ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ بخشے ہمارے ایک دوست تھے عزیز صاحب، کہتے تھے :” یہ جو خواتین کی تعظیم اور ان کا خیال رکھے جانے کا سلسلہ ہے یہ اصل میں مردانہ شاونزم کا معکوس اظہار ہے”۔ سچ ہے میں نے کبھی عورتوں کو یہ کہتے نہیں سنا اور نہ ہی کہیں لکھا پڑھا کہ "ہم مردوں کا بے حد احترام کرتی ہیں”۔ شاید ایسا ہو کہ انہوں نے مرد کے احترام، مرد کی ان کی زندگی، گھر اور کنبے میں ضرورت اور مرد سے خوف یا جھجھک کو باہم کر دیا ہو۔ خواتین یہ ضرور کہتی ہیں کہ میں اپنے والد کا ، بھائی کا یا شوہر کا بہت احترام کرتی ہوں لیکن مرد کا بطور جنس کے احترام شاید خواتین پہ لازم نہیں اور مردوں پر لازم ہے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ مرد عورتوں کے بارے میں ایسا کہہ کے خود کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہوں کہ انہیں عورت کا احترام کرنا چاہیے یا فی الواقعی احترام نہ کرنے کی وجہ سے ہوئی اپنی شرمساری کو چھپانے کی خاطر سرعام ایسا کہہ کر خجالت مٹاتے ہوں یا ایسا کہے کو محض استعمال کرتے ہوں۔
مجھے عورتوں سے کوئی خاص ہمدردی نہیں، اتنی ہی ہے جتنی مردوں سے کیونکہ میں ان دونوں انواع کو انسان سمجھتا ہوں۔ میں انہیں معذور ، مجبور، مقہور تصور نہیں کرتا اگرچہ ایسا ہے لیکن کم از کم کچھ تو ایسے انسان ہوں جو انہیں اپنے برابر کا اور اپنے جیسا سمجھتے ہوں۔ درست ہے کہ عورت اور مرد بہت زیادہ حد تک مختلف ہیں۔ جسمانی طور پر بھی اور نفسیاتی طور پر بھی۔ مرد نے اس کی ان خاصیتوں کی وجہ سے اس کا استحصال کیا ہے۔ ان کو پیچھے رکھا ہے۔ اور تو اور خدا، بھگوان، رام، گاڈ سب کو نر بنا دیا اور خواتین کو مذہبی طور پر بھی قائل کر دیا کہ اس کو اسی طرح بالا دست مانیں جس طرح خالق ابدی کو۔
دنیا میں دن منائے جانے کا رواج ہے۔ ایسا کیے جانے کی ضرورت بین الاقوامی طور پر کسی مقصد کو پورا کیے جانے کی خاطر محسوس کی جایا کرتی ہے جسیے پولیو کے خاتمے کا دن، جنگ عظیم میں فتح پانے کا دن، تمباکو نوشی چھوڑنے کی کوشش کرنے کا دن وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ مجھے 8مارچ کو یوم خواتین کے طور پر منائے جانے کی بالکل سمجھ نہیں آئی۔ اگر یہ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد یا کم از کم اعادہ کرنے کا دن کہلاتا تب بھی درست تھا۔ کسی زمانے میں انارکلی بازار لاہور کی ایک بڑی دکان کا بہت پرانا اشتہار مجھے ہر 8 مارچ کو یاد آتا ہے کہ "اک مہینہ تہاڈا تے باقی مہینے ساڈے” یعنی ایک ماہ کے لیے آپ کے لیے چیزیں سستی ہیں اور گیارہ ماہ ہمارے کمانے کے ہونگے۔ مردوں نے تو اس دکان والوں کی صاف گوئی کو بھی مات کر دیا کہ بیچاری خواتین کے نام ایک روز منسوب کر دیا، باقی 364 ایام میں ان کے ساتھ جو سلوک چاہے روا رکھا جائے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ یہ دن مردوں نے تجویز نہیں کیا تھا بلکہ ایک جرمن کمیونسٹ خاتون کلارا زیٹکین نے تجویز کیا تھا، جسے مردوں نے منظور کر لیا تھا۔ یہ دن دراصل سوویت یونین میں منایا جاتا تھا اور آج بھی روس کا اہم ترین تہوار ہے۔ کہیں 1990 کی دہائی میں آ کر اقوام متحدہ نے اسے بین الاقوامی طور پر منائے جانے والے دن کا درجہ دیا تھا۔
روس میں اس روز خواتین کو خاص طور پر پھول پیش کیے جاتے ہیں۔ ان کے نام پہ جام تجویز کیے جاتے ہیں۔ ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں جو اکثر نشے میں کہا ہوا اور بالعموم جھوٹ ہوتا ہے۔ تحفے تحائف دیے جاتے ہیں۔ عورتیں خوش ہوتی ہیں اور مرد پی پی کر لڑھکتے جاتے ہیں۔ دفاتر میں چونکہ اس روز تعطیل ہوتی پے چنانچہ ایک دو روز پہلے شیمپین پی کر، پھول اور چھوٹے موٹے تحفے دے کر رسمی طور پر یہ دن منا لیا جاتا ہے۔ اگلے روز سے ساری عورتیں پہلے کی طرح غیراہم یا کم اہم ہو جاتی ہیں۔
کوئی تہوار منایا جانا اجتماعی سرخوشی کا موجب بنتا ہے اس لیے اس روز کو تہوار کے طور پر منائے جانے پر کم از کم مجھے تو کوئی اعتراض نہیں البتہ مجھے اس بات پر اعتراض ضرور ہے کہ خواتین نے مردانہ شاونزم کے معکوس اظہار کو اس قدر خوشی سے قبول کیوں کر لیا؟ اگر ایسا ہوتا کہ اس روز مرد شراب کو ہاتھ تک نہیں لگائیں گے بلکہ عورتیں ہی مخمور ہونگی۔ گھروں کا سارا کام مرد کریں گے اور عہد کریں گے کہ آج سے گھر کے تمام کاموں میں عورتوں کا ہاتھ بٹائیں گے۔ حکومتیں طے کریں گی کہ عورتوں کی اسمبلیوں، دفاتر اور دیگر شعبوں میں آبادی کی مناسبت سے حصہ ہوگا، تب تو بہت اچھا تھا۔
یورپ جہاں کہنے کو عورتوں کے بہت زیادہ حقوق ہیں وہاں عورت دوہرے تہرے کام کرتی ہے اور مرد کی بالا دستی کو بھی کم و بیش اسی طرح سہتی ہے جیسے کم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملکوں کے خوشحال گھرانوں کی عورتیں۔ دوم الذکر ملکوں کی تو بات ہی کیا کرنی۔ کوئی آٹھ سال پیشتر دہلی میں ڈاکٹر بن کر فارغ ہوئی 23 سالہ لڑکی جیوتی سنگھ کو ایک چلتی ہوئی بس میں چھ ان پڑھ اور غریب نوجوانوں نے انتہائی بری طرح اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور بس سے باہر پھینک دیا تھا جو کئی روز موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا اذیتیں سہنے کے بعد مر گئی تھی۔ اس واقعے پر ایک دستاویزی فلم بنی تھی جس پر ہندوستان میں پابندی لگا دی گئی۔ اس فلم میں مجرموں کا وکیل صفائی کہتا ہے ” اگرمیری بہن یا بیٹی ہمارے اصولوں کا پالن نہ کرے اور کسی مرد سے دوستی لگائے تو میں اپنے پورے کنبے کے سامنے اس پر پٹرول چھڑک کر آگ لگانے کو تیار ہوں”۔ واہ واہ کیا بات ہے ایک اعلٰی تعلیم یافتہ، قانون جاننے والے شخص کے بیان کی۔ مجرم کہتا ہے "اور بھی کئی لوگ ریپ کرکے مار دیتے ہیں اور چھوٹ جاتے ہیں ہم نے ایسا کیا کیا کہ ہمیں سزائے موت دے دی گئی۔ لڑکی کا بھی تو قصور تھا وہ اپنے دوست لڑکے کے ساتھ پھر رہی تھی” یعنی دوست لڑکے کے ساتھ پھرنے کا مطلب اوباش ہونا ہے جو سب کے لیے دعوت شیراز ہے۔
پہلے مردوں کی سوچ بدلیں اور اس کے لیے 8 مارچ کو مردوں کا ذہن تبدیل کیے جانے کو منانے کے دن کے طور پر منایا جائے تو واضح ہوگا کہ عورتیں مرد کے شاونزم کو پھول، تحفے اور اپنے نام کیے جانے والے جام صحت کے عوض ماننے پر تیار نہیں ہیں بلکہ ایک بنیادی تبدیلی لانے کی خواہشمند ہیں اور عورتیں ایسا کر سکتی ہیں کیونکہ بچوں کی تربیت کرکے وہی انہیں بڑا کرتی ہیں جو بعد میں خود کو بطور مرد منواتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ