سنا تھا ہاتھوں سے دی ہوئی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں۔ اِدھر کچھ ایسا ماحول بن گیا ہے کہ اگر دانت لگانے کی کوشش کی تو توڑ دیں گے۔ ویسے بھی گرہیں کھولنے کی کیا ضرورت ہے رسی ہی جلا دیتے ہیں۔ عمران خان سے محبت اور عمران خان کا خوف ہمارے ملک کو ایک اندھی گہری کھائی کے دہانے پر لے آئے ہیں۔ کھائی میں جھانکیں تو 75 سال سے ہمارے حکمرانوں کے کالے کرتوت ہمیں واپس گھورتے ہیں۔
حکومت پرانے کشکول کو جھاڑ کر صاف کر کے دوبارہ آئی ایم ایف کے دروازے پر کب سے دستک دے رہی ہے اور اندر سے بابا معاف کرو کا جواب پوری دنیا کو نشر کیا جا رہا ہے۔ کروڑوں لوگ تن و جان کا رشتہ قائم رکھنے کی تگ و دو میں مصروف تھے۔ آدھا لیٹر پٹرول ڈلوا کر بائیک سے کم از کم دفتر پہنچا جا سکے، بچوں کو پرائیویٹ سکول سے نکال کر مدرسے میں ڈال دیا جائے۔
رمضان آنے والا ہے کم از کم مہینے کا راشن ہی اکھٹا کر لیا جائے۔ اگلے مہینے کا کرایہ لیٹ ہونے پر مالک مکان کے سامنے کیا بہانہ کرنا ہے کہ وہ گھر کا سامان نکال کر باہر نہ پھینک دے۔ عوام ابھی اس روزمرہ جہاد میں مصروف تھے کہ ہمیں پتا چلا کہ ہمارا اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ الیکشن کروانے ہیں یا نہیں اور اگر کروانے ہی پڑ گئے تو عمران خان کو کیسے باہر رکھنا ہے اور باہر رکھنے کے لیے پہلے اندر کیسے کرنا ہے؟
جس دن سے عمران خان کی حکومت گئی ہے اُن کے مخالفوں کی ایک ہی خواہش ہے کہ عمران خان کو سبق سکھایا جائے۔ وہ جمہوریت پسند لوگ بھی جو ہر وقت بنیادی انسانی حقوق اور حق رائے دہی کا درس دیتے رہتے ہیں وہ بھی سینے پر ہاتھ مار کر کہتے ہیں الیکشن ہوتے رہیں گے پہلے عمران خان کو ڈنڈا ڈولی کر کے پولیس کے ڈالے میں ڈالو، کسی جیل میں رکھو، کیس بڑے ہیں کسی ایک میں سزا دلوا دو اور پھر جیل کے دروازے کی چابی سمندر میں پھینک دو۔
اور اس کے بعد الیکشن الیکشن کھیلو۔ اور یہ اس لیے کرو کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ یہ اس سے پہلے دوسرے لیڈروں کے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔ ہمارے انٹیلیجنس ادارے، ہماری عدلیہ، ہماری اشرافیہ قانون کی ناک موڑنے، جمہوریت کو کان سے پکڑ کر اپنی مرضی کے راستے پر لگانے کا وسیع تجربہ رکھتی ہے، تو اب کیوں نہیں کرتی۔
ریاست کی کوشش جاری ہے۔ ایک نئی نسل سیکھ رہی ہے کہ آنسو گیس کے بعد کس طرح کے آنسو نکلتے ہیں، اُن کو کیسے روکنا ہے۔ پولیس سیکھ رہی ہے کہ پسپائی اختیار کیسے کرنی ہے، عدالتیں سیکھ رہی ہیں کہ صبح، دوپہر، شام، رات ایک ہی شخص کے بارے میں کتنے فیصلے لکھنے ہیں۔ اور چونکہ ہمیں کچھ نہیں پتہ کہ ہماری پرانی فوج کی نئی کمان کیا سوچ رہی ہے لیکن کم از کم یہ تو سوچ رہی ہو گی کہ یااللہ یہ کسی سے پیار کر بیٹھے، اب اس عشق لاحاصل کا انجام کیا ہو گا؟
پاکستانی فوج کی کمان بے شک نئی ہو لیکن ان کے پیار کے طریقے پرانے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ملک میں ہر وقت سیٹھوں، سیاستدانوں اور ججوں کی ایک پود موجود ہوتی ہے جو وسیع تر ملکی مفاد میں ذلت اٹھانے اور مال بنانے کو ہمیشہ تیار رہتی ہے (صحافیوں کا ذکر اس لیے نہیں کر رہا کیونکہ نہ وہ حکومتیں بناتے ہیں نہ گراتے ہیں، صرف حواریوں کے حواری کا کردار ادا کرتے ہیں۔)
انھیں ڈھونڈنا بھی نہیں پڑتا۔ لیکن اب عمران خان نے75 سال سے کمائی گئی فوج کی محبت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ فوج کا تعلقات عامہ کا ادارہ اگر سوشل میڈیا پر اسلام علیکم بھی کہہ دے تو ایسی گالیاں پڑتی ہیں جو کبھی پاکستان توڑنے کے خواب دیکھنے والوں نے بھی نہیں دی گئیں۔
اگر آپ کے ہاتھ میں بندوق ہو تو یہ فرق نہیں پڑتا کہ بندوق کی نالی کے سامنے کھڑا انسان بندوق کی وجہ سے آپ کا تابع ہے یا دل سے آپ کو اپنے سے بہتر مانتا ہے۔ لیکن اگر جس کے ہاتھ میں بندوق ہے اس کو ہی یہ شک ہو جائے کہ بندوق کا نشانہ کدھر ہونا چاہیے تو نہ بندوق کسی کام کی نہ بندوق چلانے والا۔
ہمارے عمران خان کو فاشسٹ، پاگل، بے وقوف سمجھنے والے جتنا بھی شور مچا لیں عمران خان پاکستان کے دل میں لگی ایک گرہ ہے جب تک یہ بحث مباحثے سے، ووٹوں سے، نوک جھونک سے، تھوڑی جھنجھلاہٹ سے کھل نہیں جائے گی پاکستان کی شریانوں میں بہنے والا خون کم سے کم ہوتا جائے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر