آفتاب احمد گورائیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے پہلے تک تحریک انصاف کا سب سے زور دار نعرہ تبدیلی کا نعرہ تھا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد تبدیلی کے نعرے کی شدت میں کمی آنے لگی اور اب صورتحال یہ ہے کہ تبدیلی تو کیا آنی تھی تبدیلی والوں نے خود بھی تبدیلی کا نام لینا چھوڑ دیا ہے۔ نو سال خیبر پختونخواہ اور چار چار سال مرکز اور پنجاب میں ناکام ترین حکومتوں کے بعد آج عمران خان کے پاس تبدیلی کے نام پر عوام کو بتانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے اسی لئے تحریک انصاف آج تبدیلی کا نعرہ مکمل طور پر چھوڑ چکی ہے۔ اقتدار سے رخصتی کے بعد اب تک عمران خان نے ساٹھ سے زیادہ جلسے کئے ہیں، دو ناکام ترین لانگ مارچ اس کے علاوہ ہیں۔ ہر دوسرے دن پریس ٹاک کے نام پر عمران خان کا خطاب بھی ہوتا ہے لیکن نہ تو عمران خان کے خطاب میں کسی تبدیلی کا ذکر ہوتا ہے جو وعدے کے مطابق عمران خان کو اپنے اقتدار کے دوران لے کر آنی تھی اور نہ کسی پراجیکٹ کا ذکر ہوتا ہے جو عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں مکمل کیا ہو یا شروع ہی کیا ہو۔ چونکہ عمران خان کے پاس عوام کو دکھانے کے لئے کوئی کارکردگی تو ہے نہیں اس لئے عمران خان کی جانب سے ہر روز ایک نیا جھوٹ گھڑا جاتا ہے، کبھی سائفر، کبھی غیر ملکی سازش، کبھی حقیقی آزادی، کبھی کسی پر قتل کی سازش کا الزام کبھی کسی پر۔ عمران خان کے ہر خطاب میں سرپرائز کے نام پر ایک نیا جھوٹ پیش کیا جاتا ہے جو چند ہی روز میں غلط ثابت ہو جاتا ہے تو بجائے اس پر معذرت کرنے یا شرمندہ ہونے کے ایک نیا جھوٹ لانچ کر دیا جاتا ہے۔
نہ عمران خان اور نہ ہی ان کی پارٹی کو معلوم ہے کہ ان کا اصل بیانیہ ہے کیا۔ ہر دوسرے روز قوم سے خطاب کے نام پر عمران خان کی طرف سے ایک نئی پھلجھڑی چھوڑی جاتی ہے جس پر اپنے اگلے خطاب میں موصوف یو ٹرن لے لیتے ہیں۔ نہ کوئی پوچھنے کی جرات کرتا ہے اور نہ عمران خان بتانے کی کہ تبدیلی والے نعرے کا کیا بنا؟ اب تبدیلی کا نام کیوں نہیں لیا جاتا؟ پچھلے ایک سال سےجو حقیقی آزادی کا نعرہ دیا گیا وہ حقیقی آزادی لینی کس سے ہے؟ اس اسٹیبلشمنٹ سے جس کے عمران خان کی جانب سے ترلے کئے جا رہے ہیں کہ اسے دوبارہ لاڈلہ بنا لیا جائے یا اس امریکہ سے جس پر اپنی حکومت گرائے جانے کا لگایا جانے والا الزام عمران خان کی جانب سے واپس لیا جا چکا ہے اور ہر سطح پر پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ امریکہ کو باور کروایا جائے کہ میں یعنی عمران خان اگر دوبارہ حکومت میں آیا تو امریکہ سے ہر معاملے میں پورا تعاون کروں گا۔ طاقتور امریکی حلقوں سے تعلقات کار کی بحالی کے لئے بھاری معاوضے پر دو لابنگ فرمز کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ منافقت کا عالم یہ ہے کہ پاکستان میں عوام اور کارکنوں کو حقیقی آزادی کا درس دیا جا رہا ہے اور امریکہ میں لابنگ فرمز کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔ امریکہ والوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کی ہر ممکن کوشش بروئے کار لائی جا رہی ہے لیکن پاکستان میں کارکنوں کو ایبسولوٹلی ناٹ کا لالی پاپ دیا جا رہا ہے۔ انہی لابنگ فرمز کو دئیے جانے والے ڈالرز کا کرشمہ ہے کہ زلمے خلیل زاد جیسی پاکستان مخالف شخصیت کی جانب سےعمران خان کی حمایت میں مسلسل بیانات اور ٹوئیٹس سامنے آ رہے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے ہمیشہ یہ دعوی کیا جاتا رہا ہے کہ میں قوم کی تربیت کر رہا ہوں بلکہ مذہبی ٹچ دینے کے لئے یہاں تک کہا جاتا رہا ہے کہ میں قوم کو لا إله إلا الله کا مطلب سکھا رہا ہوں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی نے گالم گلوچ اورشدت پسندی کا ایسا کلچر متعارف کروایا ہے جس نے پوری سوسائٹی کو متاثر کر کے رکھ دیا ہے۔ ابھی قوم کئی دہائیاں گزر جانے کےباوجود جنرل ضیا کی جانب سے پھیلائی گئی گمراہی اور شدت پسندی سے سنبھل نہیں پائی تھی کہ اس گمراہی اور شدت پسندی میں عمران خان نے اپنا حصہ بھی ڈال دیا ہے۔ عمران خان نے جو گمراہی پھیلائی ہے نہ جانے اس کا نقصان کتنی نسلوں تک اس قوم کو بھگتنا پڑے۔ نوے کی دہائی میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان بڑی سخت قسم کی سیاسی جنگ لڑی جاتی رہی ہے لیکن اس وقت بھی حالات اس نہج تک نہیں پہنچے تھے کہ سیاسی مخالفت کی بنا پر عزیز رشتہ داروں اور دوستوں کے درمیان ہی لڑائی شروع ہو جائے۔ اس وقت لوگ سیاسی مکالمہ کرتے تھے اپنا نقطعہ نظر دلیل کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن اب صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عمران خان کی تیارکردہ گمراہ نسل کے ساتھ کسی قسم کی دلیل یا سیاسی مکالمے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ سیاسی مکالمے اور دلیل کے جواب میں گمراہ کن تبدیلی کی تیارکردہ گمراہ نسل کے پاس گالم گلوچ کے سوا اور کوئی جواب نہیں ہوتا۔
عمران خان کی جانب سے لائی جانے والی گمراہ کن تبدیلی نے قومی سیاست کو اتنا آلودہ کردیا ہے جہاں کسی قسم کی اخلاقیات کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ سیاسی مخالفین پر بغیر کسی ثبوت کے جھوٹے الزام لگانا عمران خان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ پہلےتو سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو ہی کہا کرتے تھے لیکن اب اپنے سیاسی مخالفین پر اپنے قتل کی سازش کا الزام لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔ کبھی شہباز شریف، رانا ثنااللہ اور ڈرٹی ہیری پر اپنے قتل کی سازش کا الزام لگاتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری نے ایجنسیوں کے ساتھ مل کر مجھے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اب پچھلے کچھ دنوں میں یہ سازش یا الزام آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد تک پہنچ چکا ہے۔ عمران خان کی جانب سے اپنے مخالفین پر لگائے جانے والے الزامات اب مذاق بن چکے ہیں اور عوام نے ان الزامات کو سنجیدگی سے لینا ہی چھوڑ دیا ہے لیکن عمران خان کی گالم گلوچ بریگیڈ ان جھوٹے الزامات پر صدق دل سے ایمان رکھتی ہے۔
تحریک انصاف کا سوشل میڈیا سیل اس وقت باقی ساری سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سے زیادہ فعال ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں خیبرپختونخواہ اور پنجاب میں ہزاروں کی تعداد میں سوشل میڈیا ایکٹویسٹس کو بھرتی کیا جن کو سرکاری خزانے سے تنخواہ دی جاتی تھی لیکن ان کا کام تحریک انصاف کے حق میں پروپیگنڈہ کرنا تھا۔ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کا کام عمران خان کی جانب سے دئیے گئے جھوٹے بیانئیوں کا پروپیگنڈہ کرنا، مخالفین پر جھوٹے الزام لگانا، مخالفین کی تضحیک آمیز تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر شئیر کرنا ہے۔ تحریک انصاف کے حمایتی نام نہاد تجزیہ کار جن میں اوریا مقبول جان، صابر شاکر اور عمران ریاض خان جیسے لوگ شامل ہیں جھوٹی خبروں اور پرانی تصاویر کو لے کر پروپیگنڈہ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف کے آفیشل اکاونٹ سے جھوٹی خبر اور پرانی تصاویر استعمال کرکے پروپیگنڈہ کرنا معمول کی بات ہے۔ سوشل میڈیا کارکن عام طور پر نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ اندازہ کریں کہ یہ نوجوان جو پیسے لے کر جھوٹ گھڑنے اور جھوٹ پھیلانے میں مصروف ہیں ان کا کیا کردار اور اخلاق باقی رہ جائے گا۔ ان نوجوانوں کو سچائی کی راہ سے ہٹا کر گمراہی کے راستے پر ڈالنے کا سہرہ بھی تحریک انصاف کی نام نہاد تبدیلی ہی کے سر ہے اور عمران خان ان نوجوانوں کے اخلاق اور مستقبل کی تباہی کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔
عمران خان کی بطور وزیراعظم کارکردگی جیسی بھی رہی اور ملک و قوم کو عمران حکومت کی نااہلی، نالائقی اور کرپشن کی وجہ سے جو نقصان پہنچا ہے اس کا مداوا تو شائد ممکن ہو اس میں تھوڑا وقت ضرور لگے گا لیکن بالا آخر ملک جلد یا بدیر ان مشکل حالات سے نکل آئے گا لیکن عمران خان نے جو ایک نسل کو تباہ کرکے گمراہی کے راستے پر ڈال دیا ہے اس کا مداوا شائد ممکن نہ ہو اور ملک و قوم کو اس گمراہی کا خمیازہ نسلوں تک بھگتنا پڑے گا۔
۰
Twitter: @GorayaAftab
یہ بھی پڑھیے:
پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ
تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ
چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر