نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رمضان کی آمد اور ذخیرہ اندوزی!!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ رمضان کی آمد سے قبل ہی قلبی روحانیت محسوس ہونے لگتی ہے اور دل میں کچھ اس طرح کی اضطرابی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے جیسے مدتوں سے کسی اپنے بہت پیارے مہمان کا انتظار ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں بسنے والے مسلم ممالک نہ صرف رمضان کا احترام اور اہتمام کرتے ہیں بلکہ غیر مسلم ممالک بھی اس ماہ مقدس کے احترام میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کر دیتے ہیں۔ خصوصی رمضان ڈسکائونٹ پیکیج متعارف کروائے جاتے ہیں۔ مسلم بھائیوں کے لئے بڑے بڑے افطار دسترخوان سجائے جاتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے عالم اسلامی کی واحد ایٹمی قوت اور اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت خداداد پاکستان میں رمضان جیسے با برکت اور رحمت کے مہینے کو ذخیرہ اندوزوں نے اپنی کمائی کا ذریعہ بنا کر غریبوں کیلئے ماہ صیام کو مشکل بنا دیا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو پر لگ چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں نے عام آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل بنایا ہوا تھا۔ ذخیرہ اندوز تاجر اور گرانفروش دکانداروں کی بات تو اپنی جگہ رہی حکومت کا اپنا حال یہ ہے کہ ہر آئے روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہے،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے ہر چیز خودبخود مہنگی ہو جاتی ہے۔ ڈالر کا عذاب اپنی جگہ موجود ہے۔ مارکیٹ پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات اور ڈا لر کی قیمتوں میں اضا فے سے پہلے ہی مہنگا ئی کے طوفا ن سے عوام پریشا ن تھے جبکہ رمضا ن المبا رک کی آمد سے قبل ذخیرہ اندوز اور منا فع خور مصنوعی قلت پیدا کرنے کیلئے میدان میں آگئے۔ گھی، چینی، دال، بیسن، چائے کی پتی، کھجو ر اورلیموں سمیت دیگر سبزیوں، پھلوں اور خوردونو ش کی اشیا ء کی قیمتو ں میں مزید اضافے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ غریب کہاں جائیں گے؟ عید تو ابھی دور کی بات ہے غریبوں کیلئے سحر و افطار بھی مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ کوئی پرانی بات نہیں بلکہ آج کی ہی بات ہے کہ حکومت نے پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے جبکہ لائٹ ڈیزل کی قیمت کو برقرار رکھا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں 5 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے جس سے نئی قیمت 272 روپے فی لیٹر ہو گئی ۔ ڈیزل ٹرانسپورٹر اور کسان استعمال کرتے ہیں۔ ڈیزل کی قیمت میں 13 روپے فی لیٹر کے ساتھ نئی قیمت 293 روپے فی لیٹر مقرر کردی گئی ہے۔ مٹی کے تیل کی قیمت میں بھی 2 روپے 56 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے جو کہ ظلم اور غریب عوام پر مزید بوجھ ہے۔ یہ بھی دیکھئے عالمی مارکیٹ میں گیس اور کوئلے کی قیمتوں میں واضح کمی ہوئی ہے، خام تیل کی قیمت 6.39 فیصد کمی سے 66.76 ڈالر فی بیرل پر آگئی، برنٹ آئل کی قیمت 6 فیصد کمی سے فی لیٹر 72.80 ڈالر پر آگئی مگر پاکستان میں اضافہ کیا گیا ہے۔ غربت ، بیروزگاری اور مہنگائی کے مارے پاکستانی اس سلوک کو کیا نام دیں؟ سچی بات یہ ہے کہ پاکستان جس عذاب سے گزر رہا ہے اس کی وجہ صرف اور صرف کرپشن ہے۔ سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے بجا اور درست کہا کہ کرپشن سے تفریق پیدا ہوتی ہے اور نا انصافی بڑھتی ہے۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان آئی ایم ایف کی وجہ سے آیا ہوا ہے۔ ستم دیکھئے کہ آئی ایم ایف کے تمام مطالبات مانے جا چکے ہیں اس کے باوجود بھی آئی ایم ایف نے بیرونی فنانسنگ کے حوالے سے پاکستان سے تحریری یقین دہانی طلب کرلی ہے۔ نجانے ہمارے حکمران کب تک ناجائز مطالبات مانتے رہیں گے اور غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پستے رہیں گے؟ حکمرانوں کو کیا پرواہ ہے ،وہ دکان پر جائیں تو ان کو آٹے دال کا بھائو معلوم ہو، رُل تو بیچارا غریب آدمی جاتا ہے ۔سچ یہی ہے کہ سفید پوش طبقے کو اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق گزشتہ دو سال میں بیس لاکھ کے قریب لوگ بے روزگار ہوئے ہیں،ان حالات میں موجودہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کرے۔ خاص طور پر ذخیرہ اندوزوں کو لگام ڈالی جائے اور ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ ضلعی سطح پر ہر ڈی سی اوز اور اسٹنٹ کمشنرز کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ حکومت کی جانب سے مقرر کی گئی ریٹ لسٹوں پر عمل درآمد یقینی بنائیں ۔ مہنگائی میں اضافے کی بنیادی وجہ یہی ذخیرہ اندوز ہوتے ہیں جنہیں نہ تو رمضان جیسے مقدس مہینے کا کوئی خیال ہوتا ہے اور نہ ہی اس ملک کے غریب عوام کا احساس ہے۔ میں اپنے وسیب میں ذخیرہ اندوزوں کی کارستانیاں دیکھتا ہوں تو دل گرفتہ ہو جاتا ہوں، بڑی بڑی گاڑیاں ، نورانی چہرے مگر دل سیاہ ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں حکمران تو حضرت عمربن عبدالعزیز جیسے عادل اور صالح چاہئیں لیکن خود ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ جس کا جہاں دائو لگتا ہے وہ ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آتا، اسی سوچ نے ملک و قوم کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ یقین جانیں بطور پاکستانی قوم جو ہمارا طرز عمل ہے امریکہ بھارت یا اسرائیل کو ہمارے خلاف سازش کرنے یا ہمیں تباہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم خود ہی کافی ہیں اپنی تباہی کا سامان ہم خود پیدا کر لیتے ہیں۔ اپنی انا اور خود غرضی میں ہم اخلاقی طور پر اتنے دیوالیہ پن کا شکار ہو چکے ہیں کہ ہمیں بس اپنا مفاد عزیز ہے چاہے اس میں ہمارے ملک یا معاشرے کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔ وقت آ گیا ہے کہ اقتدر کی جنگ کو چھوڑ کر ملک و قوم کی بہتری کیلئے اقدامات کئے جائیں اور سب سے پہلے سرمایہ دار چاہے ان کا تعلق جس بھی شعبے سے ہے رمضان شریف کے بابرکت مہینے میں توبہ کریں اور اپنے وسائل غریبوں کیلئے وقف کرنے کا اعلان کریں۔

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author