یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی چیزوں کو الٹا کر کے دیکھنے سے جلدی سمجھ آ جاتی ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ شرٹ یا پینٹ کو الٹا کر کے سلائی چیک کرنے جیسا ہے۔ آخر ڈی کنسٹرکشن نے سب سے پہلے یہی تو سکھایا جس کی وجہ سے تعمیرات میں ایک الٹا انقلاب آیا: کھنگر سے مکان بنائے گئے، موٹی سیونیں باہر آ گئیں، وغیرہ۔
مثلاً اکثر ہم کہتے ہیں کہ صنعتی انقلاب نے انسان کی زندگی کو بے وقعت بنا دیا اور وہ کھو کر رہ گیا۔ فیکٹری میں ایک ہی نامعلوم مقصد والے پرزے کو بار بار، روزانہ بناتے ہوئے وہ خود کو گم کر بیٹھا۔ لیکن کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ 1800ء میں دنیا کی آبادی صرف ایک ارب تھی (یعنی چار پاکستانوں جتنی) اور اُس میں دانا آدمیوں کی تعداد زیادہ تھی، اور اب بھی دانا آدمی اُتنی ہی تعداد میں ہیں، مگر صنعتی انقلاب کے بعد آبادی بڑھتے بڑھتے آج آٹھ ارب تک پہنچ چکی ہے۔ لہٰذا بے وقعتی کی ایک وجہ ’عام‘ لوگوں کی تعداد کا بڑھ جانا ہے۔ اس لیے زیادہ فکر نہ کریں، ہو سکتا ہے کہ آپ اب بھی اہم ہوں!
عورت کو ڈی کنسٹرکٹ کریں (میں ایک فیمنسٹ ہونے کے ناطے یہ کام کچھ بلاخوف کر سکتا ہوں) تو پتا چلے گا کہ وہ آہستہ آہستہ نسوانی مرد بنی ہے، یا پھر مردانہ عورت۔ ظاہر ہے مرد کو اُس کی محنت اور روزگار کے انتظام نے مرد بنایا، اور جب عورت نے محنت اور روزگار چلانا شروع کر دیا تو وہ بھی مرد ہی ہوئی! اور مرد بھی تو کم ازکم جسمانی اعتبار سے عورت ہی ہے۔ یقین نہیں تو (مرد) اپنی ٹانگوں کے عین درمیان، خصیوں سے لے کر مقعد تک ایک ہلکی سی اُبھری ہوئی لائن کو ہاتھ لگا کر چیک کریں۔ فطرت ملک اکرم نہیں بنا رہی، بلکہ ایک عورت بناتے بناتے یہ درز جیسے گوند سے بند کر دی۔ چلیں اِس لائن کو چھونا مشکل ہے تو آرنلڈ شوازنیگر کے سینے پر دو ٹکیوں کا جواز ڈھونڈیں۔
آپ عموماً کہیں گے کہ یہ پھول، یہ پودے، یہ غذائیں، بادل، موسم اور پھل کیسی نعمتیں ہیں جو ہمارے لیے بنائی گئی ہیں! اِس بیان کو اُلٹا کر دیکھیں: ہم کس طرح سے اِن پھولوں، پھلوں، غذاؤں اور موسموں کے لیے ڈھل گئے ہیں! تب ساری بات سمجھ آ جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر