رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید 2018ء کی اداس شام تھی جب مجھے عمر شیخ کا فون آیا۔بھرائی ہوئی آواز اور لہجے میں اداسی تھی۔سوہنڑا… کتھاں او… آئو بٹاں لائوں (گپیں ماریں)۔ مجھے لگا عمر شیخ ڈپریس ہیں۔کہنے لگے :ایف الیون کیفے پر بیٹھا ہوں۔دل بہت اُداس ہے۔ چلے آئو۔
وہاں اکیلے بیٹھے سگریٹ پی رہے تھے۔بولتے رہے۔میں چپ چاپ انہیں سنتا رہا۔ ان کی آنکھیں نم ہو چلی تھیں۔وہ اپنے دو بیٹوں کو بہت مس کررہے تھے۔ان کے بچے قابل نکلے تھے۔ایک کینیڈا تو دوسرا لندن جاب کررہا تھا۔ کہنے لگے: یار ہمیں کیا ملا۔ کیا زندگی ہے۔بچوں کیلئے دل دھڑکتا رہتا ہے۔ دل کا ایک حصہ لندن تو دوسرا کینیڈا میں بندھا ہوا ہے۔فون کی گھنٹی بج جائے تو جان پر بن جاتی ہے۔ کیا بچوں کو اس دن کیلئے پڑھایا اور پالا پوسا تھا کہ ایک دن انگریز ہمارے بچوں کو اس طرح اٹھا کر لے جائیں جیسے چیل فاختہ کے بچے جھپٹا مار کر لے جاتی ہے ۔ جن بچوں کو محبت سے پالا پوسا اب وہ صبح چھ بجے اٹھتے ہیں۔سارا دن انگریز ان سے کام لیتے ہیں۔شام پانچ چھ بجے وہ فارغ ہوتے ہیں۔ سات آٹھ بجے گھر پہنچتے ہیں اور تھکاوٹ سے بستر پر گرتے ہیں اور صبح چھ بجے پھر اُٹھنا پڑتا ہے۔ادھر میں اور ان بچوں کی ماں ان کی اداسی سے مرے جاتے ہیں۔ یہ قیمت ہم ادا کررہے ہیں کہ ہمارے بچے پڑھیں اور ترقی کریں۔ یہ کیا ترقی ہوئی۔ شیخ صاحب جیسے مضبوط انسان کی آنکھوں میں وہ آنسو دیکھ کر میں خود ہل کر رہ گیا۔کہیں پڑھا تھا‘آپ یا تو اپنے بچوں کو ترقی کرتے دیکھ سکتے ہیں یا پھر انہیں آپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔بولے: لیکن کیا کرتے‘یہاں روک لیتا تو وہ کیا کرتے؟کہیں پچاس ساٹھ ہزار کی نوکری ڈھونڈ لیتے تو بھی لائف مشکل ہوتی۔
شیخ صاحب خان پور کی شیخ فیملی سے تھے۔ میری ان سے پہلی ملاقات برسوں پہلے ورجینیا میں اکبر چودھری کے گھر ہوئی تھی۔وہ واشنگٹن سفارت خانے میں تعینات تھے۔پاکستان واپس لوٹے تو ان کا فون آیا‘ سوہنڑا کتھاں او؟اور پھر میری ان سے ایسی دوستی اور تعلق جما کہ روز شام کو نیکٹا دفتر سے فارغ ہوتے تو مجھے فون کرتے‘ سوہنڑا کتھاں او؟اور پھر کسی کیفے پر بیٹھ کر ہم رات گئے تک گپیں مارتے اور کافی چائے پیتے رہتے۔ جو شیخ صاحب کو جانتے تھے وہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ آپ گھنٹوں ان کی محفل میں بیٹھے رہیں آپ کبھی بور نہیں ہوسکتے تھے۔ ان کے اندر ایک پیدائشی قصہ خواں موجود تھا۔ کبھی کبھار مجھے لگتا وہ پچھلے جنم میں مشہور قصہ گو رہے ہوں گے جو کسی دُور ویرانے میں واقع سرائے میں مسافروں کو آگ کے الائو کے گرد بیٹھ کر قصے سناتے ہوں گے تاکہ وہ اگلی صبح تازہ دم ہو کر اپنی نامعلوم منزلوں کی طرف سفر شروع کر سکیں۔ان کی باتوں کا جس کو چسکا پڑا وہ پھر ان سے دور نہ ہوسکا۔
کبھی مجھے لگتا وہ پچھلے جنم میں جنگجو تھے جو اس جنم میں اپنا ادھورا مشن پورا کرنے آئے تھے۔ اسلام آباد میں جنید مہار‘ میں اور عمر شیخ ہر وقت شام کو اکٹھے پائے جاتے۔ میرے گھر پر محفلیں جم رہی ہیں یا جنید مہار کے گھر جارہے ہیں۔شیخ صاحب 2014ء میں عمران خان کے اتنے فین بن گئے تھے کہ انہوں نے واشنگٹن سے خان کے ایک قریبی بندے کو فون کیا کہ وہ خان صاحب ساتھ سولڈریٹی دکھانے کیلئے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دینے کو تیار ہیں‘جس کا اعلان وہ اپنے 2014ء دھرنے میں کرسکتے ہیں۔ ان کی یہ فون کال ٹریس ہوئی۔اُس وقت آفتاب سلطان ڈی جی آئی بی تھے۔ انہوں نے انہیں واپس بلایا۔ ٹیپ سنائی اور سمجھایا اور واپس امریکہ بھیج دیا۔
شیخ صاحب کے اندر ایک بے چین روح تھی جو انہیں ٹکنے نہیں دیتی تھی۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ ان کے پاس بہت آئیڈیاز تھے۔ وہ عوامی بندے تھے جو پولیس کو سیدھا کرنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر پولیس والوں کو غلط کاموں پر سزا ملنا شروع ہو جائے تو لوگ جہاں پولیس کی عزت کرنا شروع کر دیں گے وہیں عام لوگوں پر قانون کی دہشت خود بخود بیٹھنا شروع ہو جائے گی اگر پولیس خود اپنے پولیس والوں کو غلط کام کرنے پر نہیں چھوڑتی تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔
شیخ صاحب جہاں رہے انہوں نے پولیس فورس ساتھ کبھی رعایت نہ کی۔ اگر کسی کی شکایت ملی تو پہلے تفتیش کرائی۔پتا چل جاتا ایس ایچ او یا ڈی ایس پی نے ظلم زیادتی کی ہے تو ایک کال اس افسر کو جاتی دفتر پہنچو اور ایک کال قریبی تھانے کو جاتی کہ ہتھکڑی لے کر پہنچو۔جب انہیں لاہور میں سی سی پی او لگایا گیا تو انہوں نے پہلے دن ہی اپنا کام شروع کر دیا جس پر ان کے خلاف شدید ری ایکشن آنا شروع ہوگیا۔ انہوں نے ہر طرف دشمن بنا لیے۔ اسلام آباد آئے تو میں اور جنید مہار نے کہا :مولا ہتھ ہولا۔ دھیرے چلیں‘ سب کو دشمن بنا رہے ہیں۔ ہنس کر بولے: میرے پاس نوے دن ہیں۔ جو کرنا ہے انہی نوے دنوں میں کرناہے۔ اور تین ماہ میں انہوں نے لاہور کا سین بدلا۔ جو اچھے اہلکار کھڈے لائن تھے انہیں تھانے دیے‘ اعتماد دیا اور کسی کی سفارش ماننے سے انکار کر دیا جس سے ان کی دشمنیاں بڑھتی گئیں۔ وہ کہتے تھے: مجھ پر عمران خان نے بھروسا کیا ہے۔ میں اس کے اعتماد پرپورا اُتروں گا۔لیکن قبضہ گروپس اور سیاستدان اور پولیس افسران کو نقصان ہورہا تھا۔ انہیں وزیراعلیٰ ہاؤس سے ایس ایچ او لگانے کی فہرست دی گئی۔ انکار کر دیا۔ یہاں تک ٹھیک تھا لیکن ایک زمین پر قبضہ ہوا تو شکایت پر ایکشن کرایا تو اس کے پیچھے ایک بڑے صاحب کا رئیل اسٹیٹ والا سمدھی اور لاہور میں اشرافیہ کے کلب کا ایک شیخ نکل آیا۔ وزیراعلیٰ پہلے ہی ناخوش تھا کہ دیہاڑیاں رُک گئی تھیں۔ یوں شیخ صاحب کو اُٹھا کر پرے مار دیا گیا۔ یہاں تک بس نہیں کیا گیا بلکہ ان کو سزا دینے کیلئے ان کی پروموشن نہیں ہونے دی گئی۔ جس پر وہ ڈپریس ہوئے۔اپنے دوست ہی دشمن ہوگئے تھے کہ عمر شیخ کیسے اتنامقبول ہوگیا ۔ عوام کیوں اسے پسند کرنے لگ گئے؟ وہ بھی اب اپنی پاپولرٹی کو انجوائے کرنے لگ گئے تھے۔میں ان سے پاپولرٹی کے نشے سے بچنے کی باتیں کرتا رہتا۔ہنس کر کہتے: سوہنڑا سب پھڑے جان گے۔ انہیں بڑا دھچکا اُس وقت لگا جب انہیں سزا دینے کیلئے ان افسران کی لسٹ میں ان کا نام ڈال دیا گیا جو اسٹیبلشمنٹ کے بقول نالائق تھے اور انہیں جبری ریٹائرڈ کر دیا جائے۔ اس پر دو تین اجلاس بھی ہوئے۔
میں ان کا نام اس فہرست میں دیکھ کر حیران ہوا کہ عمر شیخ سب کچھ ہوسکتا تھا لیکن نالائق نہیں۔ جتنا ایکٹو‘ ذہین اور سروس کو شوق اور جارحانہ انداز میں انہیں کرتے دیکھا کبھی کسی کو نہ دیکھا تھا۔ جنید مہار اورمیں گھنٹوں شیخ صاحب کی ذہانت بھری گفتگو سنتے تھے۔ ان کے پاس اس ملک اور پولیس کے لیے بہت آئیڈیاز تھے۔ جب بھی ملے ان کے پاس ایسے شاندار آئیڈیاز ہوتے کہ بندہ واہ واہ کر اُٹھے۔لیکن ان کی صلاحتیوں سے پورا فائدہ نہ اٹھایا گیا۔ الٹا ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی گئیں۔ وہ پھر بھی ڈٹے رہے‘ لیکن ان کی جوان بیٹی بختاور کی طویل بیماری نے انہیں اندر سے توڑ دیا تھا۔جب بھی ملتے اپنی بیٹی کی بات کر کے رو پڑتے۔وہ ایک بڑے کھیل کے بڑے کھلاڑی تھے لیکن انہیں وہ میدان نہ ملا جس میں وہ اپنے جوہر دکھا پاتے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد پچھلے ماہ اسلام آباد آئے۔فون پر طے ہوا کہ شام کو ملتے ہیں۔شام کو مجھے موٹر وے سے فون کیا: سوہنڑا لاہور واپس جارہا ہوں۔بختاور گھر اکیلی ہے۔پھر کبھی سہی۔ اکثر اللہ کا شکر ادا کرتے کہ وہ خان پور کے اس شیخ خاندان سے اس عہدے تک پہنچے تھے جہاں بچوں کو پڑھانے کا رواج نہ تھا۔پہلا شیخ بچہ سکول گیا‘یونیورسٹی گیا۔افسر بنا اور آج واپس اسی خان پور کے ایک دوردراز اداس قبرستان میں جا سویا ہے جس کے قصبے سے برسوں پہلے زندگی کا مختصر لیکن غیرمعمولی سفر شروع کیا تھا۔
وہاں اکیلے بیٹھے سگریٹ پی رہے تھے۔بولتے رہے۔میں چپ چاپ انہیں سنتا رہا۔ ان کی آنکھیں نم ہو چلی تھیں۔وہ اپنے دو بیٹوں کو بہت مس کررہے تھے۔ان کے بچے قابل نکلے تھے۔ایک کینیڈا تو دوسرا لندن جاب کررہا تھا۔ کہنے لگے: یار ہمیں کیا ملا۔ کیا زندگی ہے۔بچوں کیلئے دل دھڑکتا رہتا ہے۔ دل کا ایک حصہ لندن تو دوسرا کینیڈا میں بندھا ہوا ہے۔فون کی گھنٹی بج جائے تو جان پر بن جاتی ہے۔ کیا بچوں کو اس دن کیلئے پڑھایا اور پالا پوسا تھا کہ ایک دن انگریز ہمارے بچوں کو اس طرح اٹھا کر لے جائیں جیسے چیل فاختہ کے بچے جھپٹا مار کر لے جاتی ہے ۔ جن بچوں کو محبت سے پالا پوسا اب وہ صبح چھ بجے اٹھتے ہیں۔سارا دن انگریز ان سے کام لیتے ہیں۔شام پانچ چھ بجے وہ فارغ ہوتے ہیں۔ سات آٹھ بجے گھر پہنچتے ہیں اور تھکاوٹ سے بستر پر گرتے ہیں اور صبح چھ بجے پھر اُٹھنا پڑتا ہے۔ادھر میں اور ان بچوں کی ماں ان کی اداسی سے مرے جاتے ہیں۔ یہ قیمت ہم ادا کررہے ہیں کہ ہمارے بچے پڑھیں اور ترقی کریں۔ یہ کیا ترقی ہوئی۔ شیخ صاحب جیسے مضبوط انسان کی آنکھوں میں وہ آنسو دیکھ کر میں خود ہل کر رہ گیا۔کہیں پڑھا تھا‘آپ یا تو اپنے بچوں کو ترقی کرتے دیکھ سکتے ہیں یا پھر انہیں آپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔بولے: لیکن کیا کرتے‘یہاں روک لیتا تو وہ کیا کرتے؟کہیں پچاس ساٹھ ہزار کی نوکری ڈھونڈ لیتے تو بھی لائف مشکل ہوتی۔
شیخ صاحب خان پور کی شیخ فیملی سے تھے۔ میری ان سے پہلی ملاقات برسوں پہلے ورجینیا میں اکبر چودھری کے گھر ہوئی تھی۔وہ واشنگٹن سفارت خانے میں تعینات تھے۔پاکستان واپس لوٹے تو ان کا فون آیا‘ سوہنڑا کتھاں او؟اور پھر میری ان سے ایسی دوستی اور تعلق جما کہ روز شام کو نیکٹا دفتر سے فارغ ہوتے تو مجھے فون کرتے‘ سوہنڑا کتھاں او؟اور پھر کسی کیفے پر بیٹھ کر ہم رات گئے تک گپیں مارتے اور کافی چائے پیتے رہتے۔ جو شیخ صاحب کو جانتے تھے وہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ آپ گھنٹوں ان کی محفل میں بیٹھے رہیں آپ کبھی بور نہیں ہوسکتے تھے۔ ان کے اندر ایک پیدائشی قصہ خواں موجود تھا۔ کبھی کبھار مجھے لگتا وہ پچھلے جنم میں مشہور قصہ گو رہے ہوں گے جو کسی دُور ویرانے میں واقع سرائے میں مسافروں کو آگ کے الائو کے گرد بیٹھ کر قصے سناتے ہوں گے تاکہ وہ اگلی صبح تازہ دم ہو کر اپنی نامعلوم منزلوں کی طرف سفر شروع کر سکیں۔ان کی باتوں کا جس کو چسکا پڑا وہ پھر ان سے دور نہ ہوسکا۔
کبھی مجھے لگتا وہ پچھلے جنم میں جنگجو تھے جو اس جنم میں اپنا ادھورا مشن پورا کرنے آئے تھے۔ اسلام آباد میں جنید مہار‘ میں اور عمر شیخ ہر وقت شام کو اکٹھے پائے جاتے۔ میرے گھر پر محفلیں جم رہی ہیں یا جنید مہار کے گھر جارہے ہیں۔شیخ صاحب 2014ء میں عمران خان کے اتنے فین بن گئے تھے کہ انہوں نے واشنگٹن سے خان کے ایک قریبی بندے کو فون کیا کہ وہ خان صاحب ساتھ سولڈریٹی دکھانے کیلئے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دینے کو تیار ہیں‘جس کا اعلان وہ اپنے 2014ء دھرنے میں کرسکتے ہیں۔ ان کی یہ فون کال ٹریس ہوئی۔اُس وقت آفتاب سلطان ڈی جی آئی بی تھے۔ انہوں نے انہیں واپس بلایا۔ ٹیپ سنائی اور سمجھایا اور واپس امریکہ بھیج دیا۔
شیخ صاحب کے اندر ایک بے چین روح تھی جو انہیں ٹکنے نہیں دیتی تھی۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ ان کے پاس بہت آئیڈیاز تھے۔ وہ عوامی بندے تھے جو پولیس کو سیدھا کرنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر پولیس والوں کو غلط کاموں پر سزا ملنا شروع ہو جائے تو لوگ جہاں پولیس کی عزت کرنا شروع کر دیں گے وہیں عام لوگوں پر قانون کی دہشت خود بخود بیٹھنا شروع ہو جائے گی اگر پولیس خود اپنے پولیس والوں کو غلط کام کرنے پر نہیں چھوڑتی تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔
شیخ صاحب جہاں رہے انہوں نے پولیس فورس ساتھ کبھی رعایت نہ کی۔ اگر کسی کی شکایت ملی تو پہلے تفتیش کرائی۔پتا چل جاتا ایس ایچ او یا ڈی ایس پی نے ظلم زیادتی کی ہے تو ایک کال اس افسر کو جاتی دفتر پہنچو اور ایک کال قریبی تھانے کو جاتی کہ ہتھکڑی لے کر پہنچو۔جب انہیں لاہور میں سی سی پی او لگایا گیا تو انہوں نے پہلے دن ہی اپنا کام شروع کر دیا جس پر ان کے خلاف شدید ری ایکشن آنا شروع ہوگیا۔ انہوں نے ہر طرف دشمن بنا لیے۔ اسلام آباد آئے تو میں اور جنید مہار نے کہا :مولا ہتھ ہولا۔ دھیرے چلیں‘ سب کو دشمن بنا رہے ہیں۔ ہنس کر بولے: میرے پاس نوے دن ہیں۔ جو کرنا ہے انہی نوے دنوں میں کرناہے۔ اور تین ماہ میں انہوں نے لاہور کا سین بدلا۔ جو اچھے اہلکار کھڈے لائن تھے انہیں تھانے دیے‘ اعتماد دیا اور کسی کی سفارش ماننے سے انکار کر دیا جس سے ان کی دشمنیاں بڑھتی گئیں۔ وہ کہتے تھے: مجھ پر عمران خان نے بھروسا کیا ہے۔ میں اس کے اعتماد پرپورا اُتروں گا۔لیکن قبضہ گروپس اور سیاستدان اور پولیس افسران کو نقصان ہورہا تھا۔ انہیں وزیراعلیٰ ہاؤس سے ایس ایچ او لگانے کی فہرست دی گئی۔ انکار کر دیا۔ یہاں تک ٹھیک تھا لیکن ایک زمین پر قبضہ ہوا تو شکایت پر ایکشن کرایا تو اس کے پیچھے ایک بڑے صاحب کا رئیل اسٹیٹ والا سمدھی اور لاہور میں اشرافیہ کے کلب کا ایک شیخ نکل آیا۔ وزیراعلیٰ پہلے ہی ناخوش تھا کہ دیہاڑیاں رُک گئی تھیں۔ یوں شیخ صاحب کو اُٹھا کر پرے مار دیا گیا۔ یہاں تک بس نہیں کیا گیا بلکہ ان کو سزا دینے کیلئے ان کی پروموشن نہیں ہونے دی گئی۔ جس پر وہ ڈپریس ہوئے۔اپنے دوست ہی دشمن ہوگئے تھے کہ عمر شیخ کیسے اتنامقبول ہوگیا ۔ عوام کیوں اسے پسند کرنے لگ گئے؟ وہ بھی اب اپنی پاپولرٹی کو انجوائے کرنے لگ گئے تھے۔میں ان سے پاپولرٹی کے نشے سے بچنے کی باتیں کرتا رہتا۔ہنس کر کہتے: سوہنڑا سب پھڑے جان گے۔ انہیں بڑا دھچکا اُس وقت لگا جب انہیں سزا دینے کیلئے ان افسران کی لسٹ میں ان کا نام ڈال دیا گیا جو اسٹیبلشمنٹ کے بقول نالائق تھے اور انہیں جبری ریٹائرڈ کر دیا جائے۔ اس پر دو تین اجلاس بھی ہوئے۔
میں ان کا نام اس فہرست میں دیکھ کر حیران ہوا کہ عمر شیخ سب کچھ ہوسکتا تھا لیکن نالائق نہیں۔ جتنا ایکٹو‘ ذہین اور سروس کو شوق اور جارحانہ انداز میں انہیں کرتے دیکھا کبھی کسی کو نہ دیکھا تھا۔ جنید مہار اورمیں گھنٹوں شیخ صاحب کی ذہانت بھری گفتگو سنتے تھے۔ ان کے پاس اس ملک اور پولیس کے لیے بہت آئیڈیاز تھے۔ جب بھی ملے ان کے پاس ایسے شاندار آئیڈیاز ہوتے کہ بندہ واہ واہ کر اُٹھے۔لیکن ان کی صلاحتیوں سے پورا فائدہ نہ اٹھایا گیا۔ الٹا ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی گئیں۔ وہ پھر بھی ڈٹے رہے‘ لیکن ان کی جوان بیٹی بختاور کی طویل بیماری نے انہیں اندر سے توڑ دیا تھا۔جب بھی ملتے اپنی بیٹی کی بات کر کے رو پڑتے۔وہ ایک بڑے کھیل کے بڑے کھلاڑی تھے لیکن انہیں وہ میدان نہ ملا جس میں وہ اپنے جوہر دکھا پاتے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد پچھلے ماہ اسلام آباد آئے۔فون پر طے ہوا کہ شام کو ملتے ہیں۔شام کو مجھے موٹر وے سے فون کیا: سوہنڑا لاہور واپس جارہا ہوں۔بختاور گھر اکیلی ہے۔پھر کبھی سہی۔ اکثر اللہ کا شکر ادا کرتے کہ وہ خان پور کے اس شیخ خاندان سے اس عہدے تک پہنچے تھے جہاں بچوں کو پڑھانے کا رواج نہ تھا۔پہلا شیخ بچہ سکول گیا‘یونیورسٹی گیا۔افسر بنا اور آج واپس اسی خان پور کے ایک دوردراز اداس قبرستان میں جا سویا ہے جس کے قصبے سے برسوں پہلے زندگی کا مختصر لیکن غیرمعمولی سفر شروع کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر