تحریر:مرزا حبیب الرحمان
سرائیکی خطے کی محرومیوں‘ محکومیوں کے خلاف نصف صدی تک جدوجہد کرنے والے مفکر سرائیکستان مرید حسین راز جتوئی صاحب 16جون 1916ء کو موجودہ تحصیل جتوئی ضلع مظفر گڑھ میں نبی بخش خان جتوئی کے گھر پیدا ہوئے۔خان پور سے مرید حسین خان جتوئی نے 1942ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرتے ہی ملٹی نیشنل چائے کی کمپنی بروک بانڈ میں بطور سیلز آفیسر ملازمت کر لی اور 22 برس ملازمت کرنے کے بعد 1964ء میں ریٹائرمنٹ لے کر کریانہ کی ذاتی دکان کھول لی۔سرائیکی خطے کے حقوق کے لئے انتھک عملی جدوجہد کرنے اور اپنی تحریروں سے محکوموں میں حریت فکر اور حقوق کی پاسداری کا جذبہ پیدا کرنے والے عظیم قوم پرست رہنما دانشور‘ ادیب‘ مفکر سرائیکستان مرید حسین خان راز جتوئی مختصر علالت کے بعد 20فروری 2012ء بروز سوموار خالق حقیقی سے جا ملے۔ سرائیکی خطے کے حقوق اور ان کی محرومیوں کے خاتمے کے لئے راز جتوئی نے نصف صدی تک گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔28 مارچ 1970ء میں جب یحییٰ خان نے بہاولپور کو ون یونٹ کے خاتمے کے بعد پنجاب میں ضم کر دیا تو ریاست بہاولپور میں بہاولپور صوبہ بحالی کی تحریک شروع ہوئی جس میں راز جتوئی نے مقامی طور پر بھرپور حصہ لیا۔جلسے منعقد کئے جلوس نکالے بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے خواتین کو منظم کیا جن کی قیادت آپ کی اہلیہ نور بی بی کرتی۔اپنی گرانقدر جدوجہد کے نتیجے میں راز جتوئی صاحب کا شمار مقامی طور پر بہاولپور صوبہ بحالی کی تحریک کے صف اول کے رہنمائوں میں شمار ہونے لگا۔19اپریل 1970ء کو خان پور میں بہاولپور بحالی صوبہ کے رہنمائوں اکبر بابر ایڈووکیٹ‘ اللہ بخش کے ہمراہ مارشل لاء کی خلاف ورزی پر مرید حسین راز جتوئی صاحب نے بھی اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کیا۔ مرید حسین راز جتوئی نے خطے کی محرومیوں اور محکومیوں کو اجاگر کرنے اور خطے کی عوام میں حریت فکر پیدا کرنے اور عملی جدوجہد میں شامل ہونے کے لئے سینکڑوں پمفلٹ‘ مضامین اور ہزاروں خطوط پورے سرائیکی خطے میں بھیجے جو عوام و خواص اپنے حقوق تاریخ و ثقافت سے آگاہی اور تحرک کا باعث بنے۔اس کے علاوہ سرائیکی خطے کی تاریخ و ثقافت زبان و ادب محرومیوں اور محکومیوں کو اجاگر کرتی ۔مفکر سرائیکستان کی کتاب ’’سرائیکی تحریک کیوں…‘‘ سرائیکی تحریک اور جناب راز جتوئی صاحب کی خدمات کے حوالے سے ایک تاریخی اور نادر دستاویز ہے جو 25جولائی 1993ء میں شائع ہوئی۔ سرائیکی خطے کے حقوق میں راز جتوئی صاحب کے ساتھ ساتھ ان کے تمام فرزندوں نے بھی خدمات سرانجام دیں۔ راز جتوئی صاحب نے سرائیکی تحریک میں عملی جدوجہد کے ساتھ ساتھ سرائیکی تہذیب ‘ ثقافت اور زبان و ادب کے فروغ کے لئے بھی گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔آپ نے نثری طور پر کئی مضامین‘ افسانے‘ ایک ڈرامہ ’’بھلیکا‘‘ اور بچوں کے لئے بھی کہانیاں لکھیں۔ آپ نے بطور شاعر گیت‘ قطعے‘ ترانے‘ سرائیکی رہنمائوں کو منظوم خراج عقیدت پیش کرنے کے علاوہ کثیر تعداد میں وسیب کی محرومیوں کو اجاگر کیا۔معروف محقق‘ ادیب ‘ ماہر لسانیات‘ دانشور جناب دلشاد کلانچوی لکھتے ہیں کہ ’’محترم راز جتوئی کافی عرصہ سے ایک قلمی جہاد کر رہے ہیں ان کی بے شمار معروضات اور گزارشات قلمی اور چھپی ہوئی باقاعدگی سے ملتی رہی ہیں۔یہ ان کی مستقل مزاجی کا اک بین ثبوت ہے۔آپ دلی ہمددی سے لکھتے ہیں۔ خلوص سے لکھتے ہیں‘ لگاتار اور بے تحاشہ لکھتے ہیں ہر بار نئے دلائل اور توجیہات سے لکھتے اپنی کاز کو راز جتوئی نے پوری توجہ اور تندہی سے پیش کیا ہے اور عملی جدوجہد کا درس دیتی نظمیں لکھیں جن میں سے آپ کی نظم’’اساں باغی ہاں اساں باغی ہاں‘‘ تو سرائیکی تحریک کا نعرہ اور سلوگن بن گئی۔ جناب راز جتوئی کو سرائیکی تحریک میں اپنے اخلاص کی بنا پر کی گئی جدوجہد کی وجہ سے ہمیشہ عقیدت و احترام کی وجہ سے دیکھا جاتا تھا۔آپ کو آپ کی خدمات پر 2001ء میں خواجہ فرید ایوارڈ سمیت دیگر کئی ایواڈز دیے گئے اور سب سے بڑا اعزاز 16نومبر 2002ء میں سرائیکی خطہ میں حقوق کی جدوجہد اور ثقافت سے سرائیکی خطے کے سب سے بڑے اجتماع مہرے والا کے ثقافتی میلہ میں جناب عاشق بزادر اور دیگر منتظمین نے قوم پرست رہنمائوں کی موجودگی میں آپ کی خدمات کا اعتراف کیا اور آپ آج تک واحد قوم پرست رہنما ہیں جنہیں یہ اعزاز بخشا گیا۔اس کے علاوہ عوام اور قوم پرست رہنمائوں کی طرف سے خطوط آپ کی تعریف و توصیف میں سرائیکی خطے کے حوالے سے جدوجہد کے حوالے سے لکھے گئے اور ہمیشہ مختلف پروگرامز میں بھی آپ کی خدمات کا اعتراف کیا۔معروف دانشور چیف ایڈیٹر روزنامہ جھوک ‘ رہنما سرائیکستان قومی کونسل جناب ظہور احمد دھریجہ صاحب راز جتوئی صاحب کی کتاب سرا کیوں۔ ۔؟میں تاثرات کے عنوان سے صفحہ نمبر 108-9پر لکھتے ہیں کہ ’’گزشتہ بیس برس سے ہمارے اور مرید حسین خان راز جتوئی صاحب کے مابین ایسے گہرے تعلقات ہیں کہ اکثر لوگ انہیں ہمارا بزرگ یا کاروبار حصہ دار تصور کرنے لگتے ہیں۔ یہ اتنے شفیق ہیں کہ ہمارے معمولی سے نقصان پر بھی تڑپ اٹھتے ہیں اور کبھی کبھار تو ہمیں ایسا ڈانٹتے ہیں جیسا کہ یہ اپنی اولاد کو تنبیہ کر رہے ہوں۔جدید سرائیکی غزل کے بانی اور ادیب جناب اقبال سوکڑی صاحب مورخہ 7-3-93کو لکھتے ہیں کہ ’’سئیں راز جتوئی انہیں انتھک سرائیکی ورکریں دا موہری اے جئیں صرف تے صرف سرائیکی زبان و ادب تے سرائیکی لوکیں کو انپڑاں مقام ڈیوائزدا پکا ارادہ کیتا ہویا اے ایں عظمی شخص کوں میں تقریباً 35سال کنوں ڈیداں بیٹھاں ایندی جدوجہد وچ ذرا بھروی تھوڑنئیں آئی۔ملک روشن ضمیر گھنجیرہ ضلع میانوالی سے لکھتے ہیں ’’آپ نے 1970ء سے آج تک چوبیس سال میں جو کام کیا ہے اس سے سرائیکی قومیت کو بہت تقویت ملی ہے اور سرائیکی قوم نے اس کا بہت اثر لیا ہے۔ قطعہ : معروف سرائیکی شاعر خادم حسین مخفی: جندڑی جیوے راز جتوئی مرد ہے مایہ ناز جتوئی نظم نثر وچ رکھدے مخفی وکھرا ہے انداز جتوئی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر