اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ٹی آئی قومی اسمبلی سے استعفوں اور بعدازاں پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی قبل از وقت تحلیل کے باوجود تاحال الیکشن کی حتمی تاریخ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکی لیکن دوسری طرف سیاسی کشمکش نقطہ اُبال تک پہنچ کر آئینی و سیاسی بحران کو مزید گنجلک بناتی نظر آ رہی ہے۔ ”ووٹ کو عزت دو‘‘ بیانیہ میں پسپائی کے بعد اب حکمران جماعت نواز لیگ اگلے روز سامنے آنے والی آڈیو لیکس سے پیدا ہونے والی غیرمعمولی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے سرگرداں نظر آتی ہے۔ نواز لیگ کی پختہ کار لیڈر شپ اس کشمکش کو تقسیم اختیار کے آئینی فارمولا کے ازسرنو تعین کا خوبصورت موقع جان کر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی۔ اُدھر عمران خان اپنے کھوئے ہوئے اقتدار کی بازیابی کے لیے ایک ایسے جنونِ استرداد میں مبتلا ہیں‘ جس کی تاحال کوئی واضح سمت دکھائی نہیں دے رہی۔ لاریب‘ چومکھی لڑائی میں تمام سٹیک ہولڈرز اپنے دائرہ اختیار کی حدود بڑھانے کے خبط میں ریاستی ڈھانچے کو بنیادی تبدیلیوں کے دہانے تک کھینچ لائے ہیں اور یہی ناگوار اتھل پتھل‘ سیاسی بدنظمی‘ معاشی بحران اور امن و امان کی حالت کو مزید بگاڑنے کا سبب بنے گی۔ کیا اقتدار کی کشمکش نے اُس سیاسی بندوبست کے تارپود بکھیر دیے جسے عالمی سیاست کے تقاضوں کے مطابق ڈیزائن کیا گیا تھا؟ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ ہوشربا مہنگائی اور دوبارہ ابھرنے والی دہشت گردی نے بائیس کروڑ سے زائد آبادی والے سٹریٹجک اہمیت کے حامل عظیم ملک کو فنا و بقا کے خطِ امتیاز پہ لا کھڑا کیا‘ جس میں اندرونی تنازعات کو جواز بنا کر عالمی طاقتیں ہمارے اہم اثاثوں کے تحفظ کے حوالے سے سوال اٹھا سکتی ہیں۔ اسی تناظر میں حال ہی میں جاری کردہ امریکی صدر جوبائیڈن کے بیان کو عالمی سطح پر جوہری اثاثوں کی نگرانی کرنے والی آئی اے ای اے کی ٹیموں کے دورے سے ملا کر دیکھا جائے تو بات سمجھ میں آ جائے گی۔ اگر توانائی کی قلت کی وجہ سے صنعتی پہیہ رک گیا اور معاشی بدحالی کے نتیجہ میں شہری سڑکوں پہ نکل آئے تو کالعدم ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں کی طرف سے پولیس پہ حملوں کی لہر کو عالمی طاقتیں حکومت کی نمایاں کمزوری اور قانون کے نفاذ کی عدم صلاحیت سے تعبیر کرتے ہوئے ان عناصر کے خلاف ہماری استعداد کار پر سوال اٹھا کے مملکت کی مشکلات بڑھا دیں گی۔ بلاشبہ اقتصادی مشکلات اور دہشت گردی نے دائمی بدانتظامی کے ساتھ مل کر ہمارے سیاسی نظام کے لیے ممکنہ طور پر جان لیوا خطرات پیدا کر دیے۔ تقدیر نے ظاہری طور پہ غیرمربوط واقعات کی مدد سے اس وقت جن تین قسم کے بحرانوں کو ہمارے
سر پہ لا کھڑا کیا‘ ان میں اقتصادی اور سیاسی بحران کی نسبت وہ سکیورٹی بحران زیادہ سنگین ہے جو کابل سے امریکی انخلا کے بعد پیدا ہوا اور جسے قومی قیادت کے ذہنی تضادات نے مزید پیچیدہ بنا دیا۔ دہشت گردی کے خلاف جو جنگ وسیع پیمانے پر افلاس پھیلانے کا سبب بنی اور جس کی کوکھ سے جنم لینے والے مہیب تشدد کی حرکیات نے پاکستانیوں کی روح کو تاریک کر دیا‘ جب یہ جنگ ختم ہوئی تو معلوم ہوا کہ فاتح و مفتوح‘ دونوں نے وہ تمام چیزیں کھو دیں جن کی خاطر وہ لڑ رہے تھے لیکن اسی جنگ کی بدولت آمریت کے بحران بڑھے تو لوگوں نے سیاستدانوں کی کوتاہیوں کو بھلا کر ایک بار پھر جمہوریت کو مدد کے لیے پکارا‘ یوں پچھلے بیس برسوں کے دوران اس نظام سے نجات کی خواہش کرنے والوں کی تعداد بڑھتی گئی بلکہ اس وقت بھی سوشل میڈیا پہ کئی ایسے نیٹ ورک فعال ہیں جو اس نظام کے خلاف مہمات چلانے میں مشغول ہیں اورمائیکرو لیول پہ چلائی جانے والی ان مہمات کے خلاف دفاعی عنصر کمزور نظر آتا ہے اور ایسے حالات سے نمٹنے کی خاطر حکمران اتحاد میں ذہنی ہم آہنگی مفقود ہے۔ نواز لیگ‘ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف)کے مابین کئی بنیادی امور پہ اختلافِ رائے کی وجہ سے گورنمنٹ کی ڈیلیوری کی صلاحیت گھٹ رہی ہے۔ مملکت کے وجود پہ حملے کرنے والی کالعدم ٹی ٹی پی کے علاوہ افغان طالبان سے نمٹنے جیسے پالیسی امور پہ پیپلز پارٹی‘ نواز لیگ اور جے یو آئی (ف)کی سوچ میں تضاد ہے حتیٰ کہ عمران خان کی گرفتاری کے معاملہ پہ بھی حکمران اتحاد میں اتفاقِ رائے نہیں پایاجاتا۔ شنید ہے کہ نواز لیگ اور جے یو
آئی(ف) گرفتاری کی حامی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی خان صاحب کی گرفتار کے خلاف ہے۔ ملک کو درپیش اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے بھی متعلقہ حلقوں میں اختلافات موجود ہیں۔ اس وقت سیاستدانوں کو صرف عوام میں اپنی ساکھ بچانے کا مسئلہ درپیش ہے۔ فی الوقت زرِ مبادلہ کے ذخائرکم ہو کر 2.9 بلین ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں جو تین ہفتوں کی درآمدات کے لیے بھی کافی نہیں جبکہ عوامی قرضہ 270بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ قرضوں کے بڑھتے ہوئے حجم نے حکومت کو آئی ایم ایف کے سامنے سر نگوں ہونے پہ مجبور کر دیا ہے‘ وہ اس مالیاتی بیل آؤٹ پیکیج کو دوبارہ بحال کرانا چاہتی ہے جسے تحریک انصاف کی حکومت نے سیاسی مفادات کے پیش نظر گزشتہ سال کے اوائل میں روک دیا تھا۔ انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ کے تکلیف دہ مطالبات کی شدت کو کم کرنے کے لیے بات چیت کا اذیت ناک دور طویل تر ہو رہا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کے لیے اس سال کے آخر میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنا اہم ہدف ہے۔ ایسے اشارے بھی موجود ہیں کہ معاشی دباؤ عام پاکستانیوں کی بنیادی ضروریات کو متاثر کرے گا‘ جیسے شہریوں کو جنوری کے آخر میں ملک بھر میں غیرمعمولی بلیک آؤٹ کا سامنا کرنا پڑا‘ اگرچہ بندش کی وجہ واضح نہیں لیکن یہ طویل بریک ڈاؤن مستقبل کے حوادث کی نشاندہی ضرورکرتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بجلی پیدا کرنے کا نظام کافی حد تک ایندھن کی درآمد پر منحصر ہے‘ اگر توانائی کی پیداوار کے متبادل ذرائع تلاش نہ کیے گئے تو ہمارا امپورٹ بل بتدریج بڑھتا جائے گا۔ بالآخر ہمیں بجلی کی طویل بریک ڈاؤن اور بندش یا یہاں تک کے نقل و حمل کے لیے ایندھن کی قلت جیسے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پیچیدہ معاشی بحران‘ خاص طور پر قرضوں میں ڈوبی معیشت‘ جسے خود غرض اشرافیہ کے سوا سنبھالنے والی کوئی غیرمتنازعہ سیاسی قیادت موجود نہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب عوام کو 48سال کی بلند ترین مہنگائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو‘ اس وقت ہمیں ایک مضبوط حکومت ہی معاشی نظم و ضبط اور سماجی امن فراہم کر سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے قومی سیاسی قیادت انتشار کی ایسی دلدل میں پھنس گئی جس سے اسے نکالنے والا کوئی نہیں۔ ارسطو نے کہا تھا ”سیاست معاشرے کو
متشکل کرنے والے طبقات کے درمیان مفاہمت کا آرٹ ہے‘‘ تاہم ہمارے ہاں سیاسی مفاہمت کے امکانات بدستور بعید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پچھلی چند دہائیوں میں جہاں جنوبی ایشیا کا بیشتر حصہ بتدریج امیر اور مستحکم ہوا وہاں عالمی قوتوں کی پراکسیوں کی وجہ سے پاکستان غربت‘ افراتفری اور عدم استحکام کا شکار ہوتا رہا۔ 1990ء کی دہائی میں گلوبلائزیشن اور تجارت کے آزادانہ ہونے کے دوران ہمارے ملک میں اشرافیہ کے درمیان طاقت کا کھیل جاری رہا۔ جس کے نتیجہ میں قومی معیشت ایسی پالیسیوں میں پھنستی چلی گئی جن کا محور مملکت کی اس اکثریتی آبادی‘ جو زراعت اور صنعتوں کے پیدواری عمل سے وابستہ تھی‘ کی جائز ضروریات پوری کرنے پہ توجہ دینے کے برعکس اشرافیہ کو سبسڈی فراہم کی جاتی تھی لیکن اب جب اشرافیہ کے شاہانہ طرزِ زندگی کو زرخیز رکھنے والے غیرملکی زرِمبادلہ کے ذخائر خشک ہوئے تو پھر انہی غریب لوگوں سے قربانی لینے کی پالیسی اختیار کر لی گئی‘ جو سات دہائیوں سے اس استیصالی سوچ کا شکار بنے۔ آئی ایم ایف وفد نے اپنے حالیہ دورے کے دوران دو سو کے لگ بھگ گالف گراؤنڈز ختم کرنے‘ ترقیاتی اور غیرترقیاتی اخراجات کم کرنے کے علاوہ سرکاری افسران کے ملکی و غیرملکی اثاثے ظاہر کرنے کی شرط عائد کی جسے غچہ دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ سعودی عرب‘ جو پاکستان کو طویل عرصے سے امداد دینے والا ملک تھا‘ نے گزشتہ ماہ اعلان کیا کہ بیرونی ممالک کے لیے مستقبل کے امدادی پیکیجز کا انحصار اندرونی معاشی اصلاحات سے مشروط ہوگا۔ یہ اعلان مصر اور پاکستان جیسے دائمی امداد وصول کنندگان کے لیے انتباہ تھا۔ متحدہ عرب امارات نے بھی حال ہی میں ہمیں کچھ مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا لیکن یہ معمولی رقم ہماری ضروریات کے لیے ناکافی تھی۔ اس سے محض چند ہفتوں تک اہم اشیا کی درآمدات کر سکتے ہیں۔ چین نے بھی اب تک سی پیک پر دوبارہ مذاکرات پہ آمادگی ظاہر نہیں کی‘ امریکی افغانستان سے رسوا کن انخلا کے بعد ہمیں سبق سکھانے کی پالیسی پہ عمل پیرا ہیں۔اگر اب بھی معاشی اصلاحات پر توجہ مرکوز نہ کی گئی تو ملکی معیشت کو سنبھالا دینا مزید مشکل ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان
اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان
پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان
افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان
عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ