وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متحدہ ہندوستان میں سول نافرمانی کا جدید تصور جنوبی افریقہ سے گاندھی جی ساتھ لائے تھے۔ اس کا پہلا بھرپور استعمال 1919 میں رولٹ ایکٹ جیسے کالے قانون کے خلاف ہوا۔
اس دوران جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہوا۔ 1920 سے 1922 تحریکِ خلافت و سول نافرمانی و تحریکِ ترکِ موالات ساتھ ساتھ چلتے رہے اور انگریز کو رولٹ ایکٹ واپس لینا پڑا۔
1930 میں ستیہ گرہ کے نام سے سول نافرمانی کی تحریک چلی۔ گاندھی جی نے نوآبادیاتی قوانین توڑتے ہوئے نمک مارچ کی قیادت کی اور گرفتاریاں پیش کیں۔
1942 تا 1945’ ہندوستان چھوڑ دو‘ تحریک میں ایک لاکھ سے زائد کانگریسی گرفتار ہوئے۔ کسی لیڈر نے ضمانت نہیں کروائی۔
آزادی کی تحریک کے دوران گاندھی جی نے مجموعی طور پر ساڑھے چھ برس اور نہرو نے لگ بھگ نو برس مختلف اوقات میں انگریز کی قید برداشت کی اور لکھنے پڑھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
1930 کے عشرے میں ہی صوبہ سرحد اور بلوچستان میں عدم تشدد کے اصول پر استوار خدائی خدمت گار تحریک کےغلامی مخالف احتجاجوں کے دوران بیسیوں کارکن شہید اور سینکڑوں گرفتار ہوئے۔ مگر تحریک کچلی نہ جا سکی۔
اس دور میں کسی سیاسی کارکن کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست یا بعد از گرفتاری اچھے کردار کے مظاہرے کے تحریری وعدے پر رہائی کو معیوب حرکت سمجھا جاتا تھا تاوقتیکہ حکومتِ وقت ازخود مقدمات واپس لے کر رہا کرنے پر مجبور ہو جائے۔
پاکستان بننے کے بعد 1952 میں بنگلہ کو قومی زبان قرار دینے کی تحریک یا کراچی میں بائیں بازو کی طلبا تحریک کو نوآبادیاتی طرز پر ریاستی تشدد سے دبانے کی کوشش ہوئی ۔
1968 میں ایوبی آمریت کے خلاف بھرپور طلبا مزدور تحریک چلی جس میں ذوالفقار علی بھٹو بھی کچھ دن گرفتار رہے اور بھوک ہڑتال بھی کی۔
1970 کے عام انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے کے خلاف مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی مزاحمتی تحریک کو سنجیدگی سے نہ لینے کا نتیجہ سب جانتے ہیں۔
1977 میں انتخابی دھاندلیوں کے ردِعمل میں نو جماعتی قومی اتحاد کی سول نافرمانی، پہیہ جام اور جیل بھرو تحریک پر مشتمل بلوہ ناک احتجاج کا نتیجہ قوم نے دیکھا بھی اور اگلے 11برس بھگتا بھی۔
اور پھر اسی آمرانہ گھٹن کے عشرے کے دوران 1983 میں ایم آر ڈی کی تحریک بھی اسی ملک نے دیکھی۔ تب تک لگنے والے تین مارشل لاؤں کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں سب سے شدید مزاحمتی تحریک بھی یہی تھی جو سندھ میں پورے جذبے سے اور پنجاب میں جزوی طور پر چلی۔
پھر کبھی ایسی عوامی مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ کیونکہ لوگوں نے جن رہنماؤں پر اندھا اعتماد کیا ان رہنماؤں نے لوگوں پر اعتماد کرنے کی راہ سے بتدریج کنارہ کشی اختیار کر لی اور سیاست رفتہ رفتہ جدوجہد کی چلچلاتی دھوپ سے بچنے کے لئے موقع پرستی کی چھتری پکڑ کے سمجھوتوں کی پگڈنڈی پر چڑھتی چلی گئی۔
اس بیگانگی و بے زاری کا نتیجہ تاریخ و جغرافیے و فلسفے و کتاب و منشور سے نابلد دولے شاہی دماغوں کے اناڑی سرکس کی شکل میں سب کے سامنے لہلہا رہا ہے۔
ہر ادارہ بزعمِ خود اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ فوجی آمروں نے تو محض آئین روندا تھا، آج اسی آئین کے ہر ہر صفحے کو جہاز بنا کے اڑانے کا مقابلہ ہے۔
22 لاکھ زیرِ التوا مقدماتی فائلوں کے انبار میں چھپی عدلیہ کی بیشتر توجہ انتظامیہ کے اسکرو ٹائٹ کرنے پر ہے۔
صدرِ مملکت چیف الیکشن کمشنر کی سطح پر اتر آئے ہیں۔ وزیرِ خزانہ آئی ایم ایف کو علمِ معاشیات پڑھانے پر بضد ہیں۔
وزیرِاعظم کو یقین ہے کہ تاریخ کی سب سے بڑی شہبازی کابینہ اگر سادگی و کفایت شعاری اپنا لے تو باقی قوم اور ادارے بھی خود بخود کفایت شعار ہوتے جائیں گے۔ انھیں یقینِ کامل ہے کہ بال مونڈھنے سے مردے کا وزن کم کیا جا سکتا ہے۔
قبل از گرفتاری ضمانت کروا کے جیل بھرو آنڈولن کا آدیش دینے والے عمران خان کو اس بار بھی پورا بھروسہ ہے کہ جہاں درجن بھر بجلی کے بل جلانے والی ڈھائی دن کی تحریکِ سول نافرمانی، 126 دن کا دھرنا، وفاقی دارالحکومت کا لاک ڈاؤن، پونے چار برس کی بے اختیار بااختیاری، دو عدد آزادی مارچ اور دو صوبائی اسمبلیوں کی تڑواہٹ مطلوبہ نتائج پیدا نہ کر سکی وہاں اب جیل بھرو تحریک ضرور کوئی نہ کوئی چمتکار دکھا دے گی۔
مگراس جیل بھرو تحریک نے تو برصغیر میں پچھلے 100 برس میں چلنے والی تمام ایسی تحریکوں کو مات دے دی ہے۔
پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ رہنما تحریک منظم کرنے کے جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے پہلی فرصت میں جیل چلے گئے اور کارکن ٹاپتے رہ گئے اور رہنماؤں کے لواحقین دوسرے ہی دن حبسِ بے جا کی شکایت لے کر عدالت پہنچ گئے۔
یہ پہلی جیل بھرو تحریک ہے جس میں پولیس وینز کھڑی کھڑی اباسیاں لے رہی ہیں اور نوکری سے بیزار پولیس والے موبائل فون پر ’کنے کنے جانا اے بلو دے گھر‘ سن رہے ہیں۔
کُل ملا کے ہر سطح پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے یا نظر آ رہا ہے آخر کیا ہے؟ کامیڈی یہ نہیں ہے، ٹریجڈی یہ نہیں ہے، بلیک کامیڈی یہ نہیں ہے، کامک ٹریجڈی یہ نہیں ہے۔
جس حیرت پر کچھ عرصے پہلے تک تکیہ تھا وہ کم بخت بھی دم دبا کے پتلی گلی سے نکل بھاگی۔
آخر کوئی تو لال بھجکڑ بتائے کہ ہم تاریخ کے کس دور سے گزر رہے ہیں؟ گزر بھی رہے ہیں یا گزر چکے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر