نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

توشہ خانہ کے تحائف: کیا ہوا، کیا ہونا چاہیے ؟||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عدالت کے حکم پر توشہ خانہ سے لئے گئے تحائف کا ریکارڈ پبلک کر دیا گیا۔ اس حوالے سے البتہ ایک ڈنڈی یہ ماری گئی ہے کہ عدالت نے پچاسی (1985)سے لے کر اب تک کا ریکارڈ پبلک کرنے کا کہا، حکومت خاصے لیت ولیل کے بعد پچھلے بیس بائیس سال کا ریکارڈ منظرعام پر لے آئی، مگر پچاسی سے دو ہزار(1985-2000)تک کار یکارڈ پیش نہیں کیا گیا، شائد اس لئے کہ اس میں مسلم لیگ ن اور پی پی دونوں کے دو دو ادوار گزرے ہیں۔

وفاقی حکومت نے شائد یہ سوچا کہ پچھلے بائیس برسوں کے ریکارڈ میں آٹھ سال تو جنرل مشرف کے آتے ہیں،چار سال کے قریب عمران خان کے بنتے ہیں اور پانچ پانچ برسوں کا ایک ایک دور پی پی اور ن لیگ کا بنے گا، اس لئے اسے ہی عام کر دو۔ عدالت نے اس کا نوٹس لیا ہے اور اب امکان ہے کہ نوے کے عشرے کا ریکارڈ بھی پبلک ہوجائے گا۔
یہ وہ مطالبہ ہے جو بہت لوگ برسوں سے کر رہے تھے، عمران خان کی حکومت نے بھی سفارتی نزاکتوں کا کہہ کر انکار کر دیا تھا،کہ جن دوست ممالک نے تحائف دئیے وہ اس بات کے پبلک میں آنے پر ناراض ہوجائیں گے، موجودہ حکومت کا بھی یہی موقف تھا۔ آخر عدالت نے کہا کہ آپ یہ مت بتائیں کہ کس ملک نے کیا تحفہ دیا، صرف تحائف کی تفصیل اور لینے والے کا نام پبلک کر دیں۔ اب ایسا ہی ہوا ۔

توشہ خانہ ہے کیا؟
توشہ سے لفظی طور پر مراد سازوسامان رکھنے کا کمرہ ہے۔ اس میں وہ تحائف آتے ہیں جو بیرون ملک دورے پر سربراہ حکومت/مملکت یا وفد کے لوگوں کو دئیے جاتے ہیں۔ ہوتا ایسے ہے کہ جب پاکستانی وزیراعظم، صدر مملکت یا کوئی دیگر اعلیٰ سطحی وفد بیرون ملک دورے پر جائے تو وہاں کی حکومت یا حکمران وفد کو تحائف وغیرہ دیتے ہیں۔ ان تحائف کو ذاتی تحفہ اس لئے نہیں سمجھا جاتا کہ یہ ریاست پاکستان کی نمائندگی کرنے والے وفد یا عہدے داروں کو دئیے گئے۔ اس لئے اصولی طور پر یہ توشہ خانے کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔

ان تحفوں کے لئے اصول یہ بنایا گیا کہ وفد کے ارکان یہ تحفہ توشہ خانہ میں جمع کرا دیں یا پھر اگر وہ اسے اپنے پاس( سووینئر کے طور پر)رکھنا چاہیں تو ایک خاص قیمت کی ادائیگی کر کے گھر لے جا سکتے ہیں۔ ابتدا میں دس، پندرہ فیصد ادائیگی کر کے تحفہ رکھا جا سکتا تھا، پھر غالباً اسے بیس فیصد کر دیا گیا، عمران خان کے دور میں قانون میں ترمیم کر کے اسے پچاس فیصد کر دیا گیا۔

قیمت کا تعین کیسے ہوتا ہے؟
تحفے کی قیمت کا تعین کرنے کے لئے ایک کمیٹی ہے، جس میںبورڈ آف ریونیو اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کے تین لوگ شامل ہیں۔ اس حوالے سے ایک عالمی سطح پر تخمینہ جاتی لسٹ بھی ہے جس سے کچھ رہنمائی مل جاتی ہے۔یہ کمیٹی ہر تحفے کی جانچ کر کے ا سکی ایک قیمت مقرر کرتی ہے ۔اس نظام کو فول پروف بنانے کے لئے ایک اور قیمت بھی لگوائی جاتی ہے، یہ پرائیویٹ سیکٹر کے ماہرین لگاتے ہیں۔

تاہم ان ماہرین کا تعلق بھی کیبنٹ ڈویژن کے پینل پرموجود ایکسپرٹس سے ہوگا۔ ان دونوں قیمتوں کا موازنہ کیا جاتا ہے، اگر پندرہ بیس فیصد تک فرق ہو تو جو زیادہ قیمت لگائی گئی، اسی کو فائنل مانا جاتا ہے۔ پھر قانون کے مطابق پہلے اس کی دس سے بیس فیصد اور اب پچاس فیصد ادائیگی کر کے وہ تحفہ رکھا جا سکتا ہے۔

کیا توشہ خانہ سے تحائف لینا لوٹ مار ہے؟
لوٹ مار کی اصطلاح سے اختلاف ہے۔ توشہ خانہ سے تحائف ملکی قانون کے مطابق ہی لئے جاتے ہیں۔ قانون کی کسی نے خلاف ورزی نہیں کی تو اسے کیسے برا یا غلط کہا جا سکتا ہے؟یہ لوٹ مار یا کرپشن کیسے ہوگئی ؟

ایک شخص نے حکومتی وفد کے ساتھ غیر ملکی دورہ کیا، وہاں اسے ایک تحفہ دیا گیا، اس کے پاس دو آپشنز ہیں، وہ تحفہ توشہ خانہ میں جمع کرا دے یا اگر اسے وہ اچھا لگا اور اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے تو اس کی قانون کے مطابق ادائیگی کر کے اسے گھر لے جائے۔ یہاں پر یہ سمجھ لیجئے کہ کسی قسم کی اقرباپروری نہیں ہوئی ۔ اسے ہی وہ تحفہ دیا گیا، قانون کے مطابق اس نے ادائیگی کی اور اپنے پاس رکھ لیا تو اس میں کرپشن کہاں سے آ گئی ؟اسے اخلاقی طور پر غلط نہیں کہا جا سکتاکیونکہ قانون کی پابندی کی گئی۔ اگر قانون توڑا جاتا تب غلط کہتے۔

صحافیوں نے کیوں تحائف لئے؟
اس فہرست میںبعض ایک صحافیوں کا نام بھی ہے، ان میں سے اکثر وہی ہیں جو مسلم لیگ ن یا پی پی کے قریب رہے اور آج کل عمران خان پر تنقید کر رہے ہیں۔چند ایک سرکاری ٹی وی یا سرکاری نیوز ایجنسی کے لوگ خاص کر فوٹوگرافر بھی شامل ہیں۔ یہ بھی قابل فہم ہیں کیونکہ ہر سرکاری وفد میں پی ٹی وی ، اے پی پی کے رپورٹر،فوٹوگرافر شامل ہوتے ہیں، ظاہر ہے انہیں تحائف ملے اور ادائیگی کر کے انہوں نے رکھ لئے ۔

اب اس میں ان صحافیوں کے نام تو نہیں آ سکتے جن کے حکمرانوں سے اچھے تعلقات نہیں یا جو بیرونی دورے پر گئے ہی نہیں۔ جن کے نام نہیں آئے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بہت اچھے ، نیک اور بااصول صحافی ہیں بلکہ یہ کہ وہ دورے میں گئے ہی نہیں۔ انہیں تحائف ملے ہی نہیں اور جب ملے نہیں تو لینے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ جن صحافیوں نے تحائف لئے، انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ قانون کے مطابق ایک کام کیا، اس لئے ان پر تنقید ناجائز ہے۔
اس حوالے سے البتہ ممتاز صحافی، اینکر رﺅف کلاسرا کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ 2010میں ایک دورہ پر وہ ساتھ تھے، انہیں تحفے میں ایک گھڑی ملی، اس گھڑی کی قیمت ایک لاکھ بیس ہزار متعین ہوئی۔ منسٹری نے دس بارہ فیصد کے حوالے سے سولہ ہزار روپے کا انہیں واﺅچر بھیجا کہ ادائیگی کر کے گھڑی لے جا سکتے ہیں۔ رﺅف کلاسرا کا ایک اصولی موقف تھا کہ انہیں تحفہ نہیں لینا چاہیے۔

انہوں نے واﺅچر واپس کر دیا اور تحفہ توشہ خانہ میں ڈیپازٹ کرا دیا۔ یہ بات کل پبلک ہونے والے ریکارڈ سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ رﺅف کلاسرا اس پر تعریف اور تحسین کے مستحق ہیں ، اگرچہ وہ قانون کے مطابق ادائیگی کر کے تحفہ لے جاتے تو وہ غلط نہ ہوتا۔ رﺅف کلاسرا نے مگر عزیمت یعنی ہائی مورل سٹینڈرڈ پر چلنے کا مظاہرہ کیا اور ایک اچھی مثال قائم کی۔

ن لیگ، پی پی ، تحریک انصاف
ان تینوںجماعتوں کے قائدین اور رہنماﺅں نے توشہ خانہ سے تحائف لئے ہیں۔ پی پی اور ن لیگ اس میں سرفہرست رہی ہے، میاں نواز شریف اور زرداری صاحب نے تو بڑے زور شور سے بے شمار تحائف لئے، لگژری گاڑیاں بھی جن میں شامل ہیں۔ ان کے لئے تحائف کی فہرست سوشل میڈیا پر ہر طرف موجود ہے، اسلئے اسے دوبارہ دینا غیر ضروری ہے۔

محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کو شائد ان تحائف سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی یا پھر ان کے دورے نسبتاً کم تھے ، البتہ گھڑیاں وغیرہ انہوں نے بھی لیں اور انہی کی وجہ سے ان پر تنقید بھی ہوئی۔ نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب وغیرہ نے دس پندرہ فیصد ادائیگی کو ترجیح دی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان نے بھی پہلے تحائف پرانے طریقہ کار کے مطابق لئے، پھر انہیں شائد احساس ہوا یا توجہ دلائی گئی یا پھر گھڑیوں کے تنازع نے انہیں زیادہ حساس بنایا ، مگر یہ بہرحال حقیقت ہے کہ عمران خان ہی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے تحفہ لینے کے لئے دس پندرہ فیصد کے بجائے پچاس فیصد ادائیگی کا قانون بنایا۔ اب یہی نافذ العمل ہے۔

جماعت اسلامی، جے یو آئی
جماعت اسلامی اور جے یوآئی فضل الرحمن کے لوگ اس رپورٹ میں حیران کن طو رپر بڑی حد تک بے داغ اور صاف نظر آئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے ظاہر ہے کئی دوروں میں سفر کیا، ان کانام لسٹ میں نہیں۔ ان کے صاحبزادے اسعد محمود کانام لسٹ میں ہے، انہیں گھڑی دی گئی، مگر انہوں نے اسے ڈیپازٹ کراد یا۔ جے یوآئی کے سینیٹر طلحہ محمود کانام ہے، مگر انہوں نے نیلامی سے چند ایک گھڑیاں خریدیں جو کہ ظاہر ہے قانون کے مطابق ہے۔ جماعت اسلامی کے کسی بھی فرد کا نام نہیں۔ اسی طرح ایک دلچسپ نام مولانا طاہر اشرفی کا ہے۔ ان پر کئی حوالوں سے تنقید کی جاتی ہے، مگر وہ توشہ خانہ سے کلیئر نکلے، انہیں بھی گھڑی دی گئی، اسے ڈیپازٹ کرا دیا گیا۔ بہت خوب ۔ مذہبی لوگوں کا کردار اس حوالے سے قابل تعریف ہے۔

کیا سیاستدانوں کا تحائف لینا کرپشن اور لوٹ مار ہے؟
مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ قانون کے مطابق انہوں نے ایسا کیا۔ ان پر یہ تو تنقید کی جا سکتی ہے کہ قانون غلط بنایا گیا۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کچھ تحائف کی نسبتاً زیادہ قیمت ہوگی، مگر بہرحال قیمت بھی ایک خاص مکینزم کے تحت ہی رکھی گئی اور سرکاری افسروں کی ایک کمیٹی ہی ایسا کرتی رہی ہے۔

میرے ذاتی خیال میں اگرچہ یہ درست ہے کہ سرکاری منصب کی وجہ سے انہیں یہ تحائف وغیرہ ملے، مگر بہرحال وزیراعظم چودھری شجاعت اور وزیراعظم نواز شریف یا عمران خان کے ہونے میں کچھ فرق ضرور ہے۔ عالمی سربراہان خاص کر دوست عرب ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ بعض پاکستانی سربراہان کے ذاتی تعلقات تھے یا وہ بوجوہ انہیں زیادہ پروٹوکول دینا چاہتے تھے ۔ جیسے اکا دکا پاکستانی حکمران ہی ایسے ہوں گے کہ ان کی گاڑی سعودی ولی عہد نے چلائی ہو۔ ایسا ظاہر ہے خاص تعلق ظاہر کرنے کے لئے کیا گیا، ورنہ شاہی خاندان کے پاس ڈرائیوروں کی پوری فوج موجود ہوگی۔

اس لئے بعض تحائف میں اس وقت کے وزیراعظم یا صدر کی ذاتی شخصیت کا بھی کچھ نہ کچھ عمل دخل ہوگا۔ ضروری نہیں کہ جو تحائف وزیراعظم ظفراللہ جمالی یا چودھری شجاعت یا شاہد خاقان عباسی کو ملیں، وہی نواز شریف یا عمران خان یا صدر زرداری کو دئیے جائیں، آخری تینوں کے ساتھ خصوصی سلوک برتا گیا ہوگا۔
اس لئے اس نوعیت کے تحائف کا ایک خاص ادائیگی کے بعد اس پاکستانی سربراہ حکومت کو دیا جانا فطری اور منطقی ہوگا۔

مثال کے طور پر اگر سعودی ولی عہد نے دو خاص گھڑیاں بنوائیں ،منفرد نوعیت کی اور اگر پاکستانی وزیراعظم کو ان میں سے ایک تحفہ کر دی تو پھر اس وزیراعظم کا حق بنتا ہے کہ وہ گھڑی قانونی ادائیگی کے بعد گھر لے جائے۔ وہ گھڑی توشہ خانہ میں پڑی سڑتے رہنے کے لئے نہیں دی گئی۔

غلطی کہاں ہوئی ؟
توشہ خانہ کی تفصیل آنے سے ن لیگ اور پی پی کو بڑا دھچکا پہنچا۔ اس کی بڑی وجہ ان کا غلط اور ناجائز پروپیگنڈہ تھا۔ تحریک انصاف کے بہت سے لوگ ناتجربہ کار اور حکومتی رموز سے ناواقف ہیں۔ وہ اپنی ناپختگی میں کئی امور پر تنقید کریں تو قابل معافی ہوسکتے ہیں ، البتہ ن لیگی اور پی پی والے جو کئی بار حکومتیں کر چکے ہیں، جنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ توشہ خانہ سے کتنے تحائف وہ لے چکے ہیں، ان کی عمران خان پر تنقید بلاجواز اور فضول تھی۔

اسی وجہ سے مریم نواز شریف کو ندامت کا سامنا ہے کہ وہ جن چیزوں کو لینے پر عمران خان کو ہدف تنقید بناتی تھیں، ان پر توشہ خانہ سے چوری کرنے کا الزام لگاتی تھیں، اب وہ سب کچھ ان کے والد محترم اور دیگر اہل خانہ پر بھی ثابت ہوگیا۔ یہی سب کچھ پیپلزپارٹی والوں کے ساتھ ہوا۔ دوسروں پر زہر اگلتے ، ان کا اپنا برگر زہریلا نکل آیا ہے۔

عمران خان کی غلطی
قانونی اعتبار سے تو عمران خان کی غلطی نہیں ہے۔ توشہ خانہ سے مقررہ ادائیگی کر کے گھڑیاں یا کچھ اور سامان لینا جائز اور درست تھا۔ قانون میں ویسے یہ بھی کہیں نہیں کہ وہ لی گئی چیزیں بیچ نہیں سکتے۔ البتہ اخلاقی طور پر یہ غلط ضرور ہے۔ دراصل یہ تو کامن سینس ہے کہ شاہی خاندان سے دئیے گئے کسی تحفے کو بطورسووینئر سنبھال کر رکھنا چاہیے۔ تحفوں کو کون بیچتا ہے ؟

خاص طور پر جب معلوم ہو کہ یہ خاص چیز ہے، منفرد سٹائل کی تو اسے بیچیں گے تو بات باہر نکلے گی اور اگر تحفہ دینے والے کو پتہ چلے کہ اس کے دئیے تحائف پیسے کھرے کرنے کے لئے مارکیٹ میں بیچ دئیے گئے تو دل آزاری اور بدمزگی ہونا فطری ہے۔ عمران خان کو اپنی یہ غلطی تسلیم کرنا چاہیے۔ اس میں ان کی اہلیہ محترمہ کا قصور ہے یا ان کے کسی قابل اعتماد دوست نے بے وقوفی کی، ذمہ داری بہرحال عمران خان ہی پر عائد ہوتی ہے۔

کیا قانون کی خلاف ورزی کی گئی ؟
پی ڈی ایم حکومت کا دعویٰ ہے کہ عمران خان نے جو تحائف لئے، ان میں دوتین حوالوں سے گڑبڑ کی گئی۔
ایک تو قیمت مارکیٹ سے کم مقرر کی گئی۔ حکومتی وزرا تو اس حوالے سے مبالغہ آمیز قیمت بتاتے ہیں۔
دوسرا تحائف مبینہ طور پر انڈرانوائسنگ کر کے لئے گئے اور انہیں بیچنے کے بعد رقم توشہ خانہ میں دی گئی جو کہ پروسیجر کی خلاف ورزی تھی۔

بظاہر یہ الزامات ہی ہیں، ان کی تحقیق مشکل نہیں کیونکہ یہ تو فیکٹ اینڈ فگرز والا معاملہ ہے۔ قیمت کا تعین سرکاری ملازمین پر مشتمل کمیٹی کرتی ہے، ان سے پوچھا جانا چاہیے ۔ دوسرا کب لیا گیا اور کب جمع کرائے گئے، یہ بھی ڈیٹس کا معاملہ ہے۔

اس حوالے سے ایک اور بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ چیزوں کی وہ قیمت ظاہری بات ہے نہیں ہوگی جو اوپن مارکیٹ میں نیلامی سے ممکن ہو سکتی ہے۔ تھوڑا بہت ایڈوانٹیج ان عہدے داران کو ملنا فطری ہے۔

نواز شریف،آصف زرداری کی غلطی
بادی النظر میں نواز شریف صاحب اور آصف زرداری صاحب کا توشہ خانہ سے گاڑیاں لینا غلط اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔ قانون کے مطابق کسی نوادر کو نہیں بیچا جا سکتا، اسے میوزیم میں رکھا جائے گا، اسی طرح گاڑیوں کو بھی نہیں لیا جا سکتا ، بلکہ وہ سرکار کی گاڑیوں کے پول میں چلی جائیں گی۔ یہ بات قابل فہم ہے۔ معلوم نہیں کیسے نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب نے بی ایم ڈبلیو اور اسی طرز کی لگژری گاڑیاں نہایت کم داموں لے لیں، حالانکہ گاڑیوں کو قیمت مقرر کرنے کے باوجود قانوناًنہیں لیا جا سکتا تھا ۔

کیا ہونا چاہیے ؟
توشہ خانہ کے حوالے سے قانون میں ترمیم کی اشد ضرورت ہے۔ جتنا گردو غبار اڑا ہے، اس کے بعد اسے یقینی بنانا چاہیے کہ کوئی حکمران یا عہدے دار ناجائز طور پر فائدہ نہ اٹھا سکے۔
توشہ خانہ میں سامان کے حوالے سے واضح پالیسی بنانی چاہیے۔قیمت کے تعین کے طریقہ کار کو زیادہ شفاف بنایا جائے۔ یہ قانون میں شامل ہو کہ جو چیز خریدی گئی ہے، وہ بعد میں مارکیٹ میں بیچی نہیں جائے گی، ایسا کرنا قابل تعزیر جرم ہوگا۔

توشہ خانہ کے تحائف کے حوالے سے ایک کیٹیگری بن سکتی ہے کہ ایک خاص قیمت سے کم درجہ کی چیزیں آدھی قیمت دے کر لی جا سکیں، تاکہ کوئی چاہتے تو اسے بطور سووینئر اپنے پاس رکھ سکیں جبکہ بیش قیمت اشیا (ایک لاکھ سے اوپر کی)کی اوپن نیلامی کی جائے جس میں باہر کے لوگ بھی شامل ہوسکیں۔

غیر ملکی دوروں پر وہاں کی حکومتوں کو بتا دیا جائے کہ ایک خاص قیمت سے زیادہ کی چیزیں ہم قانون کے مطابق بیچ دیا کرتے ہیں، اس لئے وہ اسی حساب سے تحائف دیں اور بیش قیمت ہونے سے زیادہ چیزوں کی کلچرل اور مقامی وابستگی کو ترجیح دیں۔امریکہ اور بعض یورپی ممالک میں حکومتی وفد ایک خاص مالیت سے زیادہ کے تحائف قبول نہیں کر سکتا۔

توشہ خانہ کے ریکارڈ کو مستقل بنیاد پر پبلک رکھا جائے، ہر دورے کے بعد چیزوں کی مالیت اور کس نے خریدا، یہ سب چیزیں ویب سائٹ پر اپ ڈیٹ کر دی جائیں۔

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author