یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فواد یا شیخ رشید کو آنسو بہاتا یا روتا دیکھ کر مجھے کوئی تسکین نہیں ہوتی۔ میں مکافات پر یقین نہیں رکھتا۔ میں اِن پر کوئی انسانی ضابطہ لاگو کر کے کوئی عظیم الشان انسانیت پسند ہونے کا مظاہرہ بھی نہیں کرنا چاہتا۔ میں اِن کا موازنہ زرداری اور مریم کے جیل جانے سے بھی نہیں کر سکتا۔
پھر مجھے کیا تکلیف ہے؟ تھوڑا مزہ لے لینے میں کیا ہرج ہے؟ ان خبیثوں کو مار پڑے گی، ذلیل و رسوا ہوں گے، دھکے کھائیں گے، روئیں گے تو کیا اچھا نہیں ہو گا، آخر انھوں نے بھی تو فلاں فلاں کو تنگ کیا؟ ان گھٹیا لوگوں کو سزا ملنے کی خوشی منانے میں کیا تکلیف ہے؟
آپ منائیں یہ پست خوشی۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ معاشرے کو غیر انسانی بنانے کے عمل کا جزو ہے۔ یہ کوئی مکافات نہیں، یہ کوئی انتقام اور بدلہ نہیں، یہ غریبوں اور مظلوموں کی بددعا بھی نہیں۔ یہ محض dehumanization کی اگلی قسط ہے۔
ہماری عدالتیں ہیں ہی اس لیے۔ ہماری پولیس بھی اسی مقصد کے لیے ہے۔ ہمارے فرقے اور پارٹیاں، عہدے اور رتبے، حتیٰ کہ رشتے بھی اسی لیے ہیں۔ ہم نے ’’عدالتوں میں گھسیٹنا‘‘ اور ’’تھانے کے چکر لگوانا‘‘ جیسے محاورے نہیں سنے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ عدالتوں میں فیصلے ہوتے ہیں اور پولیس اہلکار اُن فیصلوں پر عمل کرواتے ہیں؟ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو خود کو خود ہی داد دے لیں۔
یاد رکھنا چاہیے کہ اگر شیخ رشید اور فواد اور دیگر کے ساتھ درست اور جائز سلوک ہو رہا ہے تو آپ کے ساتھ تھانے کچہری میں جو سلوک ہوتا ہے آپ دراصل اس کی توثیق کر رہے ہیں۔ پھر بھٹو بھی ٹھیک قتل ہوا تھا، پھر بے نظیر بھی ٹھیک قتل ہوئی تھی۔ آخر ایک طبقہ یا گروہ اُسے نفرت کی نظر سے تو دیکھتا ہی تھا۔ آپ کی نفرت اور ہنسی اُن کی بدکاریوں کو جائز بناتی ہے۔
کمینی خوشیاں آپ کو دوسروں سے مزید خوف زدہ کرتی ہیں، کہ ہماری باری آ گئی تو وہ بھی یہی کچھ نہ کرے۔ فواد چودھری ایک بُرا اور خبیث انسان ہے، شہباز گِل سے زیادہ گھٹیا شخص کبھی اِس ملک میں نہیں آیا، شیخ رشید مکروہ اور ناقابلِ برداشت ہے۔ لیکن اگر کوئی قانون اُنھیں سزائے موت بھی سنا دے تب بھی آپ اُن سے انسان ہونے کا حق نہیں چھین سکتے۔ اُنھیں پھانسی سے پہلے کھانا دینا ہو گا۔ اُس کا مثلہ نہیں کریں گے۔
آپ مکروہ پن اور نفرت دیکھ دیکھ کر اُسے انٹرنلائز کر لیتے ہیں۔ آپ ڈی ہیومینائز یا غیر انسانی بن جاتے ہیں۔ جب نظریہ، پارٹی، گروہ، یا نقطۂ نظر انسانوں کو مارنے لگے تو اُسے انسان نہیں رہنے دیتے۔ اِن کمینی خوشیوں کے باعث آپ بھی انسان نہیں رہیں گے، بشرطیکہ پہلے ہوں۔
(میں کوئی دانشور یا فیس بکی موٹیویشنل سپیکر نہیں بننا چاہتا، مگر جو بات سمجھ آئی وہی لکھی)
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر