نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی مانے یا نہ مانیں زیادہ لاڈ اور ان کی ہر ناجائز خواہش کو پورا کرنے کی روش نے عمران نیازی کا دماغ خراب کردیا ہے ، منگل اور بدھ کے روز منظر زمان پارک لاھور میں دیکھے گئے نے پوری قوم کو حیرت زدہ کردیا ہے، عام طور دیکھا یہ گیا کہ جب سیاسی پارٹیوں کے کارکن احتجاج کرتے ہیں تو آنسو گیس کے جواب میں پولیس پر پتھراو کرتے ہیں اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے بعد منتشر ہو جاتے مگر عمران نیازی کے حامیوں کا کردار مختلف نظر آیا ۔ 2014 میں ڈی چوک اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کو مارا پیٹا گیا کیونکہ عمران نیازی نے انہیں پھینٹی لگانے کی ہدایت کی تھی۔
پی ٹی وی پر بھی دھاوا بولا گیا اس وقت عمران نیازی کا احتجاج حکومت کے خلاف تھا مگر اس بار معاملہ مختلف تھا، اس بار پولیس عدالتوں کی طرف سے عمران نیازی کے گرفتاری کے وارنٹ کی تعمیل کرنے زمان پارک گئی تھی کیونکہ عمران نیازی آعلی عدالتوں سے بار بار ریلیف لینے کے باوجود ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے میں دانستہ طور پر ناکام رہے تھے ، گزشتہ ہفتے بھی اسلام آباد پولیس عدالت کے وارنٹ تعمیل کرانے کیلئے زمان پارک لاہور گئی تھی مگر یوتھیوں، اور ٹائیگرز کی سخت مزاحمت کے بعد شبلی فراز کے بیان کہ عمران گھر میں نہیں ہے اگلی پیشی پر عدالت میں پیش ہونگے پر یقین کرنے کے بعد ان سے وارنٹ رسیو کرواکر واپس اسلام آباد آئی تھی، سچی بات یہ کہ اعلی عدالتوں کی طرف سے عمران نیازی کو بار بار ملنے والے ریلیف نے ماتحت عدالتوں کو بے بس کردیا ہے سندھ کے ایک سول جج سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی غیر اصولی مداخلت اور توہین آمیز سلوک کی وجہ سے ملازمت چھوڑ دی تھی۔ ریاست کے ایک عام شہری کے ناطے میری رائے یہ ہے کہ جج تو جج ہوتا ہے چاہے سول جج ہو یا سیشن جج وہ بھی اتنا ہی قابل احترام ہوتا ہے جتنے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان ، محترمہ زیبا کوئی مجسٹریٹ ہی نہیں ایڈیشنل جج ہیں ان کا بھی احترام اتنا ہی کرنا لازم ہے جتنا ہائی اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے، سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب نے جب منصف کی کریسی پر بیٹھ کر بلا کسی جھجھک کہ فرمایا کہ ہاں ان کی فیملی عمران نیازی کے جلسوں میں جاتی ہے نے کئی سوالات کو جنم دیا تھا۔ آج سے 43 سال قبل جب جناب ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا تھا تو صحافی اور شاعر خالد علیگ نے شعر لکھا تھا:
ھوائے بغض خباثت چلی تو اپنے ساتھ
اڑا کے لے گئی انصاف کی قبا لوگو،
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے 1979 میں باوقار انداز میں تختہ دار پر ابدی نیند سو نے والا قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید تختہ دار پر جھولتے ہی تاریخ کا ھیرو بن گیا تھا جبکہ انہیں پھانسی کی سزا سنانے والے جج مرنے کے باوجود ابھی تک تاریخ کے کٹہرے میں مجرم بن کر کھڑے ہیں۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی منگل اور بدھ کو زمان پارک لاھور میں عدالتوں کے وارنٹ تعمیل کرانے کیلئے جانے والے قانون کے رکھوالوں سے مزاحمت کی تو خالی ہاتھ پولیس افسران اور جوانوں کا واسطہ ڈنڈا برداوں سے پڑا جن کے پاس پٹرول بم بھی تھے میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی کے کارکنوں نے عمران نیازی کی رہائش گاہ سے پولیس پر پٹرول بم برسائے جسے دہشتگردی ہی کہا جا سکتا ہے، آج بدھ کے روز پی ٹی آئی کی راہنما اور صدر علوی کے درمیان گفتگو کی آڈیو منظر عام پر آنے کے بعد یہ ثابت ہو چکا ہے کہ عمران نیازی کی ہدایت پر پولیس پر پٹرول بم مارے گئے ، میں سوچ رہا ہوں ان حالات میں عمران نیازی کا ٹرائل کیسے ممکن ہے ؟ اور پوچھنا یہ تھا اگر ایسا عمل سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان کی طرف سے ہوتا تو ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا؟ اگر انصاف کے معیار جی ٹی روڈ کیلئے الگ اور چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کیلئے الگ ہیں تو یہ حقیقت ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ ہم ریاست نہیں اینیمل فارم ہاوس میں رہ رہے ہیں۔
۔یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ