یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے ماہ بہار آئے گی، جشن بہاراں ہوں گے لاہور کی نہر پر بودی سی لائٹیں لگیں گی، سڑکوں کے کنارے پھول سجیں گے، بہت سے ادبی میلے ہوں گے۔ اپریل رمضانی دعاؤں میں گزرے گا۔ پھر شدید گرمی میں قربانی کے جانوروں کی عمر جاننے کے طریقے دکھائے جائیں گے اور عیدالاضحیٰ ہو گی۔ مئی جون میں شدید گرمی کی پیشین گوئیاں ہوں گی، جولائی اگست میں یوم آزادی منانے والا آدھے سے زیادہ پاکستان ڈوب چکا ہو گا، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا حال برا ہو گا۔ ہم محرم کے ایام کی ہلچل سے بھی گزریں گے اور فیس بک پر دینی جھگڑے ہوں گے۔
تب تک الیکشن ہوئے یا نہ ہوئے، خان مکمل پاگل ہو چکا ہو گا۔ ستمبر اکتوبر میں ہمارے لیڈران دہائیاں دے رہے ہوں گے کہ پاکستان کی مدد کی جائے۔ چند عالمی طاقتیں/ادارے چند ارب ڈالر دے دیں گے، نومبر دسمبر میں ہم بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نکل کر گیس کی لوڈ شیڈنگ میں داخل ہوں گے۔ جنوری 2024ء میں ہم مزید ایک قدم پیچھے جا چکے ہوں گے۔ شاید ٹیکنوکریٹس ٹائپ کوئی سیٹ اپ آ چکا ہوا۔ عدالتیں ایسے ہی حرام کاری کرتی رہیں گے، وکلاء کے الیکشن ہوتے رہیں گے۔ لوگ خود یورپ امریکہ جانے میں ناکامی کے بعد اپنے بچوں کو بھجوانے کی کوششوں میں لگے رہیں گے۔
ایسے ہی دس بارہ سال گزریں گے اور دنیا میں احمقوں کی تعداد 22 کروڑ سے بڑھ کر 32 کروڑ ہو چکی ہو گی۔ گلیشیئر پگھلیں گے، سمندر آگے بڑھیں گے، دریا ہمارے تعلیمی نظام جیسے مردہ ہوں گے۔
کیا یہ دو قومی نظریے کی ترویج ہے؟
کیا ملک اس لیے بنا تھا کہ ازل سے ہی پاکستان کے لیے مقرر ہو چکے علاقے میں آ جانے کی بجائے ایک کافر ملک اور تہذیب میں ہی مرنے کو ترجیح دینے والے شاعر کا جشن منایا جائے؟
اور کیا یہ ملک اِس لیے بنا تھا کہ اُردو کے چکر میں غالب اور میر جیسے ’ملحد مسلمانوں‘ کو تو سر پہ بٹھایا جائے لیکن بلونت سنگھ، کرشن چندر جیسوں کو گھاس بھی نہ ڈالی جائے؟
ویسے اب کوئی میر جیسے خیالات رکھنے والا سامنے آیا تو پہلا شعر کہنے سے پہلے ہی اُس کا ٹینٹوا دبا دیا جائے گا۔ زیادہ تر شاعر تو اِس خوف سے جدائی میں پڑے ہوئے ہیں اور آفاقی کے چکر میں محض بے جڑ شاعری کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر