وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بیماری آج کی نہیں بلکہ پینسٹھ برس سے لاحق ہے۔انیس سو اٹھاون سے اب تک پاکستان تئیس بار آئی ایم ایف کے پاس گیا۔
ان پروگراموں کے زیرِ سایہ پاکستان نے پچھتر میں سے اب تک پینتیس برس گذار لیے۔گویا اوسطاً پاکستان کو ہر تین برس بعد آئی ایم ایف کی ضرورت پڑتی ہے۔
انیس سو اٹھاسی سے تاحال پینتیس برس میں سے تئیس بجٹ ایسے گذرے ہیں جن میں پاکستان کو مسلسل توازنِ ادائیگی کا سنگین خسارہ درپیش رہا لہٰذا کشکول توڑنے کے بڑکیلے عزم کے باوجود اس پورے عرصے میں آئی ایم ایف کا دامن تھامنا پڑا۔
ایوب خان سے آج تک کوئی ایسی حکومت نہیں گذری جس نے آئی ایم ایف سے رجوع نہ کیا ہو۔ آخر پاکستانی معیشت کو ایسی کون سی بیماری لاحق ہے جس کا پینسٹھ برس میں ایک درجن سے زائد حکومتیں بھی علاج نہ کر پائیں۔بلکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اور اپنے تئیں ہر طرح کی دوا کی۔
انیس سو بہتر سے اب تک ٹیکس ڈھانچے میں اصلاحات اور ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کی لگ پندرہ سنجیدہ کوششیں ہوئیں۔کمیشنوں اور کمیٹیوں کی موٹی موٹی رپورٹیں بھی بنیں۔مگر ہر رپورٹ کے ساتھ ساتھ موٹی گردنیں اور موٹی ہوتی گئیں اور پتلی گردنیں ہر آہنی و معاشی کھانچے میں ٹھونسنے کی کوشش ہوتی رہی۔
یہ مصیبت نہ آسمان سے اتری ہے ، نہ ہی یہود و نصاری و ہنود کی سازش ہے۔بلکہ یہ مصیبت ہم نے برس ہا برس کی محنت سے خود اپنے لیے دن رات ایک کر کے کھڑی کی ہے۔
جب بین الاقوامی ادارے چند برس پہلے لال بتی دکھا رہے تھے تو ہم مذاق سمجھتے ہوئے یہ کہہ کے ٹال رہے تھے کہ یہ لوگ ہماری ترقی سے جلتے ہیں۔
مثلاً اپریل دو ہزار اکیس میں اقوامِ متحدہ کے ذیلی ترقیاتی ادارے یو این ڈی پی کی نیشنل ہیومین ڈویلپمنٹ رپورٹ میں کھل کے بتا دیا گیا تھا کہ معیشت کے کنوئیں سے جب تک بالائی ایک فیصد طبقے کو حاصل مراعاتی کتا نہیں نکلے گا۔ چالیس چھوڑ چالیس ہزار ڈول پانی بھی نکال لیں تو کنواں پاک نہیں ہوگا۔
یہ رپورٹ کسی مقامی ادارے یا کسی سرکردہ سیاسی جماعت کے پروپیگنڈہ سیل نے نہیں بنائی بلکہ یو این ڈی پی نے مرتب کی تھی۔اس کے مطابق حکمران اشرافیہ ( کارپوریٹ ناخدا ، بڑے صنعت کار ، سرمایہ کار ، بینکنگ سیکٹر ، سیاسی و روحانی قوت سے لیس جاگیردار و اہلِ سیاست اور عسکریہ ) کو لگ بھگ اٹھارہ ارب ڈالر سالانہ کی براہ راست یا بلاواسطہ مراعات و سہولتیں میسر ہیں۔
اس ایک فیصد طبقے کو ترجیحی بنیادوں پر تعلیم ، صحت ، انصاف ، سرکاری محکوموں کی خدمات اور ٹیکس چھوٹ و ترغیبات کے ذریعے سرکاری خزانے تک مکمل رسائی حاصل ہے۔جب کہ ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی مد میں اس طبقے پر بوجھ لگ بھگ دس فیصد ہے۔
باقی نوے فیصد بوجھ ان طبقات نے اٹھا رکھا ہے جن کا ان جلی و خفی مراعات و ترغیبات سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں۔بلکہ ان کی حیثیت اس گدھے کی ہے جس پر ایک فیصد طبقہ مسلسل سواری گانٹھ رہا ہے۔سیاسی جماعتوں ، پارلیمنٹ ، عدلیہ و عسکریہ سمیت ہر کلیدی ادارے کی کلید اسی طبقے کے ہاتھ میں ہے۔
جو بھی امداد اندرونی و بیرونی طور پر قرضوں ، منافع ، گرانٹ یا کرائے کی شکل میں حاصل ہوتی ہے وہ اسی طبقے میں اوپر ہی اوپر بٹ جاتی ہے اور اس مراعاتی میز پر جو تھوڑی بہت ہڈیاں بچ جاتی ہیں وہ باقیوں کے حصے میں آ جاتی ہیں اور وہ ان ہڈیوں پر لگے گوشت کے تھوڑے بہت ریشے چچوڑ کے ہی خوش ہو جاتے ہیں۔
قوانین سازی بھی یہی ایک فیصد لوگ ایک فیصد کے مفاد میں کر کے سو فیصد پر لاگو کرنے کے لیے اسے قومی قانون سازی کی عبا پہنا دیتے ہیں اور پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے انھیں جائز قوانین سمجھ کے ان کے بے انصاف عمل درآمد پر لگ جاتے ہیں۔
بالائی بیس فیصد ( اعلیٰ متوسط طبقے سیمت ) پاکستانی قومی آمدنی کا پچاس فیصد کنٹرول کرتے ہیں اور انتہائی نچلی سطح پر زندگی کاٹنے والے بیس فیصد پاکستانیوں کے حصے میں محض سات فیصد قومی آمدنی آتی ہے۔
اب یہ فرق اور بڑھ گیا ہے کیونکہ روپے کی ناقدری اور معیشت کی تیز رفتار پھسلن کے سبب متوسط طبقہ بھی تیزی سے سکڑتا جا رہا ہے۔
یو این ڈی پی نے دو برس پہلے بتایا تھا کہ دو ہزار نو میں متوسط طبقے کی تعریف میں بیالیس فیصد آبادی شامل تھی۔دو ہزار اٹھارہ انیس میں یہ کم ہو کے چھتیس فیصد پر پہنچ گئی اور اب ایک غیر حتمی تخمینے کے مطابق یہ تناسب کم ہو کے تیس تا پچیس فیصد رہ گیا ہے۔
ترقیاتی منصوبوں کا بہت ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے مگر رپورٹ کے مطابق سینتیس فیصد ترقیاتی منصوبے بالائی بیس فیصد کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہیں۔جب کہ نچلے بیس فیصد آبادی کے حصے میں محض چودہ فیصد منصوبے ہی آتے ہیں اور ان کا معیار بھی ویسا ہی ہوتا ہے۔یعنی عملاً ناقص اور نقشے پر انتہائی خوشنما منصوبے۔
اب تو آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر نے بھی کھل کے کہہ دیا ہے کہ جب تک ٹیکسوں کا رخ بالائی طبقات کی جانب اور مراعات کا رخ نچلے طبقات کی طرف نہیں ہوگا پاکستان معاشی دلدل میں ہی پھنسا رہے گا۔
مگر منی بجٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی حکومت مراعاتی طبقے پر ہاتھ ڈالنے کے لیے آمادہ نہیں اور نچلے طبقات اس قدر ادھ موئے ہو چکے ہیں کہ ان سے مزید جوس نکالنا اب بیل کا دودھ دوہنے جیسا ہوتا جا رہا ہے۔
چار ماہ پہلے تک مفتاح اسماعیل پاکستان کے وزیرِ خزانہ تھے۔بقول ان کے
’’ یہ ملک صرف آٹھ ہزار لوگوں کے لیے بنا ہے۔عمران خان کی آخری کابینہ میں سے ساٹھ فیصد عہدیدار ایچیسن کے فارغ التحصیل تھے۔اور یہ صرف ایک کابینہ کا معاملہ نہیں۔ہر کابینہ میں لگ بھگ نصف وزیر ایچیسن کے ہوتے ہیں۔سپریم کورٹ کے آدھے جج ایچیسن کے ہیں۔
آدھے کاروباری اور صنعت کار کراچی گرامر اسکول نے پیدا کیے ہیں۔اگر ملٹی نیشنل کمپنیز کی بالائی قیادت ، بینکنگ سیکٹر کی لیڈرشپ اور سیاستدانوں اور عسکریہ کی بالائی کریم کو بھی شامل کر لیا جائے تو سارا گیم ایچیسن ، کراچی گرامر اسکول ، کیڈٹ کالج حسن ابدال ، کاکول ، روٹس اور بیکن ہاؤس سمیت درجن بھر اداروں کے گرد گھوم رہا ہے۔
اور اگر موجودہ ڈھانچہ ایسے ہی رہا تو ان ہی اداروں سے ہر سال فارغ التحصیل ہونے والے لگ بھگ آٹھ ہزار بچے باقی چار لاکھ اسکولوں میں پڑھنے والے چالیس لاکھ بچوں کو نچلی سطح پر استعمال کرتے ہوئے ہر شعبے میں ایسے ہی حکمرانی کرتے نظر آئیں گے جیسے کہ ان درجن بھر تعلیمی اداروں سے نکلنے والے ان بچوں کے والدین اس وقت حکمرانی کر رہے ہیں‘‘۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر