وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل ( بائیس مارچ ) جنگلات کے تحفظ کا عالمی دن ہے، یہ دن دو ہزار بارہ سے منایا جاتا ہے اور اس کا مقصد یہ آگہی دینا ہے کہ اگر انسان اس کرہِ ارض سے ختم ہو بھی جائیں تو زمین کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن جنگلات ختم ہو جائیں تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ ہم جو پانی پیتے ہیں ، دوا کھاتے ہیں ، گھر بناتے ہیں ، جس کاغذ پر لکھتے ہیں ، جس ہوا میں سانس لیتے ہیں۔ ان سب کا تعلق براہِ راست جنگل کے وجود سے ہی ہے۔ یہ حیاتیاتی رنگارنگی اور زمین کی بقا پانی اور اس کے سبب جنگل کی جڑوں کے طفیل ہے۔ہم جتنی کاربن ڈائی اکسائیڈ پیدا کرتے ہیں اس کا نصف ( چھ سو باسٹھ بلین ٹن ) جنگلات جذب کر لیتے ہیں۔ اگر جنگل نہ ہوں تو فضا اس قدر زہریلی ہو جائے کہ سانس لینا ناممکن ہو جائے۔ہماری طرح اس دنیا کے بھی دو پھیپھڑے ہیں۔ ایک ایمیزون کا جنگل جس کی جڑیں جنوبی امریکا کے سات ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں اور ایک ہے کانگو بیسن کا استوائی جنگل۔اس کی جڑیں بھی سات ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں۔
دونوں جنگلات میں ایسے درخت ، پرندے اور حشرات موجود ہیں جن تک ابھی انسان کی رسائی نہیں۔لیکن جس رفتار سے ہم اپنے ہی ان دونوں پھیپھڑوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔قوی امید ہے کہ بہت سی جنگلی حیات ہماری نگاہوں میں آنے اور دریافت ہونے سے پہلے ہی معدوم ہو چکی ہو گی۔ ہماری غربت ، ماحولیاتی ابتری ، خوراک کی قلت ، پانی کی آلودگی ، سیلاب میں اضافے ، موسموں کے پاگل پن اور بارشوں کی غیرمعمولی کمی بیشی سمیت زندگی کا کون سا شعبہ ہے جس کا تعلق جنگل کے عروج و زوال سے نہ جڑتا ہو۔
یہ جو دوائیں ہم استعمال کرتے ہیں ان کا وجود ان پچاس ہزار سے زائد پودوں اور جڑی بوٹیوں کے سبب ہے جو اپنے کسی نہ کسی طبی فائدے کے لیے جانی گئی ہیں اور جن کے بل پر دوا ساز کمپنیاں سالانہ اربوں ڈالر منافع کما رہی ہیں مگر اپنا ایک فیصد منافع بھی ان جنگلات کے تحفظ پر خرچ کرنے کو تیار نہیں۔جانے ایسی مزید کتنے ہزار جڑی بوٹیاں ان جنگلات میں پوشیدہ ہیں جن کے فوائد و نقصانات کا ابھی ہمیں ادراک تک نہیں۔
جنگلاتی بقا سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی تنظیم ( ایف اے او ) کی سالِ گزشتہ کی رپورٹ کے مطابق کرہِ ارض کا اکتیس فیصد رقبہ جنگلات ( چار اعشاریہ چھ ارب ہیکٹر ) پر مشتمل ہے مگر اب وہ تیزی سے کم ہو رہا ہے۔انیس سو نوے تا دو ہزار بیس کے تین عشروں میں ہم چار سو بیس ملین ہیکٹر جنگلات سے محروم ہو چکے ہیں۔ (ایک ہیکٹر لگ بھگ ڈھائی ایکڑ کے برابر ہے )
جنگلات کی کیا اہمیت ہے ؟ پانی اور خشکی میں بیک وقت رہنے کی صلاحیت رکھنے والے اسی فیصد جانوروں، پچھتر فیصد پرندوں، اڑسٹھ فیصد ممالیہ جانوروں اور ساٹھ فیصد نباتات کی بقا جنگلات کی مرہونِ منت ہے۔ اٹھارہ فیصد جنگلاتی علاقہ بین الاقوامی و ریاستی قوانین کے تحت انسانی مداخلت سے پاک سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ان قوانین کا زیادہ تر نفاذ کاغذ تک ہی محدود ہے۔اس وقت دنیا کا تہتر فیصد جنگلاتی رقبہ سرکار کی ملکیت ہے۔ بائیس فیصد جنگلات نجی ملکیت شمار ہوتے ہیں ( افراد ، برادریاں ، قبائل وغیرہ)
چار ارب سے زائد انسان کسی بھی جنگلاتی علاقے سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ ان میں سے ڈھائی ارب انسان روزمرہ ضروریات میں استعمال ہونے والا ایندھن جنگل سے ہی حاصل کرتے ہیں۔ ساڑھے تین کروڑ افراد کے روزگار کا براہ راست تعلق جنگل سے ہے۔ جنگل سالانہ عالمی پیداوار میں ڈیڑھ سے دو ٹریلین ڈالر سے زائد آمدنی ڈالتا ہے۔ ویسے تو ہر ملک کا بائیس تا پچیس فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ مگر اندھا دھند کٹائی ، ترقی اور زراعت کے نام پر صفائی اور آتشزدگی کے سبب ایک سو تیس ممالک میں جنگلاتی رقبہ پانچ فیصد سے بھی کم بچا ہے۔چنانچہ موسم بھی پگلا گئے ہیں اور اس کے سبب ہونے والی ماحولیاتی تباہی قدرت کے غصے اور ردِعمل کی واضح مثال ہے۔
پاکستان میں سرکار کا دعویٰ ہے کہ جنگلاتی رقبہ چار سے پانچ فیصد کے درمیان ہے۔ جب کہ بین الاقوامی اداروں کا تخمینہ ہے کہ درحقیقت پاکستان کا جنگلات سے ڈھکا رقبہ ڈھائی فیصد سے زائد نہیں۔ایسا نہیں کہ حکومتیں اور نجی ادارے جنگلات کی کمی سے پریشان نہیں لیکن جنگلات کے بچاﺅ اور نئے جنگلات کو ترقی دینے کی رفتار نقصان سے کئی گنا کم ہے۔ ایک مصنوعی جنگل اگر آج لگانا شروع کیا جائے تو بھی اسے بلوغت کے لیے چوتھائی صدی درکار ہے۔ مثلاً گزشتہ حکومت نے ایک ملین درختوں کی گرین سونامی کا جو منصوبہ شروع کیا اگر وہ سو فیصد بھی کامیاب ہو تب بھی اس کے نتائج کم ازکم ایک عشرے بعد ہی برآمد ہونے شروع ہوں گے۔
اور ہم کتنی آسانی سے سو سو برس پرانے درخت بھی کسی بھی کمتر سے جواز یا بلاجواز اکھاڑ پھینکتے ہیں اور ہر سال شجرکاری کی مہم منا کے فرض کر لیتے ہیں کہ نقصان کی بھرپائی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نام نہاد بھرپائی بھی تباہی کے مقابلے میں ایک فیصد سے زائد ازالہ نہیں کر پاتی۔ویسے بھی انسان نے جو جنگل خود لگائے ہیں وہ قدرتی جنگلات کے محض سات فیصد رقبے کے برابر ہیں۔
اس وقت شجرکاری کے لیے فیتہ کاٹ تصاویر کچھوانے سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ جنگلاتی تحفظ کے قوانین کو جابرانہ انداز میں نافذ کیا جائے۔پھر آپ کو جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے الگ سے قوانین کے نفاذ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اس سلسلے میں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ بھوٹان سے رہنمائی لی جا سکتی ہے کہ انھوں نے اپنی نباتاتی و حیاتیاتی دنیا کو اپنے ہی جیسے انسانوں کی دستبرد اور ہوس سے کیسے اب تک محفوظ کر رکھا ہے۔ بلاجواز درخت کاٹنے پر دفعہ تین سو دو یا دہشت گردی کی دفعات عائد کرنا کچھ زیادہ ہو جائے گا۔ لیکن پچاس برس سے اوپر کا درخت بلا وجہ کاٹنے پر اقدامِ قتل کا پرچہ تو کٹ ہی سکتا ہے۔اس سے کم پر ہم شاید نہیں سدھر پائیں گے۔
بچپن سے ہم سب ایک کہاوت سنتے آئے ہیں۔ اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مارنا۔ اب جا کے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا مطلب ہے کسی درخت پر کلہاڑا چلانا دراصل اپنی اور اگلی نسلوں کے پاﺅں کاٹنے کے برابر ہے۔ کل ہو سکے تو اپنے آس پاس ایک درخت ضرور لگا دیجیے گا۔ نہیں لگا سکتے تو دس پیاسے درختوں کو پانی ضرور پلا دیجیے گا۔ ایک درخت ہمارے ساتھ ساتھ کئی پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کو بھی پالتا ہے۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر