحران کو سمیٹے گا، آئین بے عمل ہوا تو نقصان ریاست کا ہو گا۔

آج پھر چار اپریل ہے اور کٹہرے میں کوئی اور نہیں بلکہ آئین خود کھڑا ہے، سپریم کورٹ کو بھی اجتماعی دانش کی ضرورت ہے ورنہ آمریت فرد واحد کا ہی نظام ہے جو کہیں بھی کسی بھی صورت ہو سکتا ہے اور یہ بھی آئین کی ضد ہے۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author