رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس طرح نہ معیشتیں سنبھلتی ہیں اور نہ تقدیریں بدلتی ہیں بلکہ صرف منزلیں کھو جاتی ہیں ۔۔۔
آجکل سوشل میڈیا پر ملکی ابتری کو بہتری میں بدلنے کے جو میسجز چل رہے ہیں یا چلوایا جا رھے ہیں کہ قرضے کس طرح اتر سکتے ہیں؟ مہنگائی کس طرح ختم ہو سکتی ھے؟ وہ کچھ اس طرح کہ "مرعات ختم کریں تمام آرمی ، نیوی ، ائرفورس کے افسران، ججز، بیوروکریسی،وزیروں ، مشیروں کی سرکای گاڑیاں بیچ دی جائیں۔ ان کے گھر کے گیس بجلی،ٹیلیفوں کے بلوں کی ادائیگی انکی تنخواہوں سے ادا ہو۔ بیرونی اشیاء کا استعمال بند کریں۔۔ ایک ماہ میں کھربوں روپے کی بچت ہو جائے گی، ایک سال میں سارے کا سارا بیرونی و اندرونی قرضہ ادا ہو جائگا ۔ ایک مینے میں تمام بنیادی اشیاء کی قیمتیں 50 سال پرانی حالت پر اجائیں گی۔۔۔۔۔۔”
یہ حکمران طبقے کی پھیلائی دانش کی کمینگی ھے کہ لوگوں کو چھوٹی چھوٹی دلکشیوں میں الجھا کر ان کو بڑے مقاصد سے دور کر لیا جائے ۔ تو جو لوگ ایسی تجاویز پیش کر رھے ہیں ان سے پہلا سوال یہ کیا جائے کہ ایسا کون کرے گا؟ یہی حکمران؟ اگر جواب ہاں میں ھے تو پھر سوال ھے کہ کیا گھوڑا گھاس سے دوستی کر کے بچ سکتا ھے؟ اور کیا یہ ایک سال تک ایسا کر کے ایسے ایماندار رہ سکتے ہیں کہ اس قدر جمع شدہ وسائل کو پھر ہڑپ نہ کر جائیں؟
سو یہ کوئی حل نہیں ۔ نہ تو ایسا ہمارے کہنے سے یہ ممکن ھے اور نہ حکمران ایسا کرنے کا سوچ سکتے ہیں کہ جو ان کے مفاد کے خلاف ہو یا ان کے منہ سے نوالہ چھننے کے مترادف ہو ۔۔۔۔۔۔
اپنی تقدیریں سنوارنے کیلئے محنت کش طبقے کو حکمران طبقے سے کسی خیرات یا بھیک کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ جدوجہد اور لڑائی کی ضرورت ہوتی ھے۔ ایسی جدوجہد اور لڑائی کی ضرورت کہ جس کے ذریعے خود عوامی جذبوں کو فتح کیا جاتا ھے۔ پھر اسی فتح کی طاقت کے بلبوتے پہ فیصلے کئے جاتے ہیں کہ ” تمام سامراجی قرضوں کی ادائییگی بند ۔ لوٹ مار کرنے والوں کے بیرونِ ملک تمام اثاثے ضبط۔ (جو ملک تعاون نہ کرے اپنے ملک میں اس کے کاروبار اور اثاثے ضبط)،
بالادست طبقے کی تمام وسائل(جاگیروں اور صنعتوں پر مبنی جائیدادیں ضبط)، ایک سپاھی سے لے کر جرنیل تک تنخواہیں عام مزدوروں کے برابر ۔ ریاست اور ریاست کے تمام ذرائع پیداوار کا کنٹرول قطعی اکثریتی محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں”۔ ایک مکمل غیر طبقاتی سماج ۔۔۔۔۔
یہ سب یقیناً مشکل لگتا ھے مگر نا ممکن بالکل نہیں۔ کیونکہ اب تک کی انسانی تاریخ میں ان حالات سے بھی ابتر حالات کو اس عہد کے انسانوں نے دیکھا ھے، سہا ھے اور پھر بدلا بھی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔سو دیر ھے اندھیر نہیں۔ زندگیاں ہماری ہیں تو فیصلے بھی ہمارے ہونے چاہئیں کہ یہی انسانی شرف بھی ھے اور انسانیت کی معراج بھی ۔
سچے جذبے سلامت تو منزلیں دو گام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر