رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی میں آئی سپیشلسٹ ڈاکٹر بیربل کے بے رحمانہ قتل کی خبر نے مجھے سُن کر دیا۔ ویسے تو ہر انسان کی موت افسردہ کردیتی ہے لیکن جب کوئی ڈاکٹر قتل کر دیا جائے اور وہ بھی خصوصا ًآنکھوں کا ڈاکٹر ہو تو میرا دکھ زیادہ ہوجاتا ہے۔
میری آنکھوں کے سامنے اپنے نعیم بھائی آن کھڑے ہوتے ہیں جو خود بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں آئی سپیشلسٹ تھے۔ کیا قاتلوں کو اندازہ ہے کہ ایک ڈاکٹر بننے کے پیچھے کتنے خواب اور کتنی قربانیاں ہوتی ہیں؟ کتنے ماں باپ کی دعائیں یا محنتیں ہوتی ہیں‘ کتنے ماں باپ دوسرے بچوں کا پیٹ کاٹ کر اپنے ایک بچے کو ڈاکٹر بناتے ہیں۔مجھے یاد ہے جس دن نعیم بھائی کا ایف ایس سی کا رزلٹ آیا اور پتہ چلا کہ ان کا بہاولپور میڈیکل کالج میں داخلہ ہو جائے گا تو ہماراپورا خاندان کتنا خوش تھا۔ اگرچہ ہمارے دادا نے اپنے پوتے کو کہا تھا کہ بہتر ہوتا تم پٹواری لگ جاتے تو سب کا بھلا ہوتا۔ پچھلے دنوں نعیم بھائی کے گائوں کے بچپن کے دوست مہر صادق کلاسرا بتانے لگے کہ کیسے نعیم خود رزلٹ دیکھنے سے گھبرا رہا تھا۔اماں نے مہر صادق کو کہا کہ آپ جا کر دیکھ کر آئیں۔ اچھا رزلٹ آنے پر اماں نے مہر صادق کو دعوت کے طور پر دیسی مرغی کھلائی اور پورے گائوں میں پتاشے بانٹے گئے۔
ایک کسان باپ کے لیے 1970ء کی دہائی کے آخری برسوں میں کتنا مشکل ہوگا کہ وہ اپنے بیٹے کو ہر ماہ خرچہ بھیجے‘ جس کا زمین کے علاوہ کوئی اور سورس آف انکم نہ ہو۔ ہر ماہ کوئی جانور بیچیں یا گندم اور خرچہ بیٹے کو بھجوائیں۔ خیر بعد میں سلیم بھائی اور یوسف بھائی کی نوکری ہوئی تو انہوں نے نعیم بھائی کو خرچہ دینا شروع کیا۔جب بابا بیمار ہوئے اور انہیں ملتان لے گئے تو آخری سانسیں لینے سے پہلے انہوں نے اماں اور بڑے بھائی سلیم کو قسم دی تھی کہ چاہے ساری زمین فروخت کرنی پڑے کر دینا لیکن نعیم کو ڈاکٹر ضرور بنانا۔میں برسوں تک بہاولپور نعیم بھائی کے پاس عباس منزل میں ٹھہرتا اور ڈاکٹروں کو ہر وقت پڑھائی میں مشغول دیکھ کر اندازہ لگاتا تھا کہ ان لوگوں کو کتنا پڑھنا پڑتا ہے۔ میں نے جتنا ڈاکٹروں کو پڑھتے دیکھا اتنا کسی کو نہیں۔ پہلے وہ گھنٹوں وارڈ ڈیوٹی دیں پھر کتابیں اٹھا کر لائبریری جا کر رات گئے تک پڑھیں اور بار بار امتحان دیں‘ کبھی تھیوری‘ کبھی پریکٹیکل‘ انٹرویو میں چند نمبروں سے رہ جائیں تو پھر نئے سرے سے امتحان کا داخلہ اور تیاری اور پھر وہی مراحل۔
میں عمر بھر 21فروری 2013ء کی وہ طویل دکھ بھری رات نہیں بھول سکوں گا۔ نعیم بھائی بہاولپور سے ملنے اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔چھوٹے بھائی کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔میں ملنے گیا تو اس وقت ٹی وی پر نو بجے کی خبروں میں اس افسوسناک خبرکا فالو اَپ چل رہا تھا کہ دو تین روز قبل لاہور میں نامور آئی سپیشلسٹ ڈاکٹر سید علی حیدر اور ان کے بارہ سالہ بیٹے مرتضیٰ کو ایف سی کالج کے قریب گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ نعیم بھائی ٹریولنگ میں تھے لہٰذا انہیں اس خبر کا پتہ نہ چل سکا تھا۔ وہ خبر سنتے ہی ان کا رنگ فق ہو گیا۔ وہ خاموش نگاہوں سے ٹی وی سکرین کو دیکھتے رہے۔ کافی دیر بعد بولے: یہ کیا ہوگیا ہے؟میں تو پچھلے دو تین ماہ لاہور میں ڈاکٹر علی حیدر کے پاس ان سے نئے آپریشن سیکھنے کے لیے ہسپتال میں رہا ہوں۔کہنے لگے: ان جیسا قابل ڈاکٹر تو شاید پورے پاکستان میں کوئی نہیں تھا۔ ہم آنکھوں کے ڈاکٹروں کا بہت بڑا نقصان ہوگیا ہے۔ وہ تو ہمارے بگڑے کیسز درست کرتے تھے۔میں تو بہاولپور سے لاہور ان سے سیکھنے گیا تھا کہ تیزاب سے جلی آنکھوں کو کیسے بحال کیا جاسکتا ہے۔ سرائیکی علاقوں میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات میں تیزی آنے کے بعد نعیم بھائی نے لاہور جا کر ڈاکٹر علی حیدر سے یہ مشکل آپریشن سیکھے تھے تاکہ وہ اپنے علاقے کی تیزاب سے متاثرہ بچیوں اور خواتین کی آنکھوں کا مفت آپریشن کر کے ان کی آنکھیں بحال کریں۔ وہ پچھلے ہفتے ہی لاہور سے فارغ ہوئے تھے۔اب اسلام آباد سے بہاولپور واپس جا کر انہوں نے تیزاب سے متاثرہ بچیوں کے آپریشن شروع کرنے تھے۔
ڈاکٹر علی حیدر کے بارہ سالہ بیٹے مرتضیٰ کی ٹی وی سکرین پر فوٹو دیکھ کر ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ کہنے لگے: ان ظالموں نے کیا ظلم ہے۔ یہ پیارا سا بچہ تو اپنے باپ کے پاس ہسپتال اور دفتر آتا تھا اور ان سے بڑی پیاری پیاری باتیں کرتا تھا۔مجھے کہنے لگے: تم اس پر کالم لکھو۔ ڈاکٹر علی حیدر کے قتل سے عام لوگوں کو چھوڑیں ہم آئی سپیشلسٹ ڈاکٹروں کا کتنا بڑا نقصان ہوگیا ہے۔مجھے ان کی یہ حالت دیکھ کر پریشانی ہوئی۔ ہم سب اس قتل پر افسردہ تھے لیکن نعیم بھائی کیونکہ ڈاکٹر علی حیدر کے ساتھ کچھ ماہ کام کرکے آئے تھے لہٰذا ان کی تکلیف اور درد زیادہ تھا۔ میں نے نعیم بھائی کی یہ حالت اس سے پہلے 1992ء میں دیکھی تھی جب اماں کی میت ہم نشتر ہسپتال سے لے کر گائوں آئے تھے۔مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ انہیں کیسے تسلی دوں۔ آخر رات ایک بجے میں اُٹھ کر گھر چلا گیا۔ صبح تین بجے کے قریب بہنوئی کا فون آیا کہ ہم نعیم کو ہسپتال لے آئے ہیں۔جب تک میں بھاگ کر ہسپتال پہنچا ان کا دل جواب دے چکاتھا۔ میں نے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر چند الٹی سیدھی سطریں کھینچیں اور انہیں دفن کرنے لیہ گائوں لے گئے۔ اماں بابا کی وفات کے برسوں بعد پہلی دفعہ میں نے شکر کیا کہ آج نعیم بھائی کی میت دیکھنے کے لیے وہ زندہ نہ تھے۔جنہوں نے ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے بیٹے مرتضی کو قتل کیا تھا انہیں شاید علم نہ ہو کہ انہوں نے کتنی آنکھوں کی روشنیاں چھین لیں۔ ڈاکٹر سید علی حیدر اور ان کے بیٹے کے قاتلوں نے جہاں ان کے والدین اور بچوں سے باپ‘ خاوند یا بھائی چھینا وہیں ہم سے ہمارا بھائی بھی چھین لیا جنہوں نے بہاولپور واپس لوٹ کر آنکھوں کو روشنی لوٹانی تھی ۔ کتنی آنکھوں میں امیدیں تھیں کہ ڈاکٹر نعیم لوٹ کر ان کا آپریشن کریں گے اور وہ دنیا کو پھر سے دیکھ سکیں گے۔وہ سب پھر سے خوبصورت کہلوائیں گے۔ ان کے سب خواب ان زخمی آنکھوں میں ہی دم توڑ گئے۔
اب جنہوں نے کراچی میں ڈاکٹر بیربل کوبے رحمی سے قتل کیا وہ لوگ کبھی اس کہاوت کو نہیں سمجھ سکیں گے کہ لکھ مرے لکھ پال نہ مرے۔بھلا کیسے آپ کسی ڈاکٹر کو مار سکتے ہیں جس پر پورے خاندان‘ معاشرے اور حکومتوں کی سرمایہ کاری ہوتی ہے‘ جو برسوں کی پڑھائی اور پورے خاندان کی سرمایہ کاری کے بعد اس قابل ہوتا ہے کہ اپنے جیسے انسانوں کا علاج کرے۔کیا ان قاتلوں کو کبھی کسی ڈاکٹر کی ضرورت نہ پڑی یا نہیں پڑے گی یا وہ کبھی نہیں مریں گے؟ خدا نے انسانی جان کو اتنا قیمتی قرار دیا ہے کہ نہ صرف خودکشی حرام قرار دی بلکہ کسی انسان کی جان لینا پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر بیربل بارے پتہ چلا ہے کہ ہمارا ہندو بھائی اپنی محنت سے آنکھوں کے مسیحا کے رتبے تک پہنچا تھا۔ ان کی کراچی میں بہت عزت کی جاتی تھی‘ مگر ایک حملے میں پورا خاندان تباہ کر دیا گیا۔ ہمارے ہاں پہلے ہی ہندو ہوں یا سکھ ‘ receiving end پر رہتے ہیں۔ کوئی ایک آدھ اگر محنت سے اوپر پہنچ جائے تو ہم اسے گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔
کراچی میں پچھلے کئی برسوں میں اَن گنت ڈاکٹروں کو ٹارگٹ کلنگ کا شکار کیا گیا جس کے بعد بہت سے پاکستان ہی چھوڑ گئے۔مجھے نہیں پتہ قاتلوں کو اس قتل سے کیا ملا ہوگا لیکن ڈاکٹر بیربل کا قتل میرے دل میں ایک اور گہرا اور دردناک زخم کر گیا ہے۔ وہ خوفناک رات پھر میرے حواس پر طاری ہوگئی ہے جب نعیم بھائی ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے بیٹے کے قتل کے بعد پوری رات ڈسٹرب رہے اور صبح ہونے سے پہلے چل بسے۔
ڈاکٹر علی حیدر‘ ان کے بارہ سالہ بیٹے مرتضیٰ اور نعیم بھائی کے بعد اب ڈاکٹر بیربل کی قبر بھی دل کے قبرستان میں بن گئی ہے۔
میری آنکھوں کے سامنے اپنے نعیم بھائی آن کھڑے ہوتے ہیں جو خود بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں آئی سپیشلسٹ تھے۔ کیا قاتلوں کو اندازہ ہے کہ ایک ڈاکٹر بننے کے پیچھے کتنے خواب اور کتنی قربانیاں ہوتی ہیں؟ کتنے ماں باپ کی دعائیں یا محنتیں ہوتی ہیں‘ کتنے ماں باپ دوسرے بچوں کا پیٹ کاٹ کر اپنے ایک بچے کو ڈاکٹر بناتے ہیں۔مجھے یاد ہے جس دن نعیم بھائی کا ایف ایس سی کا رزلٹ آیا اور پتہ چلا کہ ان کا بہاولپور میڈیکل کالج میں داخلہ ہو جائے گا تو ہماراپورا خاندان کتنا خوش تھا۔ اگرچہ ہمارے دادا نے اپنے پوتے کو کہا تھا کہ بہتر ہوتا تم پٹواری لگ جاتے تو سب کا بھلا ہوتا۔ پچھلے دنوں نعیم بھائی کے گائوں کے بچپن کے دوست مہر صادق کلاسرا بتانے لگے کہ کیسے نعیم خود رزلٹ دیکھنے سے گھبرا رہا تھا۔اماں نے مہر صادق کو کہا کہ آپ جا کر دیکھ کر آئیں۔ اچھا رزلٹ آنے پر اماں نے مہر صادق کو دعوت کے طور پر دیسی مرغی کھلائی اور پورے گائوں میں پتاشے بانٹے گئے۔
ایک کسان باپ کے لیے 1970ء کی دہائی کے آخری برسوں میں کتنا مشکل ہوگا کہ وہ اپنے بیٹے کو ہر ماہ خرچہ بھیجے‘ جس کا زمین کے علاوہ کوئی اور سورس آف انکم نہ ہو۔ ہر ماہ کوئی جانور بیچیں یا گندم اور خرچہ بیٹے کو بھجوائیں۔ خیر بعد میں سلیم بھائی اور یوسف بھائی کی نوکری ہوئی تو انہوں نے نعیم بھائی کو خرچہ دینا شروع کیا۔جب بابا بیمار ہوئے اور انہیں ملتان لے گئے تو آخری سانسیں لینے سے پہلے انہوں نے اماں اور بڑے بھائی سلیم کو قسم دی تھی کہ چاہے ساری زمین فروخت کرنی پڑے کر دینا لیکن نعیم کو ڈاکٹر ضرور بنانا۔میں برسوں تک بہاولپور نعیم بھائی کے پاس عباس منزل میں ٹھہرتا اور ڈاکٹروں کو ہر وقت پڑھائی میں مشغول دیکھ کر اندازہ لگاتا تھا کہ ان لوگوں کو کتنا پڑھنا پڑتا ہے۔ میں نے جتنا ڈاکٹروں کو پڑھتے دیکھا اتنا کسی کو نہیں۔ پہلے وہ گھنٹوں وارڈ ڈیوٹی دیں پھر کتابیں اٹھا کر لائبریری جا کر رات گئے تک پڑھیں اور بار بار امتحان دیں‘ کبھی تھیوری‘ کبھی پریکٹیکل‘ انٹرویو میں چند نمبروں سے رہ جائیں تو پھر نئے سرے سے امتحان کا داخلہ اور تیاری اور پھر وہی مراحل۔
میں عمر بھر 21فروری 2013ء کی وہ طویل دکھ بھری رات نہیں بھول سکوں گا۔ نعیم بھائی بہاولپور سے ملنے اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔چھوٹے بھائی کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔میں ملنے گیا تو اس وقت ٹی وی پر نو بجے کی خبروں میں اس افسوسناک خبرکا فالو اَپ چل رہا تھا کہ دو تین روز قبل لاہور میں نامور آئی سپیشلسٹ ڈاکٹر سید علی حیدر اور ان کے بارہ سالہ بیٹے مرتضیٰ کو ایف سی کالج کے قریب گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ نعیم بھائی ٹریولنگ میں تھے لہٰذا انہیں اس خبر کا پتہ نہ چل سکا تھا۔ وہ خبر سنتے ہی ان کا رنگ فق ہو گیا۔ وہ خاموش نگاہوں سے ٹی وی سکرین کو دیکھتے رہے۔ کافی دیر بعد بولے: یہ کیا ہوگیا ہے؟میں تو پچھلے دو تین ماہ لاہور میں ڈاکٹر علی حیدر کے پاس ان سے نئے آپریشن سیکھنے کے لیے ہسپتال میں رہا ہوں۔کہنے لگے: ان جیسا قابل ڈاکٹر تو شاید پورے پاکستان میں کوئی نہیں تھا۔ ہم آنکھوں کے ڈاکٹروں کا بہت بڑا نقصان ہوگیا ہے۔ وہ تو ہمارے بگڑے کیسز درست کرتے تھے۔میں تو بہاولپور سے لاہور ان سے سیکھنے گیا تھا کہ تیزاب سے جلی آنکھوں کو کیسے بحال کیا جاسکتا ہے۔ سرائیکی علاقوں میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات میں تیزی آنے کے بعد نعیم بھائی نے لاہور جا کر ڈاکٹر علی حیدر سے یہ مشکل آپریشن سیکھے تھے تاکہ وہ اپنے علاقے کی تیزاب سے متاثرہ بچیوں اور خواتین کی آنکھوں کا مفت آپریشن کر کے ان کی آنکھیں بحال کریں۔ وہ پچھلے ہفتے ہی لاہور سے فارغ ہوئے تھے۔اب اسلام آباد سے بہاولپور واپس جا کر انہوں نے تیزاب سے متاثرہ بچیوں کے آپریشن شروع کرنے تھے۔
ڈاکٹر علی حیدر کے بارہ سالہ بیٹے مرتضیٰ کی ٹی وی سکرین پر فوٹو دیکھ کر ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ کہنے لگے: ان ظالموں نے کیا ظلم ہے۔ یہ پیارا سا بچہ تو اپنے باپ کے پاس ہسپتال اور دفتر آتا تھا اور ان سے بڑی پیاری پیاری باتیں کرتا تھا۔مجھے کہنے لگے: تم اس پر کالم لکھو۔ ڈاکٹر علی حیدر کے قتل سے عام لوگوں کو چھوڑیں ہم آئی سپیشلسٹ ڈاکٹروں کا کتنا بڑا نقصان ہوگیا ہے۔مجھے ان کی یہ حالت دیکھ کر پریشانی ہوئی۔ ہم سب اس قتل پر افسردہ تھے لیکن نعیم بھائی کیونکہ ڈاکٹر علی حیدر کے ساتھ کچھ ماہ کام کرکے آئے تھے لہٰذا ان کی تکلیف اور درد زیادہ تھا۔ میں نے نعیم بھائی کی یہ حالت اس سے پہلے 1992ء میں دیکھی تھی جب اماں کی میت ہم نشتر ہسپتال سے لے کر گائوں آئے تھے۔مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ انہیں کیسے تسلی دوں۔ آخر رات ایک بجے میں اُٹھ کر گھر چلا گیا۔ صبح تین بجے کے قریب بہنوئی کا فون آیا کہ ہم نعیم کو ہسپتال لے آئے ہیں۔جب تک میں بھاگ کر ہسپتال پہنچا ان کا دل جواب دے چکاتھا۔ میں نے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر چند الٹی سیدھی سطریں کھینچیں اور انہیں دفن کرنے لیہ گائوں لے گئے۔ اماں بابا کی وفات کے برسوں بعد پہلی دفعہ میں نے شکر کیا کہ آج نعیم بھائی کی میت دیکھنے کے لیے وہ زندہ نہ تھے۔جنہوں نے ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے بیٹے مرتضی کو قتل کیا تھا انہیں شاید علم نہ ہو کہ انہوں نے کتنی آنکھوں کی روشنیاں چھین لیں۔ ڈاکٹر سید علی حیدر اور ان کے بیٹے کے قاتلوں نے جہاں ان کے والدین اور بچوں سے باپ‘ خاوند یا بھائی چھینا وہیں ہم سے ہمارا بھائی بھی چھین لیا جنہوں نے بہاولپور واپس لوٹ کر آنکھوں کو روشنی لوٹانی تھی ۔ کتنی آنکھوں میں امیدیں تھیں کہ ڈاکٹر نعیم لوٹ کر ان کا آپریشن کریں گے اور وہ دنیا کو پھر سے دیکھ سکیں گے۔وہ سب پھر سے خوبصورت کہلوائیں گے۔ ان کے سب خواب ان زخمی آنکھوں میں ہی دم توڑ گئے۔
اب جنہوں نے کراچی میں ڈاکٹر بیربل کوبے رحمی سے قتل کیا وہ لوگ کبھی اس کہاوت کو نہیں سمجھ سکیں گے کہ لکھ مرے لکھ پال نہ مرے۔بھلا کیسے آپ کسی ڈاکٹر کو مار سکتے ہیں جس پر پورے خاندان‘ معاشرے اور حکومتوں کی سرمایہ کاری ہوتی ہے‘ جو برسوں کی پڑھائی اور پورے خاندان کی سرمایہ کاری کے بعد اس قابل ہوتا ہے کہ اپنے جیسے انسانوں کا علاج کرے۔کیا ان قاتلوں کو کبھی کسی ڈاکٹر کی ضرورت نہ پڑی یا نہیں پڑے گی یا وہ کبھی نہیں مریں گے؟ خدا نے انسانی جان کو اتنا قیمتی قرار دیا ہے کہ نہ صرف خودکشی حرام قرار دی بلکہ کسی انسان کی جان لینا پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر بیربل بارے پتہ چلا ہے کہ ہمارا ہندو بھائی اپنی محنت سے آنکھوں کے مسیحا کے رتبے تک پہنچا تھا۔ ان کی کراچی میں بہت عزت کی جاتی تھی‘ مگر ایک حملے میں پورا خاندان تباہ کر دیا گیا۔ ہمارے ہاں پہلے ہی ہندو ہوں یا سکھ ‘ receiving end پر رہتے ہیں۔ کوئی ایک آدھ اگر محنت سے اوپر پہنچ جائے تو ہم اسے گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔
کراچی میں پچھلے کئی برسوں میں اَن گنت ڈاکٹروں کو ٹارگٹ کلنگ کا شکار کیا گیا جس کے بعد بہت سے پاکستان ہی چھوڑ گئے۔مجھے نہیں پتہ قاتلوں کو اس قتل سے کیا ملا ہوگا لیکن ڈاکٹر بیربل کا قتل میرے دل میں ایک اور گہرا اور دردناک زخم کر گیا ہے۔ وہ خوفناک رات پھر میرے حواس پر طاری ہوگئی ہے جب نعیم بھائی ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے بیٹے کے قتل کے بعد پوری رات ڈسٹرب رہے اور صبح ہونے سے پہلے چل بسے۔
ڈاکٹر علی حیدر‘ ان کے بارہ سالہ بیٹے مرتضیٰ اور نعیم بھائی کے بعد اب ڈاکٹر بیربل کی قبر بھی دل کے قبرستان میں بن گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر