شمائلہ حسین
کئی بار سوشل میڈیا پر ایک سوال نظر سے گزرا کہ اگر محبت پاکیزہ جذبہ ہے اور جسم اس میں شامل نہیں ہوتا تو کسی عورت کو کسی خواجہ سرا سے محبت کیوں نہیں ہو جاتی ؟
اب اس سوال کا جواب دینے پر آئیں تو سیدھا سا جواب جو خود سوال کی صورت ہی رکھتا ہے پوچھنا پڑتا ہے کہ عورت کو عورت سے تو ہو جاتی ہے مرد کو مرد سے ہوجاتی ہے کیا آپ اس محبت کو قبول کر لیتے ہیں تو بس بات اتنی سی ہے کہ قبولیت سب سے بڑا مسئلہ ہے بھائی!
محبت جسم کے بغیر نہیں ہو سکتی لیکن آپ سماجی قاعدوں کے حساب سے مانتے کس والی محبت کو ہیں ۔
یہاں تو مرد کو عورت سے اور عورت کو مرد سے ہو تو وہ بھی چھپا کر رکھنی پڑتی ہے بھلے ان دونوں میں سگے میاں بیوی والا تعلق ہی کیوں نہ ہو ۔
انہیں لوگوں کے سامنے بہن بھائی سے بھی زیادہ پاکیزہ بن کے رہنے کی اداکاری کرنی پڑتی ہے۔
یقین جانیے کہ سارا بچپن ہم یہ ہی سمجھتے رہے کہ اگر اماں ابا سے ہنس کے بات کرلیتی ہیں تو وہ بہت ہی غلط خاتون ہیں ۔
اور ابا اگر کبھی اماں کا ہاتھ غلطی سے بھی پکڑ لیتے ہیں تو ابا کوئی اوباش آدمی ہیں البتہ اماں اپنے بھائی بلکہ منہ بولے بھائی کے گلے مل سکتی ہیں اور ابا بھی کزن سسٹر کو جپھی ڈال کر مل سکتے تھے یہ بہت جائز اور بر محل معلوم ہوتا تھا۔
لیکن اماں ابا آپس میں کیوں ؟ کیسے ؟ خوامخواہ ؟
یہ تو رہے ہمیشہ سے ہمارے سماجی قبولیت کے معیارات ۔۔
اب ذرا اس قبولیت اور معاملات کو سمجھئیے کہ جہاں بظاہر بہت فطری تعلق کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہو وہاں ان کے مطابق غیر فطری تعلقات کا کیا حشر ہوتا ہوگا۔
آپ کسی خواجہ سرا سے محبت کرتے بھی ہوں تو اس کا اظہار کیسے کریں گے ۔
اگر اس کا اظہار کر بھی دیں گے تو زمانے بھر کی لعنتوں ، ملامتوں ، فتووں اور شرمندگی سے کب تک لڑیں گے ۔
ہم تو وہ ہیں جن سے خواجہ سراوں کے حقوق کا بل برداشت نہیں ہوا اور ہم نے اسے ہم جنس پرستی کو قبول کروانے کا شاخسانہ سمجھ لیا ۔
پھر وہ ہاہاکار مچی کہ الامان۔۔۔
خود مجھے خواجہ سرا دوست ہونے پر طنز کا نشانہ بنایا جاتا رہا ۔
آپ تو ہماری دوستیوں کو بھی ماننے کو تیار نہیں ۔
ابھی آپ عورت کو مکمل انسان مانتے ہوئے ڈرتے ہیں کجا عورت اور خواجہ سرا کی نجی پسند نا پسند کو مانیں ۔
آپ جی بھر کے برا بھلا کہیں گے مجھے کہہ لیجئے لیکن صرف اتنا بتا دیں کہ آپ جسے محبت کہتے ہیں وہ دراصل کون کس سے کر رہا ہے۔
یہاں کون خود غرض نہیں ہے یہاں جسم و روح کا سکون کسے درکار نہیں ہے ۔
آپ مرد ہیں آپ کسی خواجہ سرا یا کسی ایسی عورت سے کتنی دیر محبت کر سکتے ہیں جو آپ کو دستیاب نہ ہو ۔
جس سے آپ جسم کا سکون طلب نہ کرتے ہوں ۔ کیا آپ پاکیزہ محبت کے روادار ہیں ۔
آپ عورتوں کا مذاق تو اڑاتے ہیں کہ وہ پاکیزہ محبت کا راگ الاپتی ہیں لیکن کسی نا مرد ، خواجہ سرا یا کمزور شخص سے محبت کیوں نہیں کرتیں
۔آپ کامذاق اڑانا بنتا ہے بھئی اس لیے کہ عام عورت ابھی بھی قصوں کہانیوں میں بیان کیے جانے والے جذبات کو اصلی اور قابل عمل سمجھ کر بعض اوقات اپنے سے ہر طرح کم سطح کے آدمی کے ساتھ عمر گزار دیتی ہے ۔ کبھی آپ اسے روایات کے نام پر باندھ لیتے ہیں تو کبھی جذبات کے نام پر اور ذرا ایمانداری سے بتایئے گا کیا یہ پاکیزہ محبت والی پخ بھی آپ کی اڑائی ہوئی نہیں ہے کیا ۔
کیا آپ کو یہ خوف کبھی نہیں رہا کہ آپ کے گھر کی عورت اپنے منہ زور جذبات کے ہاتھوں آپ کو زمانے میں رسوا نہ کردے اور کہیں آپ کی مردانگی کی اصل کا پول نہ کھول دے ۔
اب آپ کہیں گے کہ سب مرد ایسے نہیں ہوتے تو میں کہوں گی کہ شکر ہے کہ سب ایسے نہیں ہوتے ننانوے اعشاریہ ننانوے فی صد کے بعد جو شرح بچ جاتی ہے وہ واقعی ایسے نہیں ہوتے ۔
لیکن بات آپ کی درست ہے کہ پاکیزہ محبت کوئی نہیں ہوتی جہاں جنسی فعل کو گندا کام سمجھ کے کیا جائے اور گالیوں میں اس عمل کو ایسے پیش کیا جائے کہ جیسے مفعول ہونا کسی بھی جنس اور نسل کے لیے جرم ہو ۔ وہاں اس جذبے کو پاکیزگی سے جوڑنا چہ معنی دارد ۔
کیونکہ آپ طاقت ور ہیں تو عورتیں ، بچے ، خواجہ سرا اور تو اور جانور بھی آپ کے حرم میں شامل ہیں ۔
محبت کے اظہار اور اس کے عملی اظہار کا حق بھی آپ کو ہی حاصل ہےکہ عورتیں خواجہ سراؤں سے محبت کر بھی لیں گی تو قبول کون کرے گا۔
اس لیے عورتیں خواجہ سرا سے محبت نہیں کرتیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر