یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انارکلی میں ایک کیریکٹر تو تھا عادل جو کمیونسٹوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتا تھا: چائے کی پیالیوں، سیگریٹوں کے ٹوٹے اور ڈوڈھ (ڈیڑھ) سو روپے کو رقم کہنے والے….. یہ ہیں کمیونسٹ۔
لیکن ایک ڈاکٹر موت بھی تھا۔ سائیکل کے ساتھ پیدل گھسٹتا یا سائیکل کو ساتھ ساتھ گھسیٹتا ہوا، درمیان سے گنج، عمر رسید، سٹپٹایا ہوا مگر پرسکون بھی۔
اُسے ڈاکٹر عین غین بھی کہتے تھے کیونکہ اصل نام عبدالغفار تھا۔ سننے میں آیا کہ وہ کبھی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے پڑھتا تھا مگر کسی وجہ سے نکالا گیا۔ پھر بھی وہ کبھی کبھی کلاسز لے لیا کرتا تھا۔ چنانچہ نام ہی ڈاکٹر پڑ گیا، اور غالباً رویے کی وجہ سے ڈاکٹر موت کہلانے لگا۔
وہ چپ چاپ بیٹھ کر جنوبی پنجاب سے آئے ہوئے نوجوان مارکسیوں اور اندرونِ شہر سے تعلق رکھنے والے بے عملوں کی باتیں اور مباحث سنتا۔ ایک دوست نے آج بتایا کہ ایک بار اُس نے سب کے جانے کے بعد کہا، ’’یہ مارکسزم کا قبرستان ہے۔ یہ کرسیاں دیکھ رہے ہو؟ یہ کرسیاں نہیں، اور یہ مارکسزم کی قبریں ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر