وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں عالمی ادارہِ خوراک کی ویب سائٹ پر دیکھتا ہوں کہ پاکستان کھجور کی عالمی پیداواری رینکنگ میں کئی برس سے پانچویں یا چھٹے نمبر پر ہے تو خوشی ہوتی ہے۔ پھر سوچتا ہوں کہ یہ کھجور جاتی کہاں ہے؟ ہمارے بازاروں پے تو ایرانی کھجور اور سعودی عجوہ کا راج ہے۔
پاکستانیوں کو دس اقسام کی مہنگی ترین سعودی کھجوروں کے نام تو رٹے ہوئے ہیں مگر اپنے ہاں کون سی کھجور سب سے اعلیٰ و ارفع ہے اور کہاں کہاں پیدا ہوتی ہے؟ شاید ہی کسی کو معلوم ہو۔
صفائی اور پیکیجنگ اور کھجور کی عالمی منڈی میں پاؤں جمانے کی کوشش تو دور کی بات ہے۔ اپنی ہی مقامی منڈی بیرونی کھجور کی مارکیٹنگ کے بوجھ تلے دبی پڑی ہے اور اس منڈی پر ایکسپورٹر کے بجائے امپورٹر کا راج ہے۔
عالمی ادارہ خوراک کے مطابق دودھ کی پیداوار کے اعتبار سے پاکستان عالمی رینکنگ میں بھارت، امریکا اور چین کے بعد چوتھے پائیدان پر ہے۔دودھ کا مطلب ہے کیلشیم اور کیلشیم کا مطلب ہے ہڈیوں کی مضبوطی۔پر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان پھر پانچ برس تک کی عمر کے بچوں میں ناکافی غذائیت کے اعتبار سے ٹاپ ٹین کی عالمی رینکنگ میں کیوں شامل ہے۔
دودھ پیدا کرنے والے چوتھے بڑے ملک میں کیمیکل سے بنا منوں ٹنوں دودھ روزانہ کیسے فروخت ہو پا رہا ہے اور خالص دودھ ، دہی اور مکھن شہریوں کی پہنچ سے کیوں باہر ہے اور اس قدرتی دودھ کو ملکی و غیر ملکی کمپنیاں جس قیمت پر گوالے سے خرید رہی ہیں اس سے دگنی قیمت پر اسی گاؤں میں کیوں بیچ پا رہی ہیں۔انسانوں کے بجائے یہ کمپنیاں کیوں روز بروز موٹی تازی ہو رہی ہیں ؟
جہاں تک گندم کا معاملہ ہے تو پاکستان چوٹی کے دس ممالک میں پیداواری اعتبار سے آٹھویں نمبر پر ہے،لیکن اس ملک میں پچھلے ایک برس میں فی کلو آٹے کی قیمت پچپن روپے سے بڑھ کے ڈیڑھ سو دو سو روپے تک پہنچ چکی ہے۔نان بارہ اور پندرہ روپے سے چھلانگ مار کے پچیس روپے کی ڈال پے جا بیٹھا ہے اور تیس روپے کا بس ہوا ہی چاہتا ہے۔
اس ملک میں ستر فیصد تنخواہ دار طبقے کی ماہانہ آمدنی پینتیس ہزار روپے یا اس سے نیچے ہے۔پچھلے ڈھائی ماہ کے دوران مفت آٹے کی تلاش میں جمع ہونے والے ہجوم میں بھگدڑ سے اب تک ملک کے کم ازکم آٹھ شہروں میں آٹھ شہری ہلاک اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔مفت آٹے کے حق دار فی الحال وہ خاندان ہیں جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ ہیں، لیکن ضرورت مندوں کی تعداد تگنی چوگنی ہے۔
اگرچہ حکومت مفت آٹے کے لیے غلہ فروشوں اور فلورملز کو مارکیٹ ریٹ کے حساب سے ادائیگی کر رہی ہے۔لیکن مفت کے نام پر وہ گندم بھی پس رہی ہے جو بارشوں کے سبب خراب ہوئی یا نمی کے سبب پھپھوندی لگ چکی ہے۔
اس معیار کی گندم جانوروں کو بھی نہیں کھلائی جاتی اور ایسی گندم کی روٹی تو جیل کے قیدیوں کو بھی نہیں دی جاتی۔مگر انتہائی پسے ہوئے نچلے بیس فیصد بے آوازوں کو کچرا سمجھ کے یہ کچرا کھلایا جارہا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ مفت آٹا ہر جگہ ناقص یا انسانی استعمال کے لیے غیر مناسب ہے لیکن غیر معیاری گندم کو ٹھکانے لگانے کا کام بھی زوروں پر ہے۔جو انتظامیہ مفت آٹے کی منظم تقسیم نہ کر پا رہی ہو اس سے گڈ گورننس کے بارے میں پوچھنا نری زیادتی ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ چھ برس پہلے تک گندم برآمد کرنے والا دنیا کا آٹھواں بڑا ملک اس برس روسی گندم کا پانچواں بڑا خریدار بن گیا ۔حکومت کے پاس پندرہ سے اٹھارہ لاکھ ٹن کا اسٹرٹیجک ذخیرہ ہونے کے باوجود لوگ مفت آٹے کی تلاش میں کچلے جا رہے ہیں ، ٹرک لوٹ رہے ہیں ، ایک دوسرے پر پاؤں رکھ کے کود رہے ہیں یا جو لوگ خریدنے کے قابل ہیں وہ دس کلو کے بجائے پانچ کلو کا تھیلا ہی افورڈ کر پا رہے ہیں اور پندرہ روپے کا نان پچیس کا ہونے کے سبب دو کے بجائے ایک ہی نان پر اکتفا کرنے لگے ہیں۔
یہ واقعی عذابِ الہی ہے ، بے حسی ہے یا پھر طلب و رسد کے نظام کی راہ میں بڑے بڑے اژدھے بیٹھے ہیں ؟
چلیے اعداد و شمار کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔پاکستان کی تئیس کروڑ آبادی کا پیٹ بھرنے کے لیے سالانہ انتیس ملین میٹرک ٹن گندم درکار ہے۔گزشتہ برس کا ہدف ساڑھے چھبیس ملین میٹرک ٹن تھا،مگر مون سون اور سیلاب کے سبب چالیس لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں یا کھڑے پانی کے سبب بروقت بوائی نہ ہو پائی۔
ستتر فیصد گندم پنجاب اور پندرہ فیصد سندھ پیدا کرتا ہے۔پنجاب کی فصل جزوی اور سندھ کی فصل کلی طور پر تباہ ہو گئی۔چنانچہ ہدف سے لگ بھگ ڈھائی ملین ٹن کم یعنی ساڑھے چوبیس ملین ٹن گندم پیدا ہوئی۔یعنی طلب اور رسد کے درمیان پانچ ملین میٹرک ٹن سے زائد کا فرق موجود ہے اور اگر مون سون نارمل بھی رہے تب بھی طلب اور رسد کے درمیان تین ملین میٹرک ٹن کا فرق تو برقرار رہے گا۔
جس اندھا دھند رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے اور جس طرح بنجر زمینوں کے بجائے زرخیز اراضی پر ہاؤسنگ ڈویلپمنٹ جاری ہے اور جس طرح موسمیاتی سائیکل باؤلا ہو چلا ہے۔ان وجوہات کے سبب آنے والے برسوں میں طلب اور رسد کا فرق بڑھتا ہی چلا جائے گا۔
گندم کی نئی فصل اگلے ماہ سے مارکیٹ میں آنا شروع ہو گی چنانچہ گزشتہ چھ ماہ کی طلب پوری کرنے کے لیے روس سے دو ارب ڈالر مالیت کی دو اعشاریہ چھ ملین میٹرک ٹن گندم منگوانے کا سودا ہوا۔روس اور یوکرین مل کے دنیا کی ایک چوتھائی گندمی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
دو ہزار بیس اکیس میں کوویڈ کے اثرات اور دو ہزار بائیس سے جاری روس یوکرین گھمسان کی جنگ کے سبب یوکرینی گندم مارکیٹ تک نہیں پہنچ پا رہی اور قیمت بھی ترقی پذیر ممالک کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہے۔
مگر پاکستان میں گندم کی قلت کے بجائے مسئلہ بدانتظامی کا ہے۔سرکار اگرچہ ہر برس گندم کی امدادی قیمت مقرر کرتی ہے مگر اسی فیصد پیداوار نجی شعبہ اٹھاتا ہے۔اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جب گندم جیسی کوئی جنس آڑھتی اور اہلِ چھدام و گودام کے قبضے میں آ جائے تو پھر سرکار سے صارف تک ہر کوئی آڑھت و لالچ کی دھن پر تنگنی ناچتا ہے۔
گزشتہ دور میں شہباز شریف نے بطور خادمِ اعلیٰ پنجاب سستی روٹی اسکیم کے نام پر ساڑھے چار ارب روپے تندور میں ڈال دیے مگر روٹی کی پرواز کو لگام نہ دے پائے۔اب وہ اس تجربے سے سبق سیکھنے کے بجائے بھاری سبسڈائزڈ مفت آٹے پر اتر آئے ہیں مگر اصل مسئلہ ان کے قابو سے باہر ہے۔ یعنی افراطِ زر اور روپے کی قیمت۔
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہے روٹیاں
( نظیر اکبرآبادی )
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر