نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے پہلے منتخب وزیر آعظم قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کا عدالتی قتل آج بھی زیر بحث ہے بے شک اس کا حوالہ انصاف کے بند کمروں میں نہیں دیا جاتا مگر عام زندگی میں اسے عدالتی قتل مانا جاتا ہے یہ تاریخ کا معجزہ ہے کہ آج پیپلز پارٹی کے مخألفین بھی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو دی جانے والی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دے رہے ہیں۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو کی داستان کوئی خیالی کہانی نہیں ہے بلکہ ایسی داستان ہے جس کی دنیا چشم دید گواہ ہے ۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کا کارنامہ صرف یہ نہیں کہ انہوں نے راکھ کی ڈھیر بنے ہوئے ملک کی دوبارہ دوبارہ تعمیر کی ان کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ کچلے ہوئے طبقات کیلئے زبان بن گئے ، قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں کیلئے حوصلہ اور ڈھارس بن گئے تھے وہ عالمی قبضہ گیروں کے راستے میں رکاوٹ بن گئے تھے۔
جب پاکستان معجزاتی ترقیوں کی منزلیں طے کرنے لگا تو ان کے خلاف سازشوں کے جال بنتے گئے ، مساجد اور مدرسوں میں غیر ملکی کرنسی کے ڈھیر لگنا شروع ہو گئے بلاخر سازشی کامیاب ہو گئے اور اقتدار کے لالچی ٹولے نے اپنے ہی ملک کوگروی رکھ کر بدلے میں اقتدار حاصل کیا۔ اقتدار کے لالچی ٹولے نے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کا قتل کرکے اپنے ناجائز، غیر اصولی ،غیر اخلاقی اور غیر آئینی اقتدار کے طول دینے کا خواہاں تھا۔
جنرل ضیاع کی زیر قیادت اقتدار پرست ٹولے نے ملک پر خوف اور دہشت کی فضا قائم کرکے اپنی بہادری کی دھاک بٹھائے کا عمل شروع کیا ۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے خلاف ایسے شخص کے قتل کی سازش کا الزام لگایا گیا جو بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے بعد بھی 43 سال گزرنے کے باوجود اب تک زندہ ہے، مگر ایک خیالی مقدمہ کی آڑ جس کو پھانسی دی گئی تھی ان کے قتل میں عدلیہ 43 سال سے تاریخ کے کٹہرے میں مجرم بن کر کھڑی ہوئی ہے، دوسری طرف تاریخ ہے جس نے روز اول سے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کو دی جانے والی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دے کر مقتول بھٹو کو ہیرو قرار دیا۔ یہ طے ہے کہ لیڈر جنم لیتے ہیں اور تاریخ ان کی رہنمائی کرتی ہے بھٹو شہید نے لیڈر کے طور جنم لیا تاریخ نے ان کی رہنمائی کی اور تاریخ ساز بن گئے۔
میں نے اپنی زندگی میں عدلیہ کو تقسیم ہوتے ہوئے دیکھا ہے کبھی بریف کیس جج کے طور بے نقاب ہونے والے ججز کی شکل میں کبھی کسی اور تناظر میں بہرحال یہ تاریخ کی طرف سے دی گئی سزا ہے۔
تاریخ کے ایک طالب علم کے ناطے میرا ایمان ہے کہ ہماری عدلیہ تب تک سوالیہ نشان بنتی ہی رہے گی جب تو وہ اپنے چہرے اور دامن سے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے خون کے نشانات صاف کرتے ہوئے اعتراف نہیں کرتی کہ بھٹو صاحب کو دی جانے والی پھانسی عدالتی قتل ہے تب تک تاریخ اس پر طنز کرتی رہے گی ۔
۔یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ