رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاستدانوں کی دو تین بڑی خوبیاں ہیں جو انہیں عام لوگوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ پہلی خوبی عوام کو یہ یقین دلانا ہوتا ہے کہ وہ اپنا سارا رہن سہن‘ امیرانہ اندازِ زندگی اور سکون صرف اس وجہ سے چھوڑ کر سیاسی گند میں پڑے ہیں کہ وہ ان سب کی بہتری چاہتے ہیں۔ دوسری بڑی خوبی وہ رَج کر اپوزیشن دور میں مخالفوں کو گالیاں دیتے ہیں اور کسی دن انہی لوگوں کے ساتھ کھڑے نظر آئیں تو وہ یہ یقین بھی اپنے فالورز کو دلا دیتے ہیں کہ یار یہ سب کچھ سیاست میں چلتا ہے‘ سیاست میں کردار کی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ ذاتی فائدہ اہم ہے‘ عزت آنی جانی چیز ہے اس پر زیادہ حساس نہ ہوں۔تیسری خوبی جس کے بغیر کوئی بندہ سیاستدان نہیں بن سکتا وہ ہے لوگوں کا بے دریغ استعمال کرنا۔اگر آپ لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرسکتے تو آپ سیاستدان نہیں بن سکتے۔آپ کو بے رحمی کی حد تک خودغرض ہونا پڑتا ہے۔استعمال ختم ہو جائے تو دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیں۔ کوئی اور شکار تلاش کرنا شروع کر دیں۔ چوتھی بڑی خوبی آپ کے اندر قائدانہ نہیں بلکہ اداکارانہ صلاحیتیں ہونی چاہئیں۔آپ جب چاہیں دن کو رات اور رات کو دن ثابت کر سکیں۔ لوگوں کو یقین دلا دیں کہ آپ سے بڑا ان کا خیرخواہ اور کوئی نہیں۔ہمارے سیاستدانوں نے اس انسانی نفسیات کا فائدہ اٹھایا ہے اور اپنے اپنے گروہ تیار کر لیے ہیں۔اب کوئی اپنے لیڈر کے سوا کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔ اسے اپنا لیڈر ہی سچا لگتا ہے۔ بھٹو نے ایک ہزار سال جنگ انڈیا سے لڑنی تھی‘ ضیااور ان کے ساتھیوں نے افغانستان کے بعد سنٹرل ایشیا کو فتح کرنا تھا‘بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے بھی اپنے اپنے پیروکاروں کو خواب دکھائے۔عمران خان نے خود کو ایمانداری اور حب الوطنی کا مینار بنا کر پیش کیا۔ آخر پر ان خوابوں سے کیا نکلا؟ بینظیر بھٹو اور زرداری کے برطانیہ میں سرے محل نکلے تو نواز شریف خاندان کے لندن میں فلیٹس نکلے۔پرویز مشرف کے لندن فلیٹس نکلے جو بقول ان کے انہیں سعودی شاہ عبداللہ نے دس ملین ڈالرز کا تحفہ دیا تھا‘ اس سے خریدے۔ عمران خان کی ایمانداری سے کیا نکلا؟ عثمان بزدار‘ مانیکا‘ گجر نکلے جنہوں نے رَج کر دیہاڑیاں لگائیں۔ خود خان صاحب نے گھڑیاں بیچیں اور چن چن کر تمام اے ٹی ایمز کو عہدے دیے کہ بانٹ لو۔ سائیکل پر دفتر جانا تھا لیکن ہیلی کاپٹر سے نیچے نہیں اترے جس پر پچاس کروڑ سے زیادہ خرچہ آیا جبکہ شریفوں کی سکیورٹی پر ہی پچھلے ادوار میں دس ارب خرچ ہوگئے تھے۔ زرداری صدر بنے تو گڑھی خدابخش میں ان کی حفاظت کے نام پر کنکریٹ کی دیواریں تعمیر ہوئیں۔ نواز شریف کا تیسرا دور تھا تو اسحاق ڈار نے چالیس گاڑیاں امپورٹ کرالیں۔ بہانہ بنایا کہ سارک کانفرنس ہوگی۔پتا تھاکہ نہیں ہوگی کیونکہ بھارتی وزیراعظم مودی نے نہیں آنا تھا۔ سارک ممالک کے نام پر ڈار نے جو کروڑوں کی گاڑیاں منگوائیں شریف خاندان نے پروٹوکول اور سکیورٹی کے نام پر آپس میں بانٹ لیں۔ آخر نیب کو زبردستی کیپٹن (ر) صفدر سے ایک گاڑی ریکور کرانا پڑی۔ اب بتائیں کیپٹن صفدر کا کیا کام تھاکہ وہ کروڑوں کی امپورٹ کی گئی سرکاری گاڑی استعمال کرتے؟ ان کا ایک ہی میرٹ تھا‘ وہ وزیراعظم کے داماد تھے۔
ابھی ایک اور انکشاف ہوا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیوں میں مفت پٹرول ڈلتا ہے۔ خبر دینے والے بھول جاتے ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں میں پٹرول مفت نہیں پڑتا۔ جو وہ گاڑیاں چلا رہے ہیں انہیں مفت ملتا ہے اور ان ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں کا پٹرول کا سارا خرچہ عوام پر ٹیکس لگا کر پورا کیا جاتا ہے کیونکہ جہاں سے پٹرول خریدتے ہیں وہ تو اپنا بل چارج کرتے ہیں۔ لیکن آپ داد دیں کہ کیسے ان لیڈروں نے اپنے فالورز کو یہ کہانی بیچ دی ہے کہ ان کا سچ ہی آخری سچ ہے۔ وہ ایماندار ہیں باقی بے ایمان ہیں۔ زرداری اور بینظیر بھٹو کے جیالوں کو ان کی کرپشن سے کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ شریفوں کی پنجاب میں پاپولریٹی کم ہونے اور ضمنی الیکشن ہارنے کی وجہ ان کی بیرونِ ملک جائیدادیں نہیں ہیں بلکہ مہنگائی ہے۔ لوگوں کو یہاں مالی کرپشن یا اخلاقی کرپشن سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو عمران خان اور نواز شریف لیڈر نہ ہوتے۔عمران خان کے حامی بھی اسی رنگ میں رنگے گئے ہیں جس میں پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے ورکرز رنگے گئے تھے۔اب عمران خان کے حامیوں پاس ایک دو جواز ہی بچے ہیں کہ عمران خان ان دونوں زرداری اور شریف سے کم کرپٹ ہے۔ وہ کم برائی ہے۔ اس نے کم عرصہ حکومت کی ہے۔ اسے حکومت پہلی دفعہ ملی تھی۔ اس کے مقابلے زرداری اور شریف تین تین دفعہ حکومت کر چکے ہیں۔ اسے پہلے تین دفعہ حکومت کرنے دیں پھر خان کا موزانہ شریفوں اور زرداریوں سے کر لیجیے گا۔
مطلب یہ ہے کہ ہم مانتے ہیں کہ جو کام خان نے نہیں کرنے تھے وہ اس نے کیے تو ہیں لیکن ان کی سنگینی کم ہے۔ مطلب ابھی وہ اقتدار میں نیا نیا تھا۔ اسے ابھی شریف اور زرداری بننے دیں پھر ہم دیکھیں گے۔ نواز شریف کو بھی یہی رعاتیں دی گئی تھیں‘ بینظیر بھٹو کے مقابلے پر اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اب عوام کی نظروں میں بڑا عفریت بن کر ابھرا ہے۔ عمران خان کی تقریروں نے عوام میں ایک نیا جوش اور جذبہ پیدا کیا تھا۔ ہر جلسے میں وہ ٹیپو سلطان بننے کی باتیں کرتے تھے۔ گیدڑ اور شیر کی زندگی کا فرق بتاتے تھے۔ جس بندے نے قوم کو امریکہ سے لڑا کر عظیم قوم بنانا تھا وہ اب کئی ماہ سے زمان پارک میں خود کو قید کر کے بیٹھا ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کبھی حالیہ تاریخ میں کسی سیاسی لیڈر نے اپنے ورکرز یا حامیوں کو رات دو بجے بلایا ہو کہ مجھے پولیس گرفتار کرنے آرہی لہٰذا فورا ًمیرے گھر پہنچ کر پہرہ دیں۔
لوگ کسی کو اپنا ہیرو اس وقت مانتے ہیں جب وہ بندہ انہیں غیرمعمولی صلاحتیوں کا مالک ‘ ذہین اور ان سے بہادر لگتا ہے۔ عمران خان کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کی بہادری اور بے خوفی تھی‘ کہ وہ تو امریکہ کے سامنے ڈٹ جاتا ہے۔ بھٹو بھی امریکہ کے سامنے ڈٹ کر ہیرو بن گیا تھا‘ خان بھی امریکہ کے سامنے ڈٹ گیاتھا؛ تاہم بھٹو آخری لمحے تک امریکہ کے سامنے ڈٹا رہا جبکہ عمران خان امریکہ کے ساتھ صلح صفائی میں لگا ہوا ہے اور فواد چودھری کی امریکی سفارت کاروں سے دو تین ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔عوام کو خان نے یہ یقین دلا دیا تھا کہ وہ انہیں زرداری اور شریفوں سے بچائے گا‘ وہ اکیلا ہی ان سے نبٹنے کے لیے کافی تھا‘ وہ پاکستان کا نیا ٹیپو سلطان تھا جو ایک دن کی زندگی پر سو سال قربان کرنے کو تیار تھا۔خان نے جس عوام کو زرداری اور شریفوں سے بچانا تھا وہی لوگ اب زمان پارک کے باہر خان کو بچانے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ایک پرانی رسم ہے جب کوئی شیر بوڑھا ہو جائے اور ڈرنا شروع ہو جائے تو اس کا اپنا گروہ اس کا دشمن ہو جاتا ہے۔ وہ اس سے ڈرنا چھوڑ جاتے ہیں۔ بوڑھا شیر اپنا احترام اور دبدبہ ختم کر بیٹھتا ہے۔خان نے بھی گرفتاری کے خوف سے جس عوام کو اپنے گھر اکٹھا کر لیا ہے اس عوام پر سے خان کی بہادری کا رعب کم ہوتا جائے گا۔ وہ تو خان کو ایسا جنگجو مسیحا سمجھتے تھے جو زرداری اور شریفوں کی پولیس سے انہیں بچائے گا۔ پتا چلا ہے عوام کو ہی اپنے خان کو پولیس سے بچانا پڑ گیا ہے۔ خان کی یہ کمزوری انہیں سیاسی طور پر مہنگی پڑے گی۔ ہزاروں سال کی انسانی تاریخ کا یہی سبق ہے کہ عوام بہادر لیڈروں کو پسند کرتے آئے ہیں‘بزدلوں کو نہیں۔ مورخ لکھے گا جب خان صاحب کے ٹیپوسلطان بننے کا وقت آیا تووہ حوصلہ ہار گئے۔تاریخ سے بہادروں کی مثالیں دینا اور خود بہادر بننے میں بڑا فرق ہے۔وہ بے چارہ گیدڑ جس کی خان صاحب اپنی تقریروں میں شیر کی زندگی سے موازانہ کر کے روزانہ بے عزتی کرتے تھے وہ اب دور کہیں کسی جنگل میں پورے چاند کی روشنی میں کھڑا مسکرا تا ہوگا۔
ابھی ایک اور انکشاف ہوا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیوں میں مفت پٹرول ڈلتا ہے۔ خبر دینے والے بھول جاتے ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں میں پٹرول مفت نہیں پڑتا۔ جو وہ گاڑیاں چلا رہے ہیں انہیں مفت ملتا ہے اور ان ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں کا پٹرول کا سارا خرچہ عوام پر ٹیکس لگا کر پورا کیا جاتا ہے کیونکہ جہاں سے پٹرول خریدتے ہیں وہ تو اپنا بل چارج کرتے ہیں۔ لیکن آپ داد دیں کہ کیسے ان لیڈروں نے اپنے فالورز کو یہ کہانی بیچ دی ہے کہ ان کا سچ ہی آخری سچ ہے۔ وہ ایماندار ہیں باقی بے ایمان ہیں۔ زرداری اور بینظیر بھٹو کے جیالوں کو ان کی کرپشن سے کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ شریفوں کی پنجاب میں پاپولریٹی کم ہونے اور ضمنی الیکشن ہارنے کی وجہ ان کی بیرونِ ملک جائیدادیں نہیں ہیں بلکہ مہنگائی ہے۔ لوگوں کو یہاں مالی کرپشن یا اخلاقی کرپشن سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو عمران خان اور نواز شریف لیڈر نہ ہوتے۔عمران خان کے حامی بھی اسی رنگ میں رنگے گئے ہیں جس میں پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے ورکرز رنگے گئے تھے۔اب عمران خان کے حامیوں پاس ایک دو جواز ہی بچے ہیں کہ عمران خان ان دونوں زرداری اور شریف سے کم کرپٹ ہے۔ وہ کم برائی ہے۔ اس نے کم عرصہ حکومت کی ہے۔ اسے حکومت پہلی دفعہ ملی تھی۔ اس کے مقابلے زرداری اور شریف تین تین دفعہ حکومت کر چکے ہیں۔ اسے پہلے تین دفعہ حکومت کرنے دیں پھر خان کا موزانہ شریفوں اور زرداریوں سے کر لیجیے گا۔
مطلب یہ ہے کہ ہم مانتے ہیں کہ جو کام خان نے نہیں کرنے تھے وہ اس نے کیے تو ہیں لیکن ان کی سنگینی کم ہے۔ مطلب ابھی وہ اقتدار میں نیا نیا تھا۔ اسے ابھی شریف اور زرداری بننے دیں پھر ہم دیکھیں گے۔ نواز شریف کو بھی یہی رعاتیں دی گئی تھیں‘ بینظیر بھٹو کے مقابلے پر اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اب عوام کی نظروں میں بڑا عفریت بن کر ابھرا ہے۔ عمران خان کی تقریروں نے عوام میں ایک نیا جوش اور جذبہ پیدا کیا تھا۔ ہر جلسے میں وہ ٹیپو سلطان بننے کی باتیں کرتے تھے۔ گیدڑ اور شیر کی زندگی کا فرق بتاتے تھے۔ جس بندے نے قوم کو امریکہ سے لڑا کر عظیم قوم بنانا تھا وہ اب کئی ماہ سے زمان پارک میں خود کو قید کر کے بیٹھا ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کبھی حالیہ تاریخ میں کسی سیاسی لیڈر نے اپنے ورکرز یا حامیوں کو رات دو بجے بلایا ہو کہ مجھے پولیس گرفتار کرنے آرہی لہٰذا فورا ًمیرے گھر پہنچ کر پہرہ دیں۔
لوگ کسی کو اپنا ہیرو اس وقت مانتے ہیں جب وہ بندہ انہیں غیرمعمولی صلاحتیوں کا مالک ‘ ذہین اور ان سے بہادر لگتا ہے۔ عمران خان کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کی بہادری اور بے خوفی تھی‘ کہ وہ تو امریکہ کے سامنے ڈٹ جاتا ہے۔ بھٹو بھی امریکہ کے سامنے ڈٹ کر ہیرو بن گیا تھا‘ خان بھی امریکہ کے سامنے ڈٹ گیاتھا؛ تاہم بھٹو آخری لمحے تک امریکہ کے سامنے ڈٹا رہا جبکہ عمران خان امریکہ کے ساتھ صلح صفائی میں لگا ہوا ہے اور فواد چودھری کی امریکی سفارت کاروں سے دو تین ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔عوام کو خان نے یہ یقین دلا دیا تھا کہ وہ انہیں زرداری اور شریفوں سے بچائے گا‘ وہ اکیلا ہی ان سے نبٹنے کے لیے کافی تھا‘ وہ پاکستان کا نیا ٹیپو سلطان تھا جو ایک دن کی زندگی پر سو سال قربان کرنے کو تیار تھا۔خان نے جس عوام کو زرداری اور شریفوں سے بچانا تھا وہی لوگ اب زمان پارک کے باہر خان کو بچانے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ایک پرانی رسم ہے جب کوئی شیر بوڑھا ہو جائے اور ڈرنا شروع ہو جائے تو اس کا اپنا گروہ اس کا دشمن ہو جاتا ہے۔ وہ اس سے ڈرنا چھوڑ جاتے ہیں۔ بوڑھا شیر اپنا احترام اور دبدبہ ختم کر بیٹھتا ہے۔خان نے بھی گرفتاری کے خوف سے جس عوام کو اپنے گھر اکٹھا کر لیا ہے اس عوام پر سے خان کی بہادری کا رعب کم ہوتا جائے گا۔ وہ تو خان کو ایسا جنگجو مسیحا سمجھتے تھے جو زرداری اور شریفوں کی پولیس سے انہیں بچائے گا۔ پتا چلا ہے عوام کو ہی اپنے خان کو پولیس سے بچانا پڑ گیا ہے۔ خان کی یہ کمزوری انہیں سیاسی طور پر مہنگی پڑے گی۔ ہزاروں سال کی انسانی تاریخ کا یہی سبق ہے کہ عوام بہادر لیڈروں کو پسند کرتے آئے ہیں‘بزدلوں کو نہیں۔ مورخ لکھے گا جب خان صاحب کے ٹیپوسلطان بننے کا وقت آیا تووہ حوصلہ ہار گئے۔تاریخ سے بہادروں کی مثالیں دینا اور خود بہادر بننے میں بڑا فرق ہے۔وہ بے چارہ گیدڑ جس کی خان صاحب اپنی تقریروں میں شیر کی زندگی سے موازانہ کر کے روزانہ بے عزتی کرتے تھے وہ اب دور کہیں کسی جنگل میں پورے چاند کی روشنی میں کھڑا مسکرا تا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ