یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوالہول کے انداز میں کرسی پر بیٹھا ہوا سہیل وڑائچ ایک کھلاڑی سے پوچھ رہا ہے کہ آپ کو لاہور قلندرز میں کیسے شامل کیا گیا؟ پھر اُس کی بکواس کے بعد خود دوبارہ پوچھتا ہے: ’’آپ کھیل کر تھک تو جاتے ہوں گے؟‘‘ درمیان میں بسکٹ، پینٹ، کے ایف سی، سُوپر بسکٹ کے خواہ مخواہ طویل اشتہار چلتے ہیں۔ یہاں کوئی صنعت نہیں، ساری صارف آبادی ہے۔ پینٹ کی ہوئی دیواروں کے آگے بیٹھ کر بسکٹ اور کے ایف سی کا چکن کھاؤ۔
اصل والا ابوالہول مسافروں کو روک لیتا تھا، اور کوئی پہیلی پوچھتا تھا۔ مسافر کو اُس وقت تک سفر بڑھانے کی اجازت نہ ہوتی جب تک وہ پہیلی بوجھ نہ لیتا۔ کتاب اور تاریخ کے صفحات سے آپ کو دور رکھنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ وہاں ہر صفحے پر ابوالہول بیٹھا ہے۔ وہ آپ سے پوچھ سکتا ہے کہ قائد اعظم اگر پنجاب پولیس اور موجودہ حکومت کے ہتھے چڑھتے تو کیا ہوتا؟ وہ مریم کی سفاک خوب صورتی اور بلاول کی دبیز گردن کے علاوہ بھی کچھ پوچھتا۔ وہ پوچھتا کہ اسلام آباد میں 6.4 شدت کے زلزلے کی بجائے پورے ملک میں 12.8 شدت کا زلزلہ آتا اور یہ سپہ گر آبادی ملیا میٹ ہو جاتی تو دنیا کا کیا نقصان ہوتا؟
ابوالہول بہرحال بیٹھا رہے گا۔ وہ ہم سب کے اندر بھی ہے، میرے اندر بھی۔ وہ مجھ سے پوچھتا ہے کہ ’’تم آئندہ الیکشن میں ووٹ دیتے وقت کیا سوچ رہے ہو گے؟‘‘ میں خیالوں میں کہتا ہوں کہ ’’مجھے اپنا فریضہ ادا کرنا ہے، مجھے ووٹ دے کر اپنی رائے کے اہم ہونے کا احساس انجوائے کرنا ہے۔‘‘ ابوالہول ہنستا ہے۔ اُسے معلوم ہے کہ میں ووٹنگ کے دن رِیلز پر نورا فتحی کے پیٹ کی تھرتھراہٹ یا دیپکا کی لمبی کمر سے لٹکے سڈول کولہے ہی دیکھتا رہوں گا۔ وہ جانتا ہے کہ اپنے انسان نہ رہنے سے مجھے کوئی ہول نہیں اُٹھتا۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر