یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشرے کا حقیقی رجحان (تیسری اور آخری قسط)
کچھ چاہنے والوں نے مشورہ دیا ہے کہ میں اپنا یوٹیوب چینل بناؤں یا پوڈکاسٹ وغیرہ کے معاملے میں پڑوں، کیونکہ اب ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے۔ میں نے بھی کبھی مایوسی کے دوروں میں اِس پر غور کیا ہے۔ چنانچہ میں نے مختلف مقبول لوگوں کے فالوئرز چیک کیے۔ فیس بک پر قاسم علی شاہ کے 58 لاکھ سے زائد فالوئرز ہیں۔ حماد صافی کے پیج کو 42 لاکھ نے لائیک کر رکھا ہے۔ اِن کے اپنے یوٹیوب چینلز بھی ہیں۔ اکیڈمیاں اور دیگر ذرائع بھی ہیں۔ اِنھیں ٹیلی وژن پر ایک ایک گھنٹے کے پروگرام ملتے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک علی کے یوٹیوب چینل کے 850 سبسکرائبر ہیں۔ آپ میں سے بھی متعدد لوگوں نے چینل سبسکرائب نہیں کیا ہو گا۔ میں کس کھیت کی مُولی ہوں!
یہ غیر مقبول بات کرنے کا نتیجہ ہے۔ اگر آپ خواب بنانے اور سنانے کے قابل نہیں، لوگوں کو ویسا ہی رہنے کو نہیں کہتے جیسا کہ وہ ہیں، اگر آپ اُن کے خیالات اور سوچ کے انداز کو چیلنج کرتے ہیں، اُنھیں تنقیدی فکر کی راہ پر ڈالتے ہیں، تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ معاشرے میں ڈاکٹر مبارک علی جیسے لوگ چند ایک ہی ہوتے ہیں۔ بہت بڑا ہجوم جاوید اقبال اور عارفہ سید کے چٹکلے اور بونگیاں سننے کو ہی ترجیح دے گا۔ یہ ساری نسل بہت محنت سے تیار کی گئی ہے، اِسے چھیڑنا نہیں چاہیے۔
لیکن خود بھٹک کر اِن کی راہ پر نکلنا بے وقوفی ہو گی۔ شاہدِ گل کا باغ سے بازار میں نہیں آنا چاہیے۔ بے شک یہ تماشا باز معاشرہ ہے، لیکن اس میں شامل ہونے کے لیے تماشا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ آگ کے چھلے میں گزرنے والوں کی روش سے دوری اختیار کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر مبارک علی کوئی ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا روحانی قسم کے ناول نگار نہیں۔ وہ جو کچھ بھی ہیں خود ہیں۔ یہی بیماری ہم میں سے کچھ کو بھی لگ گئی۔ کوئی شیخی نہیں بگھار رہا، لیکن اتنا معلوم ہے کہ ہمارا معاشرہ غلط ہے اور ہم صحیح ہیں۔ بلوما لوگوں کے اندر داخل کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اُچ ڈھاندی ڈیکھ تے چھوراں وی وٹے مارے ہن۔۔۔|شہزاد عرفان
ریاض ہاشمی دی یاد اچ کٹھ: استاد محمود نظامی دے سرائیکی موومنٹ بارے وچار
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو