محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا تعلق احمد پورشرقیہ سے ہے، یہ بہاولپور ضلع کی ایک تحصیل ہے۔ ہمارے شہر میں سرائیکی اکثریت میں ہیں مگر پنجابی بولنے والے گھرانے بھی ہیں، میرے کئی دوست، کلاس فیلو پنجابی زبان بولنے والے ہیں۔ ایک ہی محلے میں بعض گھر سرائیکیوں کے اور بعض پنجابیوں کے ہیں۔
ہمارے شہر میں کسی دس سالہ بچے سے بھی پوچھیں تو وہ بتا دے گا کہ اس محلے میں کون سے گھر سرائیکیوں کے ہیں، کون سے پنجابیوں کے ۔
احمد پورشرقیہ، بہاولپور، ملتان، ڈی جی خان، راجن پور، لودھراں، مظفر گڑھ، لیاقت پور، خان پور، صادق آباد، رحیم یار خان جیسے شہروں میں کسی دس بارہ سالہ بچے سے پوچھے تو وہ بھی جانتا ہوگا کہ سرائیکی اور پنجابی ایک دوسرے سے الگ ہیں، ان کی نہ صرف زبان الگ ہے بلکہ کلچر، رسم ورواج ، تہذیب بلکہ بہت سے کھانے کی ڈشز بھی الگ ہیں۔
سرائیکی وسیب میں رہنے والے سب اس فرق سے واقف ہیں اور اسے مان کر،جان کر، سمجھ کر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، آپس میں تلخی اور نفرت نہیں ہے کیونکہ یہ ایک دوسرے کی شناخت کا احترام کرتے ہیں۔
آپ سرائیکی علاقوں میں چلے جائیں، کبھی کوئی پنجابی گھرانہ یہ نہیں کہے گا کہ ہمارے ہمسایہ میں جو سرائیکی گھرانہ ہے یہ جو زبان بولتا ہے یہ پنجابی کا لہجہ ہے۔ اس کے بجائے اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ دونوں زبانوں، تہذیبوں اور کلچر میں کس قدر فرق ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت بار آپس میں سرائیکی پنجابی گھرانے آپس میں شادی بھی اسی فرق کی بنیاد پر نہیں کرتے کہ الگ کلچر، الگ زبان ہے تو ہماری لڑکی وہاں گئی تو اسے مشکل ہوگی یا بہو لے آئے تو شائد وہ ایڈجسٹ نہ کر سکے۔ بہت بار رشتے ہوبھی جاتے ہیں مگر بہرحال یہ فرق تب بھی دونوں گھرانوں کے ذہنوں میں ہوتا ہے۔
یہ فرق فنون لطیفہ میں بھی ہے، سرائیکی اور پنجابی میوزک میں بہت فرق ہے، آج کے اس یوٹیوب کے دور میں یہ معلوم کرنا کتنا ایک مشکل ہے؟پٹھانے خان کو سن لیں، حسینہ ممتا، مستانہ پروانہ ، موہن بھگت وغیرہ کو سن لیں،پتہ چل جائے گا۔
کبھی کسی سرائیکی گھر کی شادی اٹینڈ کر کے دیکھ لیں۔ وہاں بھنگڑا یا لڈی نہیں بلکہ سرائیکی جھمر ڈالی جائے گی ، سرائیکی موسیقی خاص طور سے ٹیونڈ ہی جھمر کی مناسبت سے ہے۔ جبکہ پنجابی موسیقی میں بھنگڑے کے ساتھ فطری مناسبت ہے۔ ؎
مجھے ان بے چاروں پر ترس آتا ہے جو اس سادہ سی باتوں سے واقف نہیں ۔ جو نجانے کس عصبیت کا شکار ہیں، کون سا فتور ذہنوں میں سمایا ہوا ہے کہ وہ کئی کروڑ لوگوں کی بنیادی شناخت مٹانے کی بات کرتے ہیں۔
نجانے کیوں ؟
اگر وہ سرائیکی کو واقعی اپنا حصہ سمجھتے ہیں، واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ سرائیکی زبان پنجابی کاحصہ یا لہجہ ہے اور وہ محبت میں سرائیکیوں پر اپنا کلیم کر رہے ہیں
تو
انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس حرکت سے سرائیکیوں اور پنجابیوں میں کشیدگی بڑھتی ہے،نفرت اور بیزاری پیدا ہوتی ہے ، ردعمل پیدا ہوتا ہے۔
اگر یہ لوگ سرائیکیوں کو اپنے قریب لانا چاہتے ہیں، اپنا حصہ بنائے رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں سرائیکی شناخت کو مٹانے کے بجائے سرائیکی شناخت کو تسلیم کرنا ہوگا، انہیں سرائیکیوں کو عزت دینا، ان سے محبت کرنا، ان کی لسانی، سیاسی شناخت کو تسلیم کرنا ہوگا۔
تب دونوں قوموں کے درمیان محبتیں بڑھیں گی۔ تب دونوں زبانیں بھی ایک دوسرے کے قریب آئیں گی۔ ممکن ہے سیاسی اشتراک بھی بڑھے۔
اس کی مثال سندھی اور سرائیکی ہیں۔ سندھیوں نے کبھی سرائیکی الگ شناخت سے انکار نہیں کیا، اس کا اقرار کیا، اسے تسلیم کیا اور محبت دکھائی۔ اسی لئے سرائیکی اور سندھی زبانین ایک دوسرے سے قریب ہیں، دونوں میں لسانی، سیاسی اشتراک بھی ہے۔
حتیٰ کہ سرائیکی خود کہتے ہیں کہ سرائیکی، سندھی سسٹرز لینگویجز ہیں۔
یہ بات سرائیکی وسیب میں رہنے والے بیشتر پنجابی سپیکنگ گھرانے جانتے ہیں۔
کاش یہ لاہور اور سنٹرل پنجاب کے پنجابی شاونسٹ بھی جان اور سمجھ سکیں۔
مزے کی بات ہے کہ ان کی متعصب کوششوں کا فائدہ ٹکے کا بھی نہیں ہوتا۔ ان کی نہ کوئی بات سنی جاتی ہے اور نہ ہی ریاست نے کبھی ان مٹھی بھر شاونسٹوں کو درخوراعتنا سمجھا ہے۔
جیو ٹی وی بے شک دیکھو یا نہ دیکھو، مگر یہ باتیں جان کر جیو، سمجھ کر جیو۔
ہمارے شہر میں کسی دس سالہ بچے سے بھی پوچھیں تو وہ بتا دے گا کہ اس محلے میں کون سے گھر سرائیکیوں کے ہیں، کون سے پنجابیوں کے ۔
احمد پورشرقیہ، بہاولپور، ملتان، ڈی جی خان، راجن پور، لودھراں، مظفر گڑھ، لیاقت پور، خان پور، صادق آباد، رحیم یار خان جیسے شہروں میں کسی دس بارہ سالہ بچے سے پوچھے تو وہ بھی جانتا ہوگا کہ سرائیکی اور پنجابی ایک دوسرے سے الگ ہیں، ان کی نہ صرف زبان الگ ہے بلکہ کلچر، رسم ورواج ، تہذیب بلکہ بہت سے کھانے کی ڈشز بھی الگ ہیں۔
سرائیکی وسیب میں رہنے والے سب اس فرق سے واقف ہیں اور اسے مان کر،جان کر، سمجھ کر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، آپس میں تلخی اور نفرت نہیں ہے کیونکہ یہ ایک دوسرے کی شناخت کا احترام کرتے ہیں۔
آپ سرائیکی علاقوں میں چلے جائیں، کبھی کوئی پنجابی گھرانہ یہ نہیں کہے گا کہ ہمارے ہمسایہ میں جو سرائیکی گھرانہ ہے یہ جو زبان بولتا ہے یہ پنجابی کا لہجہ ہے۔ اس کے بجائے اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ دونوں زبانوں، تہذیبوں اور کلچر میں کس قدر فرق ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت بار آپس میں سرائیکی پنجابی گھرانے آپس میں شادی بھی اسی فرق کی بنیاد پر نہیں کرتے کہ الگ کلچر، الگ زبان ہے تو ہماری لڑکی وہاں گئی تو اسے مشکل ہوگی یا بہو لے آئے تو شائد وہ ایڈجسٹ نہ کر سکے۔ بہت بار رشتے ہوبھی جاتے ہیں مگر بہرحال یہ فرق تب بھی دونوں گھرانوں کے ذہنوں میں ہوتا ہے۔
یہ فرق فنون لطیفہ میں بھی ہے، سرائیکی اور پنجابی میوزک میں بہت فرق ہے، آج کے اس یوٹیوب کے دور میں یہ معلوم کرنا کتنا ایک مشکل ہے؟پٹھانے خان کو سن لیں، حسینہ ممتا، مستانہ پروانہ ، موہن بھگت وغیرہ کو سن لیں،پتہ چل جائے گا۔
کبھی کسی سرائیکی گھر کی شادی اٹینڈ کر کے دیکھ لیں۔ وہاں بھنگڑا یا لڈی نہیں بلکہ سرائیکی جھمر ڈالی جائے گی ، سرائیکی موسیقی خاص طور سے ٹیونڈ ہی جھمر کی مناسبت سے ہے۔ جبکہ پنجابی موسیقی میں بھنگڑے کے ساتھ فطری مناسبت ہے۔ ؎
مجھے ان بے چاروں پر ترس آتا ہے جو اس سادہ سی باتوں سے واقف نہیں ۔ جو نجانے کس عصبیت کا شکار ہیں، کون سا فتور ذہنوں میں سمایا ہوا ہے کہ وہ کئی کروڑ لوگوں کی بنیادی شناخت مٹانے کی بات کرتے ہیں۔
نجانے کیوں ؟
اگر وہ سرائیکی کو واقعی اپنا حصہ سمجھتے ہیں، واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ سرائیکی زبان پنجابی کاحصہ یا لہجہ ہے اور وہ محبت میں سرائیکیوں پر اپنا کلیم کر رہے ہیں
تو
انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس حرکت سے سرائیکیوں اور پنجابیوں میں کشیدگی بڑھتی ہے،نفرت اور بیزاری پیدا ہوتی ہے ، ردعمل پیدا ہوتا ہے۔
اگر یہ لوگ سرائیکیوں کو اپنے قریب لانا چاہتے ہیں، اپنا حصہ بنائے رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں سرائیکی شناخت کو مٹانے کے بجائے سرائیکی شناخت کو تسلیم کرنا ہوگا، انہیں سرائیکیوں کو عزت دینا، ان سے محبت کرنا، ان کی لسانی، سیاسی شناخت کو تسلیم کرنا ہوگا۔
تب دونوں قوموں کے درمیان محبتیں بڑھیں گی۔ تب دونوں زبانیں بھی ایک دوسرے کے قریب آئیں گی۔ ممکن ہے سیاسی اشتراک بھی بڑھے۔
اس کی مثال سندھی اور سرائیکی ہیں۔ سندھیوں نے کبھی سرائیکی الگ شناخت سے انکار نہیں کیا، اس کا اقرار کیا، اسے تسلیم کیا اور محبت دکھائی۔ اسی لئے سرائیکی اور سندھی زبانین ایک دوسرے سے قریب ہیں، دونوں میں لسانی، سیاسی اشتراک بھی ہے۔
حتیٰ کہ سرائیکی خود کہتے ہیں کہ سرائیکی، سندھی سسٹرز لینگویجز ہیں۔
یہ بات سرائیکی وسیب میں رہنے والے بیشتر پنجابی سپیکنگ گھرانے جانتے ہیں۔
کاش یہ لاہور اور سنٹرل پنجاب کے پنجابی شاونسٹ بھی جان اور سمجھ سکیں۔
مزے کی بات ہے کہ ان کی متعصب کوششوں کا فائدہ ٹکے کا بھی نہیں ہوتا۔ ان کی نہ کوئی بات سنی جاتی ہے اور نہ ہی ریاست نے کبھی ان مٹھی بھر شاونسٹوں کو درخوراعتنا سمجھا ہے۔
جیو ٹی وی بے شک دیکھو یا نہ دیکھو، مگر یہ باتیں جان کر جیو، سمجھ کر جیو۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر