رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دفعہ گائوں آنے میں کچھ دیر ہوگئی۔ اگست میں آیا تھا اور پھر اسلام آباد میں حالات اتنی تیزی سے بدلنے لگے کہ وہاں سے نکلنا مشکل ہوگیا کیونکہ پروفیشنل ڈیوٹی دینی تھی۔ ویسے بھی اسلام آباد سے لیہ آنا پورا ایک پروجیکٹ ہے۔ کوئی ایک سڑک بھی ٹھیک نہیں‘ چاہے وہ ایم ایم روڈ ہو یا پھر شور کوٹ موٹر وے سے اُتر کر گڑھ مہاراجہ‘ چوبارہ یا چوک اعظم کے راستے لیہ تک پہنچنے والی‘ سب سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اب میں نے اس کا ایک ہی حل نکالا ہے کہ اسلام آباد سے پہلے ملتان اور پھر وہاں سے واپس ڈیڑھ سو کلومیٹر لیہ کی طرف سفر۔ یوں اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا سفر آرام دہ گزرے یا آپ کی گاڑی کسی گڑھے میں نہ گرے تو سو‘ ڈیڑھ سو کلومیٹر کا سفر آپ کو زائد کرنا پڑتا ہے۔
شہباز شریف دس سال وزیراعلیٰ رہے لیکن ایم ایم روڈ پر ایک روپیہ خرچ نہ ہوا۔ ان کے بعد عثمان بزدار آئے‘ انہوں نے بڑا کرتب کیا کہ اس روڈ کو پنجاب سے نکال کر مرکزی حکومت کو دے دیا۔ نہ ہوسی ڈھولا نہ پوسی رولا۔ مراد سعیدوفاقی وزیر تھے‘ میرے کالموں میں اس سڑک کا رونا پڑھ کر انہیں ترس آیا‘ مجھے فون کرکے کہا کہ موٹر وے بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر کہا: وہ نہیں بن سکتی‘ پیسے نہیں ہیں‘ چلیں ون وے بنا دیتے ہیں۔ پھر کہا: اس کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ آخر ان کی مہربانی انہوں نے اٹھارہ ارب روپے کا بجٹ دیا‘ پانچ سو کلو میڑ طویل سڑک کے لیے جو کراچی سے کابل تک کام آتی ہے۔ اب ان اٹھارہ ارب سے اس طویل سڑک پر مٹی ہی ڈالی جا سکتی ہے۔ اس اٹھارہ ارب میں سے جو افسران اور ٹھیکیدار بانٹ کر کھائیں گے‘ وہ الگ ہے۔ مراد سعید کا شکریہ کہ چلیں اٹھارہ ارب رکھوا دیے‘ ورنہ اس نے بھی سوچا ہوگا کہ جس خطے سے پچاس ایم این ایز اور ایک سو ایم پی ایز کو ایم ایم روڈ کی فکر نہیں‘ جہاں روز لوگ مرتے ہیں‘ تو میں کیوں ان کے لیے اربوں روپے منظور کروا کر دوں۔
لوگ اس علاقے کی اس سڑک پر مرتے ہیں اور ووٹ بھی انہیں ڈالتے ہیں۔ جب پی ٹی آئی 16 جولائی کو میانوالی‘ بھکر‘ لیہ‘ مظفر گڑھ اور ڈیرہ سے سب سیٹیں جیت گئی تھی تو ایک ٹی وی چینل پر میرے صحافی دوستوں نے جما کر میری بے عزتی کی کہ تم ایسے ہی رولا ڈالے رکھتے ہو کہ سرائیکی علاقوں کے لوگ رُل گئے یا ایم ایم روڈ قاتل روڈ بن چکی ہے۔ لوگوں کا مسئلہ غربت یا ترقی یا سڑک نہیں۔ چار سال عثمان بزدار کی حکومت رہی‘ انہوں نے وہ سڑک بنوانے کے بجائے وفاقی حکومت کو ٹرانسفر کر دی کہ تم بنائو‘ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ کھاریاں اسلام آباد موٹر وے کے ستر‘ اسی کلومیٹر کے لیے ایک سو ارب نکال کر دے دیے گئے لیکن پانچ سو کلومیٹر ایم ایم روڈ کے لیے صرف اٹھارہ ارب کہ اس ٹوٹی پھوٹی سڑک پر مٹی ڈال کر اوپر تارکول ڈال دو۔ اس سڑک پر کنٹینرز‘ ٹرک چلتے ہیں۔ لوگ پھر بھی خوش ہیں کہ چلیں مٹی تو ڈال دی۔ بھکر‘ میانوالی‘ لیہ‘ مظفرگڑھ اورڈیرہ سے ملتان تک ایسے قناعت پسند لاکھوں لوگ کہاں ملیں گے۔ اب کی دفعہ الیکشن میں پھر پی ٹی آئی ان علاقوں سے جیتے گی۔ اس کا اندازہ مجھے پچھلے ہفتے ہوا جب ایک کزن کی بیٹی کی شادی میں شریک ہوا۔ یہ شادی جیسل نشیب کے علاقے میں دریائے سندھ کے قریب تھی۔ وہاں بڑی تعداد میں عام لوگ تھے‘ جن میں زیادہ تعداد کسانوں کی تھی۔ انہیں مہنگائی مار گئی ہے۔ جب وہاں ٹیبل پر بیٹھے تو بہت سے لوگ اُٹھ کر وہیں آگئے تاکہ وہ مجھ سے سیاست پر گفتگو کر سکیں۔ عموماً میں گفتگو سے گریز کرتا ہوں کہ آپ کی چند منٹس کی گفتگو سے کسی کی رائے نہیں بدلتی اور نہ مجھے زعم ہے کہ میری باتیں آگ لگا دیتی ہیں اور ایک لمحے میں لوگ کپڑے پھاڑ کر انقلاب لانے نکل پڑتے ہیں۔ اس لیے کوشش ہوتی ہے کہ ایسے مواقع پر لوگوں کی باتیں سنی جائیں۔ ان کے خیالات جانچے جائیں کیونکہ وہ عام لوگ ہی ووٹ ڈالنے جاتے ہیں۔ وہی فیصلہ کرتے ہیں لیکن اگر میں زیادہ چپ رہوں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید مغرور ہے کہ بات نہیں کررہا لہٰذا اپنے لوگوں میں بیٹھ کر کچھ نہ کچھ ”دانشوری‘‘ جھاڑنی پڑتی ہے تاکہ بھرم قائم رہے۔
پچھلے سال جو لوگ عمران خان کو برا بھلا کہتے تھے وہ اب شہباز شریف پر ناراض تھے۔ وہاں بیٹھے سو سے زائد لوگوں میں اکثریت عمران خان کی حامی تھی۔ حامی بھی اس حد تک کہ وہ اگلے الیکشن میں صرف اس امیدوار کو ووٹ دیں گے جس کے پاس پی ٹی آئی کی ٹکٹ ہوگی۔ ہمارے علاقوں میں جو پہلے سرداروں‘ ملکوں‘ خانوں کا رعب‘ دبدبہ اور جاہ و جلال تھا‘ وہ اب نظر نہیں آرہا۔ عام لوگ جو کبھی ان خانوں‘ سرداروں اور ملکوں کے رعب میں رہتے تھے‘ وہ اس بات پر قہقہے لگا رہے تھے کہ عمران خان نے ان سب کو اپنا چوکیدار بنا لیا ہے۔ وہ مذاق اڑا رہے تھے کہ یہ خان اور ملک جو اپنے اپنے علاقوں میں دہشت کی علامت سمجھے جاتے ہیں‘ لینڈ کروزر پر بندوق بردار محافظوں کے ساتھ چلتے ہیں‘ وہ اب خان کی چوکیداری پر زماں پارک کے باہر ڈنڈے پکڑ کر فوٹو کھنچوا رہے ہیں تاکہ خان کو کل کلاں تصویریں دکھا کر پارٹی ٹکٹ لے سکیں۔ چند لوگوں نے زمان پارک کے باہر فٹ پاتھ پر لیہ کے ایک بڑے سیاسی لیڈر کو سوتے دیکھا تو بڑا انجوائے کیا۔ سب نے کہا کہ اس دفعہ ووٹ خان کو دیں گے‘ لہٰذا یہ سب سردار‘ نواب‘ خان‘ ملک بھاگ کر زمان پارک گئے ہیں کیونکہ خان نے کہا ہے کہ جو زمان پارک کے باہر ڈنڈا لے کر نظر نہ آیا‘ اسے ٹکٹ نہیں ملے گا۔ یوں اپنے علاقے میں ہیبت‘ رعب و دبدبہ قائم و دائم رکھنے کے لیے وہ ڈنڈے پکڑ کر زمان پارک کھڑے ہیں۔ یہ عام کسان جنہیں یہ سردار‘ خان اور ملک کچھ نہیں سمجھتے تھے‘ وہ شادی میں بیٹھے مزے لے رہے تھے کہ دیکھا عمران خان نے کیسے ان سب کو سیدھا کر دیا ہے۔ کیسے ان سرداروں اور خانوں اور ملکوں کو ٹکٹ کا لالچ کہاں تک لے گیا ہے۔ کچھ سنجیدگی سے بولے: ہمارے علاقے کے سرداروں‘ خانوں اور ملکوں کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ ڈنڈے پکڑ کر خان کے گھر پہرہ دیں‘ خصوصاً جس سردار کی تصویر فٹ پاتھ پر سوئے نظر آئی‘ اس پر یہ لوگ ٹھٹھا لگا رہے تھے۔ ان کے لیے انہونی تھی کہ ہمارے علاقے کے بڑے لوگ لاہور جا کر کتنے چھوٹے ہوجاتے ہیں۔ اپنے علاقوں میں عزت کما کر الیکشن جیتنے کے بجائے یہ عمران خان کے محتاج ہیں۔ ان دیہاتی علاقوں میں اب عمران خان کی عزت زیادہ ہے جو کبھی ان نشیبی علاقوں میں نہیں گیا‘ لیکن ان سرداروں‘ نوابوں‘ خانوں یا ملکوں کی کوئی عزت یا ساکھ نہیں بچی۔
بہرحال یہ طے ہے کہ پہلے خان کا ووٹ بینک اگر شہروں میں تھا تو اب یہ دیہات میں بھی پہنچ چکا ہے۔ موبائل فون‘ ٹک ٹاک‘ وٹس ایپ‘ یوٹیوب‘ فیس بک‘ ٹویٹر سب کچھ اب وہاں دیکھا‘ سنا اور استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ سب کسان اب باشعور ہو چکے ہیں۔ اپنے خانوں‘ ملکوں اور سرداروں کو زمان پارک کے باہر ڈنڈے پکڑ کر چوکیداری کرتے دیکھ کر ان کا رہا سہا دبدبہ اور رعب بھی دور ہو گیا ہے۔ ویسے اندازہ کریں جو سردار‘ خان‘ ملک اپنے اپنے علاقوں میں سنبھالے نہیں جاتے‘ تھانہ کچہری چلاتے ہیں‘ اپنی اپنی ریاستیں چلاتے ہیں‘ وہ اب ڈنڈے پکڑے چوکیداری کررہے ہیں۔ اپنے علاقے کے ان سرداروں اور رعب داب والے زمینداروں کو ٹکٹ کی خاطر زمان پارک کے باہر چوکیدار بنے دیکھ کر گوتم بدھ کی بات یاد آئی۔ کسی نے پوچھا کہ گُرو انسان کے سب سے بڑے دشمن کون ہیں؟ گُرو نے جواب دیا: انسان کی سب سے بڑی دشمن اس کی خواہشات ہیں۔
شہباز شریف دس سال وزیراعلیٰ رہے لیکن ایم ایم روڈ پر ایک روپیہ خرچ نہ ہوا۔ ان کے بعد عثمان بزدار آئے‘ انہوں نے بڑا کرتب کیا کہ اس روڈ کو پنجاب سے نکال کر مرکزی حکومت کو دے دیا۔ نہ ہوسی ڈھولا نہ پوسی رولا۔ مراد سعیدوفاقی وزیر تھے‘ میرے کالموں میں اس سڑک کا رونا پڑھ کر انہیں ترس آیا‘ مجھے فون کرکے کہا کہ موٹر وے بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر کہا: وہ نہیں بن سکتی‘ پیسے نہیں ہیں‘ چلیں ون وے بنا دیتے ہیں۔ پھر کہا: اس کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ آخر ان کی مہربانی انہوں نے اٹھارہ ارب روپے کا بجٹ دیا‘ پانچ سو کلو میڑ طویل سڑک کے لیے جو کراچی سے کابل تک کام آتی ہے۔ اب ان اٹھارہ ارب سے اس طویل سڑک پر مٹی ہی ڈالی جا سکتی ہے۔ اس اٹھارہ ارب میں سے جو افسران اور ٹھیکیدار بانٹ کر کھائیں گے‘ وہ الگ ہے۔ مراد سعید کا شکریہ کہ چلیں اٹھارہ ارب رکھوا دیے‘ ورنہ اس نے بھی سوچا ہوگا کہ جس خطے سے پچاس ایم این ایز اور ایک سو ایم پی ایز کو ایم ایم روڈ کی فکر نہیں‘ جہاں روز لوگ مرتے ہیں‘ تو میں کیوں ان کے لیے اربوں روپے منظور کروا کر دوں۔
لوگ اس علاقے کی اس سڑک پر مرتے ہیں اور ووٹ بھی انہیں ڈالتے ہیں۔ جب پی ٹی آئی 16 جولائی کو میانوالی‘ بھکر‘ لیہ‘ مظفر گڑھ اور ڈیرہ سے سب سیٹیں جیت گئی تھی تو ایک ٹی وی چینل پر میرے صحافی دوستوں نے جما کر میری بے عزتی کی کہ تم ایسے ہی رولا ڈالے رکھتے ہو کہ سرائیکی علاقوں کے لوگ رُل گئے یا ایم ایم روڈ قاتل روڈ بن چکی ہے۔ لوگوں کا مسئلہ غربت یا ترقی یا سڑک نہیں۔ چار سال عثمان بزدار کی حکومت رہی‘ انہوں نے وہ سڑک بنوانے کے بجائے وفاقی حکومت کو ٹرانسفر کر دی کہ تم بنائو‘ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ کھاریاں اسلام آباد موٹر وے کے ستر‘ اسی کلومیٹر کے لیے ایک سو ارب نکال کر دے دیے گئے لیکن پانچ سو کلومیٹر ایم ایم روڈ کے لیے صرف اٹھارہ ارب کہ اس ٹوٹی پھوٹی سڑک پر مٹی ڈال کر اوپر تارکول ڈال دو۔ اس سڑک پر کنٹینرز‘ ٹرک چلتے ہیں۔ لوگ پھر بھی خوش ہیں کہ چلیں مٹی تو ڈال دی۔ بھکر‘ میانوالی‘ لیہ‘ مظفرگڑھ اورڈیرہ سے ملتان تک ایسے قناعت پسند لاکھوں لوگ کہاں ملیں گے۔ اب کی دفعہ الیکشن میں پھر پی ٹی آئی ان علاقوں سے جیتے گی۔ اس کا اندازہ مجھے پچھلے ہفتے ہوا جب ایک کزن کی بیٹی کی شادی میں شریک ہوا۔ یہ شادی جیسل نشیب کے علاقے میں دریائے سندھ کے قریب تھی۔ وہاں بڑی تعداد میں عام لوگ تھے‘ جن میں زیادہ تعداد کسانوں کی تھی۔ انہیں مہنگائی مار گئی ہے۔ جب وہاں ٹیبل پر بیٹھے تو بہت سے لوگ اُٹھ کر وہیں آگئے تاکہ وہ مجھ سے سیاست پر گفتگو کر سکیں۔ عموماً میں گفتگو سے گریز کرتا ہوں کہ آپ کی چند منٹس کی گفتگو سے کسی کی رائے نہیں بدلتی اور نہ مجھے زعم ہے کہ میری باتیں آگ لگا دیتی ہیں اور ایک لمحے میں لوگ کپڑے پھاڑ کر انقلاب لانے نکل پڑتے ہیں۔ اس لیے کوشش ہوتی ہے کہ ایسے مواقع پر لوگوں کی باتیں سنی جائیں۔ ان کے خیالات جانچے جائیں کیونکہ وہ عام لوگ ہی ووٹ ڈالنے جاتے ہیں۔ وہی فیصلہ کرتے ہیں لیکن اگر میں زیادہ چپ رہوں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید مغرور ہے کہ بات نہیں کررہا لہٰذا اپنے لوگوں میں بیٹھ کر کچھ نہ کچھ ”دانشوری‘‘ جھاڑنی پڑتی ہے تاکہ بھرم قائم رہے۔
پچھلے سال جو لوگ عمران خان کو برا بھلا کہتے تھے وہ اب شہباز شریف پر ناراض تھے۔ وہاں بیٹھے سو سے زائد لوگوں میں اکثریت عمران خان کی حامی تھی۔ حامی بھی اس حد تک کہ وہ اگلے الیکشن میں صرف اس امیدوار کو ووٹ دیں گے جس کے پاس پی ٹی آئی کی ٹکٹ ہوگی۔ ہمارے علاقوں میں جو پہلے سرداروں‘ ملکوں‘ خانوں کا رعب‘ دبدبہ اور جاہ و جلال تھا‘ وہ اب نظر نہیں آرہا۔ عام لوگ جو کبھی ان خانوں‘ سرداروں اور ملکوں کے رعب میں رہتے تھے‘ وہ اس بات پر قہقہے لگا رہے تھے کہ عمران خان نے ان سب کو اپنا چوکیدار بنا لیا ہے۔ وہ مذاق اڑا رہے تھے کہ یہ خان اور ملک جو اپنے اپنے علاقوں میں دہشت کی علامت سمجھے جاتے ہیں‘ لینڈ کروزر پر بندوق بردار محافظوں کے ساتھ چلتے ہیں‘ وہ اب خان کی چوکیداری پر زماں پارک کے باہر ڈنڈے پکڑ کر فوٹو کھنچوا رہے ہیں تاکہ خان کو کل کلاں تصویریں دکھا کر پارٹی ٹکٹ لے سکیں۔ چند لوگوں نے زمان پارک کے باہر فٹ پاتھ پر لیہ کے ایک بڑے سیاسی لیڈر کو سوتے دیکھا تو بڑا انجوائے کیا۔ سب نے کہا کہ اس دفعہ ووٹ خان کو دیں گے‘ لہٰذا یہ سب سردار‘ نواب‘ خان‘ ملک بھاگ کر زمان پارک گئے ہیں کیونکہ خان نے کہا ہے کہ جو زمان پارک کے باہر ڈنڈا لے کر نظر نہ آیا‘ اسے ٹکٹ نہیں ملے گا۔ یوں اپنے علاقے میں ہیبت‘ رعب و دبدبہ قائم و دائم رکھنے کے لیے وہ ڈنڈے پکڑ کر زمان پارک کھڑے ہیں۔ یہ عام کسان جنہیں یہ سردار‘ خان اور ملک کچھ نہیں سمجھتے تھے‘ وہ شادی میں بیٹھے مزے لے رہے تھے کہ دیکھا عمران خان نے کیسے ان سب کو سیدھا کر دیا ہے۔ کیسے ان سرداروں اور خانوں اور ملکوں کو ٹکٹ کا لالچ کہاں تک لے گیا ہے۔ کچھ سنجیدگی سے بولے: ہمارے علاقے کے سرداروں‘ خانوں اور ملکوں کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ ڈنڈے پکڑ کر خان کے گھر پہرہ دیں‘ خصوصاً جس سردار کی تصویر فٹ پاتھ پر سوئے نظر آئی‘ اس پر یہ لوگ ٹھٹھا لگا رہے تھے۔ ان کے لیے انہونی تھی کہ ہمارے علاقے کے بڑے لوگ لاہور جا کر کتنے چھوٹے ہوجاتے ہیں۔ اپنے علاقوں میں عزت کما کر الیکشن جیتنے کے بجائے یہ عمران خان کے محتاج ہیں۔ ان دیہاتی علاقوں میں اب عمران خان کی عزت زیادہ ہے جو کبھی ان نشیبی علاقوں میں نہیں گیا‘ لیکن ان سرداروں‘ نوابوں‘ خانوں یا ملکوں کی کوئی عزت یا ساکھ نہیں بچی۔
بہرحال یہ طے ہے کہ پہلے خان کا ووٹ بینک اگر شہروں میں تھا تو اب یہ دیہات میں بھی پہنچ چکا ہے۔ موبائل فون‘ ٹک ٹاک‘ وٹس ایپ‘ یوٹیوب‘ فیس بک‘ ٹویٹر سب کچھ اب وہاں دیکھا‘ سنا اور استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ سب کسان اب باشعور ہو چکے ہیں۔ اپنے خانوں‘ ملکوں اور سرداروں کو زمان پارک کے باہر ڈنڈے پکڑ کر چوکیداری کرتے دیکھ کر ان کا رہا سہا دبدبہ اور رعب بھی دور ہو گیا ہے۔ ویسے اندازہ کریں جو سردار‘ خان‘ ملک اپنے اپنے علاقوں میں سنبھالے نہیں جاتے‘ تھانہ کچہری چلاتے ہیں‘ اپنی اپنی ریاستیں چلاتے ہیں‘ وہ اب ڈنڈے پکڑے چوکیداری کررہے ہیں۔ اپنے علاقے کے ان سرداروں اور رعب داب والے زمینداروں کو ٹکٹ کی خاطر زمان پارک کے باہر چوکیدار بنے دیکھ کر گوتم بدھ کی بات یاد آئی۔ کسی نے پوچھا کہ گُرو انسان کے سب سے بڑے دشمن کون ہیں؟ گُرو نے جواب دیا: انسان کی سب سے بڑی دشمن اس کی خواہشات ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر