وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کمال تصویر ابھر رہی ہے۔
کل جو نون لیگ عمران خان اور ان کی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کا بغل بچہ کہتی تھی آج اسی نون لیگ نے وہی تمغہ چکلے سینے پر سلوا لیا ہے۔
پیپلز پارٹی جو کل تک اینٹی سٹیٹس کو جماعت ہونے کا تاثر بیچ سکتی تھی۔ آج وہی پیپلز پارٹی سٹیٹس کو کی بی ٹیم نظر آ رہی ہے اور کل تک جو تحریکِ انصاف نیم عسکری جمہوریت کی پاپوش بردار تھی، آج وہ ضیا دور کے جیالا کلچر کی فوٹوکاپی لگ رہی ہے۔
کل تک نواز شریف ’مجھے کیوں نکالا‘ کی جو تبسیح گھما رہے تھے، وہی تسبیح آج عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔ کل تک ’ووٹ کو عزت دو‘ کے جملہ حقوق نواز شریف کے پاس تھے۔
نون لیگ اور ہم نواؤں کا مطالبہ تھا کہ نجات کا ایک ہی راستہ ہے جلد انتخابات۔ جبکہ عمران خانی کابینائی آرکسٹرا یکسر تھا کہ انتخابات تو مقررہ آئینی وقت پر ہی ہوں گے۔
تاش کی گڈی وہی پرانی ہے۔ بس بانٹنے والے نے پتے بدل دیے۔ جو کل تک فوری انتخابات مانگ رہے تھے آج ترازو کے پلڑے برابر نہ ہونے تک پولنگ کرانے کے موڈ میں نہیں اور جو کل تک اپنی پنج سالہ مدت کے اختتام سے پہلے کسی صورت انتخابات کے لیے راضی نہ تھے آج وہی پارٹی پرسوں شام تک انتخابات چاہتی ہے۔
نوے روز کی آئینی مدت میں انتخابات کے منکرِ اول ضیا الحق کی روح کو اب کہیں 46 برس بعد جا کے مکتی ملی ہو گی۔
کل تک جو پی ڈی ایم عمران خان پر آئین شکنی کا الزام دھر رہی تھی آج وہی الزام پی ڈی ایم کی پیشانی پر چمک رہا ہے۔ یہی وہ اتحادی جماعتیں ہیں جن کے پرکھے باوردی آئین شکنی کے خلاف جدوجہد کرتے کرتے خرچ ہو گئے۔
اب کہیں جا کے ایوب، ضیا اور پرویز نے قبر میں سکھ کا سانس لیا ہو گا۔ کہنے کو آج بھی پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت ہے۔ مگر قومی اسمبلی کو عمران خان نے کتر لیا۔
آج جو قائدِ حزبِ اختلاف ہے، اس سے زیادہ معروف اور بااختیار تو شمالی کوریا کی پارلیمان کا لیڈر آف دی اپوزیشن ہے۔
فائدہ البتہ یہ ہے کہ ان دنوں وہ وہ قانونی بل بھی آرام سے منظور ہو رہے ہیں جو کسی صحت مند مکمل قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش ہوتے تو پیش کاروں کے دانتوں تلے پسینہ آ جاتا۔
کل تک پی ڈی ایم کے گرگانِ باران دیدہ طعنہ زن تھے کہ فوجی قیادت نے دو ہزار اٹھارہ کے آپریشن آر ٹی ایس کے ذریعے جس لونڈیہار پارٹی کو سرکار تھمائی۔ اس نے معیشت سے وہ کھلواڑ کیا کہ عام آدمی کی کمر ٹوٹ گئی اور اسے اقتدار میں لانے والے بھی بغلیں جھانکنے لگے۔
آج معیشت کی رکاب پر انھی آزمودہ سیاست بازوں کا پاؤں ہے اور لونڈیہار پارٹی چیلنج کر رہی ہے کہ کم از کم ہمارے دور میں ہزاروں برقع پوش خواتین اور سفید داڑھیوں والے مرد ایک زرعی ملک میں پانچ کلو مفت آٹے کی ایک بوری حاصل کرنے کی دوڑ میں محروم ہجوم کے پاؤں تلے کچلے تو نہیں جا رہے تھے۔
غیر نوبیل ماہرِ معیشت اسحاق ڈار نے پچھلے چھ ماہ سے جنتا کو آئی ایم ایف کے ممکنہ قرضے کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے اور آئی ایم ایف نے ریاستِ پاکستان کو اسی کام پر لگا رکھا ہے۔
مگر آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط ملنے میں ناکامی کو بھی کام میں لانے کا فن کوئی موجودہ لال بھجکڑوں سے سیکھے۔
توجہ بٹانے کے لیے پہلے یہ شوشا چھوڑا گیا کہ قسط نہ ملنے کا ایک سبب شاید جوہری پروگرام پر سودے بازی کے لیے دباؤ ہے۔
جب آئی ایم ایف نے اعلانیہ تردید کر دی کہ ہمارا یہ کام نہیں کہ ملکوں کے جوہری منصوبوں پر نظر رکھتے پھریں۔ تب بادلِ نخواستہ بھائی اسحاق کو بھی کہنا پڑا کہ قرضے میں تاخیر کا سبب جوہری پروگرام پر دباؤ نہیں ہے۔
پھر اسی آئی ایم ایف کا بھوت دکھا کے الیکشن کمیشن کو تاثر دیا گیا کہ دو صوبائی انتخابات فوری طور پر کرانے کے لیے حکومت کے پاس پیسہ نہیں کیونکہ آئی ایم ایف نے مالیاتی خسارہ کم کرنے کی شرائط سے ہمارے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔
جب آئی ایم ایف سے اس بابت ایک صحافی نے استفسار کیا تو ادارے کی کنٹری ڈائریکٹر کو کھل کے کہنا پڑا کہ آئی ایم ایف کسی بھی ملک کو اپنی آئینی و جمہوری زمہ داریاں نبھانے سے کبھی نہیں روکتا۔
اس کے باوجود بھولے بھالے الیکشن کمیشن نے اپنے ہی اعلان کردہ صوبائی انتخابات کی تاریخ بظاہر اپنی مرضی سے آٹھ اکتوبر کر دی۔
تاویل یہ ہے کہ نوے روز یا مقررہ آئینی مدت کے آس پاس انتخابات کروانے کے اعلی عدالتی حکم کے باوجود مرکزی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے امن و امان اور معیشت کی دگرگوں صورت کے سبب الیکشن بجٹ اور سیکورٹی فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
گویا آٹھ اکتوبر تک معیشت بھی بہتر ہو جائے گی، دہشت گردی بھی قابو کر لی جائے گی۔ کیا موجودہ حالات میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے اس سے بہتر خوش خبری ممکن ہے؟
کچھ عرصے پہلے تک میرا خیال تھا کہ فسطائی یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ اب لگتا ہے کہ فسطائیت نظریہ سے زیادہ کیفیت کا نام ہے جو کسی بھی بھلے چنگے دکھائی دینے والے جمہوریت نواز پر طاری ہو سکتی ہے اور اتنی گہری طاری ہو سکتی ہے کہ کل کا فسطائی مدِ مقابل آج جمہوریت کا چیمپیئن دکھائی دے۔
اس ملک کا واحد سچ یہ ہے کہ یہ بن گیا۔ تب سے مکین یا تو مسلسل بنائے جا رہے ہیں یا خود بن رہے ہیں۔ باجوہ سر جاتے جاتے اس اندرونی فیصلے کی خوش خبری دے گئے کہ کم ازکم اگلے پندرہ بیس برس تک سیاست میں عسکری مداخلت نہیں ہوگی۔
باجوہ سر کی رخصتی کے بعد سے رجواڑی معاملات میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی عدم مداخلت اور غیر جانبداری کا دور بے طرح یاد آ رہا ہے۔
ویسے بھی دو سو برس میں ڈی این اے بدل تھوڑی جاتا ہے۔ آخر کو ہمارے خطے کے عسکری و سیاسی کلچر کو کمپنی بہادر نے ہی تو جنم دے کے پالا پوسا تھا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر