وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرہ مئی 1991 کی سہہ پہر ایک انتیس سالہ ہونق بش ہاؤس کے سنٹرل بلاک کی پانچویں منزل پر واقع اردو سروس کے چوبی کابکوں میں سے کسی ایک میں داخل ہوا۔ کسی نے گھاس نہیں ڈالی کیونکہ سب نصف گھنٹے بعد نشر ہونے والے سیربین کی تیاری میں مصروفیائے ہوئے تھے۔
اس دن کے سیربین پروڈیوسر علی احمد خان تھے۔ انھوں نے مجھے کابک کے عین وسط میں کھڑے دیکھا تو پوچھا ’کیا آپ ہیں وہ نئے رنگروٹ؟‘ میں نے کہا ’جی جی۔‘
کہنے لگے پہلے دن ہی مشہور ہونا چاہتے ہو تو اس ڈسپیچ کا ترجمہ کر کے سٹوڈیو آ جاؤ۔
میری کسی آں اوں سے پہلے ہی انھوں نے ایک تجزیاتی مراسلہ تھما دیا جسے بی بی سی کی زبان میں ٹاک کہتے ہیں۔ یوں میں بقول خان صاحب پہلے دن ہی ان کی وجہ سے مشہور ہوگیا۔ اور خان صاحب نے شفٹ ختم ہونے کے بعد مجھے بطور انعام بش ہاؤس کے پیچھے بہنے والے دریاِ ٹیمز کے کنارے کنارے دور تلک چلوایا۔
اگلی صبح دس بجے ہی ایک بار پھر مشہور ہونے کی لالچ میں بش ہاؤس پہنچ گیا حالانکہ ابھی میرا نام ہفتہ وار شفٹ کی شیٹ میں بھی نہیں آیا تھا۔
کابک میں اکیلا بیٹھا اخبار الٹ پلٹ کر رہا تھا کہ ایک سانولے سے صاحب اندر آئے۔
’کیا کر رہے ہو؟‘
میں نے پوچھا ’میں؟‘
کہنے لگے ’ہاں تم ہی۔ کیا کر رہے ہو یہاں بیٹھے۔ کوئی کام دھام نہیں ہے؟‘ میں نے کہا ’مجھے ابھی کوئی ذمہ داری نہیں سونپی گئی۔‘ کہنے لگے ’اتنے بھاری بھاری الفاظ کہاں سے سیکھ لیے؟ چلو آؤ میں تمھیں کسی کام پر لگاؤں۔‘ اور میں ان کے پیچھے ایک میمنے کی طرح چل پڑا۔ آواز سے تو میں نے ان صاحب کو پہچان لیا تھا۔ مگر یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی ہیں۔
انھوں نے مجھے اپنے کیبن میں لے جا کے بٹھا دیا۔ کہنے لگے ’تم نے پروڈیوسر کے لیے تحریری امتحان اچھا دیا تھا۔آواز تمہاری فی الحال براڈ کاسٹنگ کے لیے اتنی موزوں نہیں۔ اب آواز پر کام کریں گے۔ باقی نالج والج ٹھیک ہے۔ کل سے تم میرے ساتھ ہی رہنا اور جو جو میں کرتا رہوں فی الحال اسے دیکھتے رہنا۔ باقی بعد میں دیکھیں گے۔ اب تم جاؤ اور دفتر سے نکل کے گھومو پھرو ، لندن دیکھو۔‘
یہ تھی میری راشد اشرف سے پہلی ملاقات۔ تب راشد صاحب حالاتِ حاضرہ کے ہفتہ وار میگزین ’میزان‘ کے پروڈیوسر تھے۔ میزان میں کوئی ایک موضوع لے کے اس کا مکمل پوسٹ مارٹم کیا جاتا تھا۔
مقبولیت کے اعتبار سے سیربین کے بعد اردو سروس کا دوسرا فلیگ شپ پروگرام میزان ہی تھا۔ اسے راشد صاحب سے پہلے وقار احمد پروڈیوس کرتے تھے۔ خطوط کی تعداد سے اندازہ ہوتا تھا کہ میزان ان سامعین میں سب سے زیادہ مقبول تھا جنھیں بین الاقوامی سیاست سے دلچسپی تھی یا جو انڈیا اور پاکستان میں آئی سی ایس یا سی ایس ایس جیسے امتحانات کی تیاری کرتے تھے۔
اگلے ہفتے شفٹ روٹا میں میرا نام بھی شامل ہو گیا اور سیربین میں ایک آدھ مراسلہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ راشد صاحب کا اسسٹنٹ ہوگیا۔
میزان کی تیاری کے لیے ہر ہفتے دو دن ملتے تھے۔ موضوع کے اعتبار سے ماہرین سے انٹرویو کے لیے رابطہ کرنا، سکرپٹ کے لیے معلوماتی مضامین، شذرے، اخباری تراشے جمع کرنا اور ضرورت پڑنے پر بی بی سی آرکائیوز سے صوتی مواد اکھٹا کرنا، ریکارڈنگ سپول کی ٹیپ ایڈیٹنگ میں انگلیاں بچاتے ہوئے بلیڈ کا استعمال، سٹوڈیو میں مکسنگ، وائس اوور وغیرہ وغیرہ۔
کوئی ایک ماہ تک یہ ’گدھا پچیسی‘ کروانے کے بعد ایک دن راشد صاحب نے میرے سر پے بم پھوڑ دیا۔ ’میاں اگلے ہفتے سے میزان تم پروڈیوس کرو گے کیونکہ میں کسی اور سیریز پر کام کر رہا ہوں۔ کہیں اٹک جاؤ تو پوچھ لینا مگر پروڈیوس تم ہی کرو گے۔‘
مجھ پر گویا فالج گر گیا۔ الجزائر میں اسی ہفتے انتخابات ہوئے تھے۔ ان میں اسلامک فرنٹ نے غیرمعمولی کامیابی حاصل کی تھی۔ راشد صاحب نے کہا ’اگر اس موضوع پر میزان کر سکو تو اچھا رہے گا۔‘ میری حالت یہ تھی جیسے کسی ظالم آدمی نے برفیلی جھیل میں تیراکی سکھائے بغیر دھکا دے دیا۔
میزان منگل کو نشر ہوتا تھا۔ مگر مارے دہشت کے میں اتوار کو ہی دفتر آ گیا اور اپنی سمجھ کے حساب سے تیاری شروع کر دی۔ اگلے دن شام تک جیسے کیسے جو پروگرام تیار کیا وہ راشد صاحب کو سنوایا۔ دھیان سے سننے کے بعد راشد صاحب نے ریکارڈنگ مشین سے سپول اتارا اور اسے کچرے کے ڈبے میں ڈالتے ہوئے بولے ’دوبارہ بناؤ مزا نہیں آیا۔‘
چونکہ اگلے دن سہہ پہر کو میزان نشر ہونا تھا۔ لہذا گھر جانے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ وہ پوری شام، پھر رات اور اگلے دن دوپہر بارہ بجے تک انٹرویوز پھر سے ایڈٹ کیے، دو سکرپٹ لکھ کے پھاڑے اور تیسرے کے بارے میں بھی یقین نہیں تھا کہ کیسا ہے۔ آنکھیں لال، منھ پے نحوست، ہر آنے جانے والے پوچھ رہا تھا خیریت تو ہے، طبیعت تو ٹھیک ہے، گھر نہیں گئے کیا وغیرہ وغیرہ۔
بہرحال ٹرانسمیشن سے آدھ گھنٹے پہلے راشد صاحب نے میزان کا فائنل ورژن سنا اور اس بار ٹیپ اٹھا کے ردی کی بالٹی میں نہیں ڈالی۔ ’پہلے سے قدرے بہتر ہے‘ کہتے ہوئے سٹوڈیو سے باہر نکل گئے۔
کوئی چھ ماہ بعد انھوں نے مجھے سوویت یونین کے خاتمے کی ہاؤ ہو میں سوویت یونین کے ستر سال پر ایک منی سیریز تیار کرنے کا حکم دیا۔ اس کا مطلب میں نے ازخود یہ اخذ کیا کہ ان کے کم از کم معیار پر شاید پورا اتر چکا ہوں۔
کئی برس بعد ایک دن بیٹھے بیٹھے اچانک راشد صاحب نے کہا ’تم نے پہلا میزان اچھا بنایا تھا مگر میں نے اسے یوں کچرے کے ڈبے میں ڈال دیا تاکہ تم کسی خود فریبی کے جال میں نہ پھنس جاؤ۔ میں نے بہت لوگوں کو دیکھا ہے جو باصلاحیت تو ہوتے ہیں مگر محنت نہ کرنے کے سبب مار کھاتے ہیں۔‘
بی بی سی میں مجھے جب ساتواں برس لگا تو راشد صاحب نے کہا ’اب تم نے جو یہاں سیکھنا تھا، سیکھ لیا۔ ہو سکے تو واپس جاؤ اور وہاں اس سیکھے کو آزماؤ۔‘ اس وقت تو ان کی بات میں پوشیدہ رمز میری سمجھ میں نہیں آیا۔ آج پچیس برس بعد اندازہ ہوتا ہے کہ شاید ہی کسی مشفق نے اتنا قیمتی مشورہ دیا ہو۔
راشد صاحب نے بی بی سی اردو کی تاریخ اور مشرقِ وسطی کے بحران پر رجہان ساز ریڈیو سیریز مرتب کیں۔ ہر نئی ٹیکنالوجی کو پہلے خود سیکھنے اور پھر دوسروں کو سکھانے میں وہ ہمیشہ اوروں سے زیادہ پرجوش تھے۔
نوے کی دہائی کے وسط میں ریٹائر ہو گئے مگر اگلے ستائیس، اٹھائیس برس انھوں نے اپنی لکھنے پڑھنے کی مملکت میں ٹھاٹ سے گزارے۔ عامل صحافیوں کے لیے لغت کے کام کو آگے بڑھایا، طبعزادگی کی، باغبانی پر توجہ دی، سماجی میل جول میں کمی نہیں آنے دی۔
راشد صاحب احمد جاوید کے اس قول کی تصویر تھے کہ ’آدمی کو مرتے دم تک زندہ رہنا چاہیے۔‘
زباں دانی، مسودے کی تیاری، لہجہ، پڑھت۔ راشد اشرف، شکیل عادل زادہ اور ضیا محی الدین۔ اپنی خوش قسمتی پر رشک کے لیے کیا یہی املاک کافی نہیں؟
آخری دنوں میں دردانہ انصاری ان کے بارے میں اپ ڈیٹ کرتی رہیں اور پھر ایلیا حیدر نے اطلاع دی کہ راشد صاحب کشور آپا، عینی، منزہ، بشری اور ان سے اگلی نسل کے گھیرے میں نہایت سکون سے غروب ہو گئے۔
فی الحال تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ کسی شاک پروف غبارے میں بند ہوں اور ہر شے ایک معروضی ابدی سچائی نظر آ رہی ہے۔ ایک ایسی حقیقت جس میں نہ دکھ ہے نہ کوئی خوشی۔ ہر حس سپاٹ اور سیدھی۔ جلد یا بدیر یہ غبارہ پھٹے گا ضرور۔ تب پتہ چلے گا کہ کیا نقصان ہوا اور کتنا ہوا۔
یہی سب کچھ تھا جس دم وہ یہاں تھا
چلے جانے پے اس کے جانے کیا نئیں (جون ایلیا)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر